اسلام آباد( رپورٹ: عثمان منظور) پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر عبدالرحمٰن ملک آج پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔ اپنے ابتدائی دنوں میں سابق پرویز مشرف حکومت نے نواز شریف اوران کے خاندان کے خلاف رحمٰن ملک کی تحقیقات کو مسترد کردیا تھا۔ رحمٰن ملک کو 1990کی دہائی میں ان کی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر طلب کیاگیا ہے۔ گوکہ اس رپورٹ کو عدالتوں نے تیکنیکی بنیادوں پر وقعت نہیں دی لیکن اس میں جو کچھ درج ہے بظاہر وہ تفصیلی تحقیقات کامتقاضی ہے۔ اس جامع رپورٹ میں 1990کی دہائی کی شروعات میں منی ٹریل کی وضاحت کی گئی ہے۔ شاید یہ واحد دستاویز ہے جس میں اس حوالے سے تفصیلی ذکر موجود ہے کہ بیرون ملک کاروبار قائم کرنے اور اثاثے خریدنے کیلئے شریف خاندان کے ارکان نے مبینہ طور پر رقوم بیرون ممالک کیسے منتقل کیں۔ اس وقت محکمہ داخلہ کو ایف آئی اے نے آگاہ کیا تھا کہ رحمٰن ملک نے مذکورہ تحقیقات اپنے طور پر کی تھیں۔ اس کے باقاعدہ احکامات موجود نہیں تھے۔ واضح رہے کہ 1998ء میں رحمٰن ملک نے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کی نواز شریف کے خلاف انکوائری رپورٹ اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو کارروائی کیلئے بھیجی تھی۔ جس پر رحمٰن ملک کواکتوبر 1998ء میں نوازشریف حکومت نے ایف آئی اے سے برطرف کر دیا تھا۔ رحمٰن ملک کی رپورٹ پاناما پیپرز کیس میں نوازشریف کے خلاف تحریک انصاف کی پٹیشن کا حصہ ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کی حیثیت پر بحث کرتے ہوئےکہا تھا کہ اس رپورٹ پر کارر وا ئی کیوں نہیں کی گئی۔ دوران سماعت انہوں نے آبزرویشن دی تھی کہ رپورٹ منطقی انجام کو نہیں پہنچی کیونکہ نیب نے 2014ء میں شریف خاندان کے خلاف ریفرنس کو تیکنیکی بنیادوں پر نمٹانے کے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل دائر نہیں کی۔