• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں پی پی پی حکومت نے بینظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر سندھ کو دو تحفے دئیے ہیں اور وہ دوتحفے ہیں سندھ کے دو بہترین دماغوں کی، جواں تخلیقی، تحقیق اور سوال کرنے والے ذہنوں کی ان کے روزگار سے برطرفی۔ بیشک جمہوریت سے بہترین انتقام اس طرح بھی لیا جاتا ہے۔
سندھ کے یہ دو بہترین دماغ ہیں نوجوان خاتون اسکالر سحر گل بھٹی جو کہ کل تک کراچی یونیورسٹی میں قائم ’’شہید بینظیر بھٹو چیئر‘‘کی سربراہ تھیں اور دوسرا جوان بہترین ذہن اصغر سومرو ہیں۔ انکا قصور:ان میں سے ایک کا قصور سرکاری طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ اصغر سومرو نے ملک کے انگریزی روزنامے میں مضمون لکھا جس میں اس نے سندھ میں تعلیم کی لرزہ اندام تباہی بیان کی جبکہ سحر گل بھٹی کی بینظیر چیئر کی سربراہ کے عہدے سے برطرفی کی وجہ پر اکثریتی سندھی اخبار پڑھنے والے لوگوں میں تاثر ان کے دانشور میاں جامی چانڈیو کا سندھ حکومت کی کارکردگی پر لکھا ہو۱ کالم ہے جو ایک سندھی روزنامے میں شائع ہوا ہے۔ لیکن سحر اور جامی کے قریبی لوگ اسے رد کرتے ہیں۔
شاید اس کے ساتھ خود سحر کا بینظیر چیئر سنبھالنے سے لیکر آج تک جامعہ کراچی میں انکے شعبے کے مجوزہ میگا پروجیکٹ پر پڑنے والی گھاگ لالچی آنکھوں میں کانٹا بنکر کھٹکنا بھی ہے۔ سحر نے اپنی برطرفی پر جامعہ میں تین دہائیوں سے ایک مافیا کی طرح کام کرنیوالے ارباب اختیار کی طرف سےمبینہ طور پر اسے ہراساں کرنے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ جامعہ کراچی ہو کہ جامعہ سندھ جامشورو کہ سندھ سمیت ملک کی پبلک کہ نجی یونیورسٹیاں وہاں طالبات چاہے فیکلٹی اراکین خواتین کو ہر طرح سے ہراساں کئے جانے کے واقعات کھلے ہوئے راز ہیں جن کو کسی نہ کسی طرح خون ناحق کی طرح دبایا جاتا رہا ہے کہ اس میں شکار خواتین ہی پیارے پاکستان جیسے معاشروں میں مزید عذاب کا نشانہ بنائی جاتی ہیں۔ لیکن بہرحال اگر پاکستان میں کوئی تحقیقاتی پرنٹ صحافت اب بھی کچھ باقی ہے تو جاکر ان پبلک اور نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے کیسوں پر تحقیقات کرے۔ کیا کراچی کیا لاہور۔
لیکن سندھ میں تعلیم کی تباہی پر تحقیقاتی صحافی کا کام بظاہر اس تعلیمی نوجوان افسر اصغر سومرو نے کیا جو اس نے ایک انگریزی روزنامے میں مضمون لکھ کر بتایا کہ ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی ڈونرز کی طرف سے کروڑوں اربہا ڈالروں یورو کو کس بےرحمی سے سندھ میں تعلیم کی ترقی کے بجائے سندھ کے حکمرانوں اور نوکرشاہی کی توندیں اور جیبیں بھر کر سندھ میں وسیع پیمانے پر تعلیم کی تباہی مچائی گئی ہے۔
اصغر سومرو اگر مہذب سماجوں اور ممالک میں ہوتے تو ایسے لوگوں کو ’’وسل بلوئر‘‘ کہا جاتا ہے جو ایک انتہائی قابل ستائش ایسی سرگرمی ہے جو امریکہ سمیت ایسے ممالک میں قانونی تحفظ شدہ سرگرمی ہوتی ہے۔ ایسے شخص یا اہلکار کونہ ’’گھر کا بھیدی‘‘ کہا جاتا ہے اور نہ ہی اسکے عمل کو ’’لنکا ڈھانے‘‘ سے تعبیر۔ اس نوجوان خاتون اسکالر اور نوجوان لکھاری محقق کی برطرفی کو سندھ حکومت بہرحال انکی میعاد ملازمت کا کنٹریکٹ ختم ہونے یا کنٹریکٹ کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے۔
حساس اداروں کی مار کھائی ہوئی پی پی پی اور اس کی سندھ میں حکومت اپنے پر تنقید ہونے پر انتہائی حساس رہی ہے اور جیسے جیسے انتخابات کا سال قریب آتا جا رہا ہے اور بھی اپنے اوپر تنقید کو ’’وڈیرانہ طبیعت‘‘ پر اور بھی گراں سمجھے ہوئے ہے۔ اور بھٹو کے عشق میں مارے ہوئے سندھ کے لوگ اب غزل کی اس سطر کی صورت اپنے ساتھ ہونے والی درگت کا سبب بنے ہوئے ہیں کہ بس ’’اب نزع کا عالم ہے تم اپنی محبت واپس لو‘‘۔
سندھ کے حکمران وڈیرے ہیں کہ جمہوریت کے کتنے ہی دعویدار بنتے ہیں لیکن اپنے جوہر میں ہیں تو زیانخور نہ۔ وہ اپنے اوپر جمہوریت اور تعلیم دوست لوگوں کی تنقید مرغے پر پڑتے پانی کی طرح بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی رویہ انہوں نے اب کے بار سحر گل بھٹی اور اصغر سومرو سے بھی روا رکھا۔ حالانکہ جامی چانڈیو ہمارے دوست تو انکی اٹھارویں ترمیم پر مسودوں کی تیاریوں تک میں شامل رہے تھے۔ سول سوسائٹی کے یہ احباب سندھ حکومت کے مفت کے مشیر بھی تھے۔
اصغر سومرو جو کہ سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم کے ریفارمز سپورٹ یونٹ کے بطور ماہر ابلاغ یا کمیونی کیشن ایکسپرٹ کام کر رہے تھے کو سیکرٹری محکمہ تعلیم کی طرف سے بذریعہ نوٹس بتایا گیا کہ اخبار میں انکی طرف سے مضمون لکھنا ملازمت کے کنٹریکٹ کی خلاف ورزی ہے اس بنا پر فارغ۔ سندھ کے پیلے اسکولوں میں پڑھے ہوئے اس بچے کو وہ ساری قوم اچھی طرح جانتی ہے جو قوم انگریزی اخبارات کے اقتصادیات کے پہلے صفحات پر روٹی رکھ کر کھاتی ہے۔ اصغر سومرو ایسے لوگوں کے درد دکھ لکھتا ہے۔ کیا یہ اسکا جرم بن گیا کہ اس کا نوالہ چھین لیا گیا۔ روٹی کپڑا اور مکان کی دعویدار حکومت کی نظر میں سندھ کی تعلیم کی تباہی کی نشاندہی کرنا گناہ بنا اس کا۔
یہی جرم ڈاکٹر سحر گل بھٹی کا ہے جو ملک اور سندھ میں تعلیم اورتحقیق کی نئی جہتیں بنانے باہر سے واپس آئی تھیں۔ سحر نے عورتوں کے حقوق پر کام کیا ہے۔ اسے جون دو ہزار پندرہ میں بینظیر بھٹو چیئر کی سربراہ مقرر کیا گیا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بینظیر بھٹو کے نام پر جامعہ کراچی میں قائم اس تحقیق کے شعبے میں بھی بڑے گھپلے ہیں اور انہیں جب روکنے کی کوشش کی تو انہیں ہٹانے کو شاید ناگزیر سمجھ لیا گیا اور انہیں فارغ کردیا گیا۔ بولو جئے بھٹو۔ حالانکہ میں ذاتی طور پر تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں سیاسی شخصیات کے نام پر قائم ایسی چیئرز کا مداح نہیں۔ اگر بینظیر بھٹو کے نام پر چیئر ہے تو پھر وہ اس کی پارٹی اور اسکے خاندان جو کہ دنیا کے اب امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے کےذاتی پیسوں سے قائم کی جائے نہ کہ عوام کے پیسوں سے۔ جیسا وہاں کولمبیا یونیورسٹی میں ہندوجا فیملی نے اپنے بڑوں کے نام پر فنڈ قائم کیا ہوا ہے۔ چلو، بینظیر بھٹو بہرحال اس ملک میں جمہوریت کی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کا مجسمہ تھیں تو انکے نام پر قائم چیئر پر مافیا اور سیاسی رشوت کے طور بھرتی کی بجائے سحر جیسی اسکالر خاتون کا تقرر عارضی ثابت ہوا۔۔ تو پس عزیزوبینظیر بھٹو کی سالگرہ پر سندھ کے لوگوں کو سندھ حکومت کے دو تحفے کیسے لگے! ایک بجاں تیر بجاں سے دو شکار!

 

.

تازہ ترین