• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا ڈاکٹر سعید احمد صدیقی
منکرین آخرت کا حال:
الحمدللہ آج ہم انیسویں پارے کا خلاصہ پڑھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں، جس کی ابتدا میں بتایا گیا کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے اور طرح طرح کے اعتراضات اور مطالبے کرتے تھے، ان کی حالت قابل دید ہو گی۔
گمراہ کرنے والے دوست:
ظالم اور گمراہ تمنا کریں گے کہ رسولؐ کا ساتھ دیتے، ان لوگوں کا ساتھ نہ دیتے، جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔
اللہ کی بارگاہ میں شکوہ:
ایک انتہائی خوفناک اور تلخ حقیقت یہ ہو گی کہ قیامت کے دن رسول اللہؐ، اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کریں گے کہ میری قوم نے قران جیسی عظیم نعمت کی ناقدری کی اور اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔
انبیاء اور ان کی قومیں:
حضرت موسیٰؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت نوحؑ اور قوم عاد، ثمود، اصحاب الرس کا ذکر کیا کہ نافرمانی کے نتیجے میں تباہ ہوئیں، ساتھ ہی اللہ نے اپنے نبیؐ کو تسلی دی کہ مشرکین مکہ کی نافرمانی اور ایذا رسانی کی پروا نہ کریں، انہوں نے گزشتہ قوموں سے عبرت حاصل نہیں کی اور ان کا بھی یہی وطیرہ تھا۔
کائنات اور اس کی نعمتیں:
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی نعمتوں کا ذکر کیا کہ رات دن بنائے، بارش اور بادل کا نظام قائم کیا، لیکن لوگ ناشکری کرتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔
عبدالرحمٰن:
یعنی رحمٰن کے بندے جوکہ نیک ہیں، ان کی خوبیاں اور اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا (1) زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے، ان میں تواضع اور عاجزی ہوتی ہے (2) جاہلوں سے سلامتی کی بات کرتے ہیں (3) ان کی راتیں اپنے رب کے سامنے قیام اور سجدے میں گزرتی ہیں (4) جہنم کے عذاب سے بچنے کے لئے اپنے رب سے دعا کرتے ہیں (5) نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی بلکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں (6) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے (7) انسانی جانوں کا احترام کرتے ہیں، کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے (8) زنا اور بدکاری کے قریب بھی نہیں جاتے (9) جھوٹ اور جھوٹی گواہی سے بچتے ہیں (10) لغو اور برائی کی مجالس سے پہلوتہی کرتے ہیں (11) اللہ کی آیات سن کر بہرے اور اندھے نہیں بنتے بلکہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں (12) بیوی اور بچوں کے نیک ہونے اور آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی دعا کرتے ہیں۔
’’سورۃ الشعراء‘‘
ترتیبی اعتبار سے قرآن پاک کی چھبیسویں سورت ہے، جب کہ نزولی اعتبار سے اس کا نمبر47ہے، یہ مکی سورت ہے۔ اس سورت کے آخر میں شعراء کا تذکرہ ہے اس مناسبت سے ’’سورہ شعراء‘‘ کہلاتی ہے۔
قلبی کیفیت اور تڑپ:
سورت کے شروع میں حضورﷺ کی امت کے لئے کہ وہ ایمان اور ہدایت پر آ جائے، قلبی کیفیت اور تڑپ بیان کرتے ہوئے کہا اے نبیؐ! اگر کچھ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپؐ ان کے غم میں اپنی جان کو مت گھلائیں، بے شک ہم ایسی نشانیاں نازل کر سکتے ہیں، جن کے آگے منکرین کی گردنیں جھک جائیں، لیکن یہ لوگ حق کو جھٹلا چکے ہیں اس لئے انہیں عنقریب اپنے کئے کی سزا ملے گی۔
موسیٰؑ اور فرعون:
حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے واقعات کا تفصیل سے ذکر ہے کہ موسیٰؑ کس طرح فرعون کے دربار میں پہنچے، اسے اللہ کا پیغام پہنچایا، اس کو معجزات دکھائے لیکن وہ برابر انکار کرتا رہا اور حضرت موسیٰؑ پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا اور موسیٰؑ کے مقابلے پر جادوگروں کو جمع کیا اور مقابلہ کرایا، جادوگر معجزہ دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں ہو سکتا اور وہ حضرت موسیٰؑ اور ان کے رب پر ایمان لے آئے جس پر فرعون نے جادوگروں کو سخت سزائیں دینے کی دھمکی دی، مگر وہ ثابت قدم رہے۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ (1) حق کے مقابلے میں باطل نہیں ٹھہر سکتا (2) جب حق ظاہر ہو جائے تو جادوگروں کی طرح فوراً قبول کر لینا چاہئے، فرعون کی طرح ہٹ دھرمی نہیں کرنی چاہئے (3) حق پر جمے رہنا چاہئے کہ آخرکار فتح حق کی ہوتی ہے اور ظالموں کا مقدر ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
موسیٰؑ کا راتوں رات روانہ ہونا:
موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ہدایت فرمائی کہ ایمان والوں کو راتوں رات اپنے ساتھ لے کر روانہ ہو جائو، فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا تو موسیٰؑ نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی سمندر پر ماری تو بارہ راستے بن گئے اور آپؑ ساتھیوں سمیت سمندر میں اتر گئے۔ فرعون بھی اپنے لشکر سمیت سمندر میں اتر گیا، جب موسیٰؑ کے لشکر کا آخری آدمی بھی سمندر سے باہر نکل آیا اور فرعون کے لشکر کا آخری آدمی سمندر میں اتر گیا، تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو مل جانے کا حکم دیا اس طرح حضرت موسیٰؑ اپنے لشکر سمیت پار ہو گئے اور فرعون تمام فرعونیوں سمیت غرق ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نشان عبرت ٹھہرا۔
حضرت ابراہیمؑ:
حضرت ابراہیمؑ کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے سامنے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عظیم صفات کا ذکر کر کے انہیں بت پرستی سے روکنے کی کوشش کی، توحید کا نہایت موثر انداز میں سبق دیا۔
حضرت نوحؑ:
حضرت نوحؑ کی دعوت اور ان کی قوم کے انکار اور سرکشی اور پھر سرکشی پر اصرار اور پھر طوفان سے سرکش قوم کی ہلاکت اور حضرت نوحؑ اور مومنین کی نجات کا ذکر ہے۔
حضرت ہودؑ:
حضرت ہودؑ اور ان کی قوم، قوم عاد کا ذکر ہے کہ انہیں ہودؑ نے اللہ کی طرف دعوت دی مگر وہ نہ مانے اور تکبر کیا، اللہ کی نشانی کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں عذاب الٰہی کا شکار ہوئے، ہودؑ اور ماننے والے بچا لئے گئے۔
حضرت صالحؑ:
حضرت صالحؑ اور ان کی قوم ثمود کا ذکر ہے، صالحؑ نے انہیں توحید کی تعلیم دی اور اللہ کی طرف بلایا، ان کے معجزہ طلب کرنے پر اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر پہاڑ سے اونٹنی نکالی اور صالح نے قوم کو خبردار کیا کہ اونٹنی کو کوئی نقصان نہ پہنچے مگر سرکشوں نے اونٹنی کی کونچ کاٹ ڈالی تو قوم عذاب الٰہی کا شکار ہوئی۔
حضرت لوطؑ:
حضرت لوطؑ کی قوم کا ذکر ہے جس نے ناصرف آپ کی دعوت سے انکار کیا بلکہ انتہائی فحاشی اور بے حیائی اپنا کر غیرفطری فعل کو سرانجام دیتی جس پر سخت عذاب کا شکار ہوئی، بستی الٹا دی گئی اور پتھروں کی بارش ہوئی۔
حضرت شعیبؑ:
حضرت شعیبؑ اور ان کی قوم کا ذکر ہے، جس نے ناصرف شعیبؑ کی مخالفت کی بلکہ ناپ تول میں کمی کر کے عذاب الٰہی کا شکار ہوئی۔
قرآن پاک کی عظمت:
قرآن پاک کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا
کہ پروردگار کی طرف سے حضرت جبرائیل امینؑ کے ذریعے نبی اکرمﷺ کے قلب مبارک پر نازل کیا گیا۔
شعراء کی صفات:
شاعروں کی تین خرابیاں بیان کی گئیں (1) ان کے پیروکار عموماً گمراہ قسم کے بہکے ہوئے لوگ ہوتے ہیں (2) ان کے قول اور فعل میں تضاد ہوتا ہے (3) شعراء خیالات کی وادیوں میں گھومتے رہتے ہیں۔
نیک سیرت شعراء:
نیک سیرت شعراء بھی ہوتے ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور ان عیبوں سے پاک ہوتے ہیں۔
’’سورۃ النمل‘‘
ترتیبی اعتبار سے قرآن پاک کی ستائیسویں سورت ہے، جب کہ اس کا نزولی نمبر48ہے، یہ مکی سورت ہے۔ نمل عربی میں چیونٹی کو کہتے ہیں اس سورت میں وادی النمل (چیونٹیوں کی وادی) کا ذکر آیا ہے اس مناسبت سے سورہ نمل کہلاتی ہے۔
قرآن، مومنین اور منکر:
قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہے، اہل ایمان کے لئے ہدایت اور خوشخبری ہے جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ منکرین آخرت سخت نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔
حضرت موسیٰؑ اور فرعون:
عبرت و نصیحت کے لئے دوبارہ حضرت موسیٰؑ کی نبوت و رسالت اور معجزات اور فرعون کی غرقابی کا ذکر ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام:
یہ اللہ کے عظیم الشان پیغمبر تھے جو بادشاہ بھی تھے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں، جنات اور پرندوں کو ان کے لئے مسخر کر دیا تھا، سب پر ان کی بادشاہت تھی، ایک دن حضرت سلیمانؑ کا گزر اپنے لشکر کے ساتھ چیونٹیوں کی وادی کے پاس سے ہوا تو انہوں نے سنا ’’ایک چیونٹی دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی کہ جلدی سے اپنے بلوں میں داخل ہو جائو کہ کہیں سلیمانؑ اور ان کا لشکر بے خبری میں تمہیں روند نہ ڈالے‘‘ سلیمانؑ چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے بہت سی نعمتیں عطا کیں اور پرندوں اور حیوانوں کی بولی بھی سمجھا دی۔
ہدہد اور ملکہ سبا:
سلیمانؑ کے دربار میں مستقل طور پر رہنے والوں میں ایک پرندہ ہدہد بھی تھا جس نے ایک دن عظیم ملکہ سبا، اس کے بے مثال تخت اور قوم کی اطلاع دی کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کی پوجا کرتے ہیں، سلیمانؑ نے خط بھیج کر ملکہ سبا کو اپنے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا، ملکہ سبا جسے اپنی مملکت، مادی اسباب پر بڑا ناز تھا، سلیمان کی حکومت اور سج دھج دیکھ کر حیران رہ گئی اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔
صالحؑ اور نو سردار:
صالحؑ اور ان کی قوم کا ذکر ہے اور نو سرداروں کا ذکر ہے، جنہوں نے قسم کھائی تھی کہ اللہ کے نبی کو اچانک حملہ کر کے قتل کریں گے لیکن وہ اپنے ارادے پر عمل کرنے سے پہلے ہی اللہ کے عذاب کا شکار ہو گئے۔

تازہ ترین