• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھوٹے بڑے موضوعات کا ڈھیرہے تو کیوں نہ ان سب پہ تھوڑا تھوڑا تبصرہ کردیاجائے کہ عقل مندوں کیلئے لمبے لمبے مضمون نہیں، ہلکے پھلکے اشارے ہی کافی ہوتے ہیں۔سب سے پہلے کل بھوشن یادیوجس نے آرمی چیف سے رحم کی اپیل کردی ہے۔ کسی انسان کا انسان سے رحم کی بھیک مانگنا لرزا دینے والی بات ہے کہ اصولاً رحم صرف اس سے مانگا جاتا ہے جو رحم مادر میں انسان کی نشوونما، پرورش اور حفاظت کرتاہے۔ یادیو کی اس اپیل پر یہ قول بھی یاد آتا ہے کہ..... رحم کرو تاکہ بوقت ضرورت تم پر بھی رحم کیاجاسکے۔ آخری اورفیصلہ کن بات یہ ہے کہ جسے قتل و غارت، آگ اور خون کاکھیل کھیلنا ہو اسے خود بھی اس کا شکار بننے کےلئے تیار رہنا چاہئے اور اس کی کم سے کم تیاری یہ ہےکہ خود کو زندگی میں ہی مردہ تصور کرے لیکن اس کے لئے جس جرأت، حوصلے اور جگرے کی ضرورت ہوتی ہے،شایدکل بھوشن یادیو کو نصیب نہیں۔دوسرا موضوع نواز شریف کا وہ دورہ ہے جسے بہت بڑھا چڑھاکر بیان کیا گیا تاکہ ’’پرچی‘‘ پرائم منسٹر کو پراپیگنڈے کے ذریعہ ’’مدبر‘‘بنا کرپیش کیاجاسکے لیکن سعودی ناظم الامور نے سب کئے کرائے پرپانی پھیرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف نے دورےکا مقصد نہیںبتایا۔ سعودی ناظم الامور نے سونے پر سہاگہ بکھیرتے ہوئے یا پھیرتے ہوئے ’’ثالثی‘‘کی کوششوںسے بھی لاعلمی کااظہارکرتے ہوئے پاکستانی عوام کے علم میںخاطر خواہ اضافہ کردیاہے جس پرعوام کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ ان کی ساری ’’ترقی‘‘ بھی اس ’’ثالثی‘‘ جیسی ہی ہے جس کاتازہ ترین ثبوت نیپرا کی یہ رپورٹ ہے کہ وعدوںکے باوجود 2018 میںبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوگی۔ اس رپورٹ کے مطابق ترسیل و تقسیم کا نظام خراب اورریکوری کم ہے، لائن لاسز سے 20ارب اور کم ریکوری سے 53ارب کا نقصان ہواہے۔حقیقت یہ کہ پورا نظام بری طرح کھچک چکا ہے۔ دو سیاسی جونکیں سب کچھ کھوکھلاکرچکی ہیں اور کسی بھی وقت ’’دھڑام‘‘کی آواز سنائی دے سکتی ہے جس کا ایک شرمناک نمونہ قارئین نے ٹی وی چینلز پربھی دیکھا ہوگا۔ کراچی کی جیل سے بیسیوں ٹیلی ویژن، واٹر ڈسپنسرز اور دیگر ممنوعہ اشیا کے علاوہ بے شمار موبائل فون اور رقمیںبھی برآمد ہوئیں۔ لو گ سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے وغیرہ کوروتے ہیں جبکہ ہر جگہ یہی حال ہے۔اس سے بڑی بربادی اورغنڈی گردی کیا ہوگی کہ خیرات میںملنے والی جدید ترین ایمبولنسز ویگنیں بنا کر چلا دی جاتی ہیں اور کسی کن ٹٹے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ میں نے تھک ہارکے یہ لکھنا ترک کردیا کہ اس ملک میںجلاد تین شفٹ ڈیوٹی دیںگے تومعاملہ ٹریک پر آئے گا ورنہ جمہوریت توٹریک پر رہےگی، جمہور ہمیشہ ٹریک سے اترے اِدھر اُدھر دھکے کھاتے رہیںگے۔اک اور اخباری اطلاع کا بھی جواب نہیں کہ پاکستان میںپہلی بارحکومت نےچین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو ’’مزید‘‘ فروغ دینے کے لئے پہلی مرتبہ چینی باشندوں کو پاکستان میں جائیداد کی خرید و فروخت کی اجازت دے دی ہے۔ مجھے اس خبرکی تفصیلات کا علم نہیں ورنہ کہیںبہتر تبصرہ کر سکتا تھا۔ فی الحال صرف دو گزارشات ہیںاول یہ کہ پاکستان کی سیاست پر پہلے ہی بالواسطہ یا بلاواسطہ ان پراپرٹی ڈیلروںکا قبضہ ہے جو اندرون یا بیرون ملک الحمد للہ پراپرٹی کی خریدو فروخت کاکاروبارکرتےہیں اورچینیوں کے پاس ان سب سے کہیں زیادہ پیسہ موجودہے۔ دوسری گزارش یہ ہےکہ ذرادماغ پر زور دیں اور یادکریں کہ انگریزوں کی ’’فاتح عالم‘‘ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے کام کا آغاز کیسے کیا تھا؟ پل، شاہراہیں، سرنگیں، ریلوے کا محیرالعقول نیٹ ورک، نہری نظام، انجینئرنگ یونیورسٹیاں، میڈیکل کالجز، زرعی تعلیم کے ادارے وغیرہ وغیرہ وغیرہ بھی ’’گورے‘‘ نے بنائے لیکن عوام کوکیا ملا تھا؟ جو کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرو کہ ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ عربوں سے لیکر گوروں تک لاتعداد تجربوں کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھا تو بدبصیرتوں کی بصیرت پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے جن کے ڈی این اے میں ناک سے آگے دیکھنے والا خانہ ہی خالی ہے۔ادھر خورشید شاہ کی صف ماتم بھی دراز سے دراز تر ہوتی جارہی ہے۔ فرمایا ’’ن لیگ کی حکومت جارہی تھی، بچانے کیلئے ہم میدان میں آئے‘‘ ہور چوپو شاہ جی ہور چوپو اور اگردانت ’’چوپنے‘‘ کی اجازت نہ دیں تو بیلنے سے رس نکلوا کر پیو اور غلام علی کی یہ غزل گنگناتے پھرو؎ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہےڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہےلیکن دوسرا مصرع دھیمے سروں میں زیر لب گنگنانا ہی بہتر ہوگا۔آخر پر ’’تخلیقی صلاحیتوں‘‘ سے مالا مال ان مجرموں کیلئے میری طرف سے ’’زبردست ترین خراج تحسین‘‘ جنہوں نے پٹواریوں کو اغوا کر کے ان کے ورثا سے تاوان وصول کرنے کا انوکھا ’’نسخہ کیمیا‘‘ متعارف کرایا۔ جس نے بھی یہ سوچا اسے سزا کے ساتھ ساتھ ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘ ضرور ملنا چاہئے تاکہ معاشرہ میں ’’آئوٹ آف بوکس‘‘ تھنکنگ کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی ہو۔ ہمارے ہاں واقعی ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ جدھر دیکھو ’’ٹیلنٹ‘‘ کے سونامی ٹھاٹھیں مارتے دکھائی دیتے ہیں۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر پاکستان کو روایتی جمہوری جونکوں سے نجات مل جائے اور کوئی ہمارے بے سمت، بے راہرو، بے ہدف، آوارہ اور تخریبی ٹیلنٹ کو راستہ دکھا دے، سمت عطا کردے، ہدف سے آشنا کردے تو کیسی کیسی قیامتیں نہیں ڈھائی جاسکتی ہیں؟ جو آدمی بکرے میں پریشر سے پانی انجیکٹ کر کے گوشت کا وزن بڑھا سکتا ہے؟ مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے تیل کشید کرسکتا ہے، دودھ کے بغیر دودھ بنا سکتا ہے، نقل مطابق اصل چائے تیار کرسکتا ہے۔ سمت تبدیل ہو جانے پر کیا نہیں کرسکتا لیکن افسوس؎میرِ سپاہ نارسا لشکریاں شکستہ صفہائے وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

 

.

تازہ ترین