• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاسوسی کا اڈہ یا فوجی چھاؤنی ,,,,ملک الطاف حسین

امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اسلام آباد میں اپنے سفارتخانے کو توسیع دینے کے نام پر”فوجی چھاؤنی“ قائم کررہا ہے جس میں ہزاروں فوجیوں کی رہائش ہوگی۔ 15/ اگست کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی پہلی مرتبہ ارکان اسمبلی کی تقاریر میں کہا گیا کہ اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے میں7 ہزار میرینز کی رہائش کے انتظامات ہورہے ہیں۔ جبکہ اس وقت2 ہزار امریکی فوجی اسلام آباد میں موجود ہیں جن کے بارے میں حکومت وضاحت کرے کہ اتنی بڑی تعداد میں فوجی کیا کررہے ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکی پالیسی نے ایک نئی شکل اختیار کرلی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان میں اپنا ایک مضبوط مرکز بنانا چاہتا ہے، امریکہ نے کوشش کی کہ اسلام آباد کے ہوٹل میں مرکز قائم کرے لیکن اسے اڑا دیا گیا پھر اس نے پشاور کے ہوٹل میں مرکز قائم کرنے کی کوشش کی اسے بھی اڑا دیا گیا اب امریکہ نے اسلام آباد میں اپنے سفارتخانے کیلئے125/ ایکڑ مزید زمین حکومت پاکستان سے خریدی ہے جہاں بہت بڑا تعمیراتی کمپلکس بن رہا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ تعمیراتی کمپلکس میں200 سے زائد رہائشی عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں جبکہ بقیہ کی تعمیر ہونا باقی ہے جس کے لئے اربوں ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی سفارتخانے کی یہ نئی عظیم الشان عمارت پریذیڈنسی اور پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے بالکل عقب میں واقع ہے۔ اہل وطن کو یقیناً یہ بھی معلوم ہوگا کہ کراچی میں ایک وسیع و عریض قلعہ عمارت تعمیر ہورہی ہے جو نیا امریکی قونصل خانہ ہوگا اس کی زمین سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم قیمت پر امریکیوں کو فروخت کی تھی۔ علاوہ ازیں امریکہ کی تین جاسوس تنظیموں سی آئی اے، ایف بی آئی اور بلیک واٹر کے عقوبت خانے، تفتیشی مراکز ”ٹاچرسیل“ دفاتر پاکستان میں بعض خبروں کے مطابق کوئٹہ، کراچی، لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد اور پشاور سمیت کئی دیگر خفیہ مقامات پر موجود ہیں، بلیک واٹر کا زیادہ تر مشن امریکہ مخالف لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ ہے اس حوالے سے عراق میں اس تنظیم نے کافی شہرت پائی۔ سی آئی اے جاسوسی کے ساتھ سیاسی مداخلت اور روابط کا کام بھی کرتی ہے جبکہ ایف بی آئی کے ایجنٹ مختلف آپریشنز مانیٹر کرنے کے علاوہ پاکستان دشمن قوتوں کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرتے ہیں، امریکہ مخالف وفادار پاکستانیوں کو اغوا کرنے کا کام بھی ایف بی آئی کے ایجنٹ کرتے ہیں۔ اسلامی جماعتوں، مسجدوں اور مدرسوں پر ان کی خاص نظر ہوتی ہے، چھاؤنیوں کے اندر جھانکنے کا کام بھی انہی تین تنظیموں میں سے کسی ایک کا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر امریکہ کا اسلام آبادمیں125/ ایکڑ اراضی پر تعمیراتی کام اور اس میں ضروریات کے تمام انتظامات کے علاوہ ہزاروں فوجیوں کی موجودگی کا کام مکمل کرلیا جاتا ہے تو پھر جان لیجئے کہ امریکہ سے باہر پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہوگا کہ جس کے اندر امریکہ کا اتنا بڑا”جاسوسی کا اڈہ“ قائم ہوجائے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سارا کھیل ایک بہت بڑے منصوبے کے تحت کھیلا جارہا ہے، افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست کا سامنا ہے وہ اپنی پسپائی سے پہلے پاکستان میں جگہ پکڑنا چاہتے ہیں، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران اس ایک جملے میں امریکی عزائم کو ظاہر کردیا”امریکی عوام ہم سے پوچھتے ہیں کہ جب القاعدہ کی قیادت پاکستان میں ہے تو ہمارے فوجی افغانستان میں کیا کررہے ہیں“۔
بہرحال امریکہ پاکستان کے چہرے کو ڈسنے کے بجائے آہستہ آہستہ اس کی ٹانگوں سے لپٹا ہوا اوپر کی جانب آرہا ہے تاکہ جب پاکستان کے چہرے پر ڈنگ مارنے کا وقت آئے تو وہ اپنی ٹانگیں بھی نہ ہلا سکے۔ پاکستان کی تمام محب وطن قوتوں اور منتخب نمائندوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امریکی مداخلت کے خلاف ایک بھرپور اور فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہئے۔
امریکہ امن کا داعی ضرور ہے مگر امن کا دوست نہیں، امریکہ بڑا ملک ضرور ہے مگر اس میں بڑا پن نہیں، امریکی عوام تعلیم یافتہ ضرور ہیں مگر مہذب نہیں، امریکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر جنگ کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے مگر کوئی جنگ جیتنے سے قاصر ہے، امریکی ڈالر عالمی معیشت کی مضبوط کرنسی ضرور ہے مگر امریکہ کی اپنی معیشت روبہ زوال ہے، امریکی دوستی اوردھوکے میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، امریکہ کسی بھی ملک کے حکمرانوں کے اقتدار کی ضمانت نہیں بلکہ یہ ضمانت صرف عوام کے پاس ہے، امریکہ کے تعاون سے اسرائیل اور بھارت جیسے متعصب اور غاصب ملک تو ترقی کرسکتے ہیں مگر پاکستان جیسا ایک اسلامی نظریئے کا حامل ملک نہیں، ہمیں چاہئے کہ امریکی تعاون سے ترقی کے ادھورے خواب دیکھنے کے بجائے خود انحصاری اور ایک اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کے متبادل آپشن تلاش کرنے چاہئیں۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے اندر نئے عام انتخابات کرائے جائیں، کرزئی کی موجودگی میں افغانستان کو آزادی ملے اور زرداری صاحب کی موجودگی میں پاکستان کی خودمختاری بحال ہو ممکن نہیں۔ دعا ہے اللہ رب العزت ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ (آمین)
تازہ ترین