• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن رد الفساد تیزی سے جاری ہے۔ملک بھر میں آئے روز قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑی کارروائیاں کرتے ہیں مگر دہشتگردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ہر نئے آپریشن کے اعلان کے بعد دہشتگردوں کی کارروائیوں میں کمی ضرور آتی ہے لیکن ہم اب تک دہشتگردی کے ناسور سے جان نہیں چھڑا سکے۔دو روز قبل کراچی،پارا چنار اور کوئٹہ میں جو کچھ ہوا ،انتہائی افسوسناک ہے۔لیکن ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو دہشتگردی کے مکمل خاتمے میں رکاوٹ ہیں۔کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ چا ر سالوں کے دوران جتنے دہشت گردوں کو جہنم رسید کیا ہے،اگر اس کے بعد بھی دہشت گردی ختم نہیں ہوتی تو ہمیں اپنی تمام پالیسیوں پر ازسر نو نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔وطن عزیز میں جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو اس کے تانے بانے سرحد پار ملتے ہیں۔دہشتگردی کے کچھ واقعات میں افغانستان کی سرزمین جبکہ بہت سے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے حوا لے سے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔لیکن دہشتگردی کے واقعات میں ایک قدر مشترک رہی کہ زمین کسی بھی ملک کی استعمال ہوئی ہو مگر ماسٹر مائنڈ بھارت میں بیٹھے ملتے ہیں۔اسی طرح افغانستان میں دہشتگردی کا جو بھی واقعہ پیش آئے ،اب الزام براہ راست پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے۔بھارت میں ہونے والے ممبئی دھماکے ہوں یا پھر پٹھان کوٹ۔وہ بھی پاکستان کی کالعدم تنظیموں پر الزام عائد کرتے ہیں۔ایسے میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہمارے ہمسائیوں کو ہم سے اور ہمیں اپنے ہمسائیوں سے گلے شکوے ہیں۔جنہیں بہرحال دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اکثر لکھتا ہوں کہ ہمسائے کبھی بھی تبدیل نہیں کئے جاسکتے ۔آج نہیں تو کل انہی ہمسائیوں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھ کر ہی اپنے اپنے ممالک میں دائمی امن قائم کیا جاسکتا ہے۔تلخ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کے دن تک بحیرہ عرب کے علاوہ ہمارا کوئی دوست نہیں ہے۔ایران،افغانستان اور بھارت سے ہمارے مثالی تعلقات سب کے سامنے ہیں۔چین ہمارا مخلص دوست ہے مگر کمزور دوست کا وزن کوئی بھی زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتا ۔
کوئٹہ ،کراچی اور پاراچنار میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعہ پر بات کی جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان بغیر کسی جرم کے لقمہ اجل بن گئے۔قومی و بین الاقوامی اخبارات پڑھ کر تاثر ملا ہے کہ حالیہ دہشتگردی کے واقعات ایسے موقع پر ہوئے ہیں جب بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا تازہ ویڈیو انٹرویو منظر عام پر آیا ۔کچھ لوگ دہشتگردی کی حالیہ لہر کو بھارتی ایجنٹ کے بیان سے جوڑ رہے ہیں۔اگر ان لوگوں کی بات کو ہی درست مان لیا جائے تو ایک مرتبہ پھر طے ہواکہ ہمارے ہمسائے ہی ہمارے بدترین دشمن بن چکے ہیں۔کسی ایک ہمسائے سے تو بدترین دشمنی سمجھ میں آتی ہے لیکن سب ہمسائیوں سے کشیدگی مناسب نہیں ہے۔حالیہ حالات میں بھارت سے تعلقات کی ہی بات کرلیں۔امریکہ سے خبریں موصول ہورہی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ مود ی کے دورہ امریکہ سے قبل پاکستان کے حوالے سے اپنے رویے میں سختی لاسکتا ہے۔بھارتی لابی بہت مضبوط ہے۔ٹرمپ کی انتخابی مہم سے لے کر آج تک اس کے اردگرد بھارتی لابی کا سایہ ہے۔ایسے میں بھارت کلبھوشن کے معاملے پر بھی امریکہ کو استعمال کرسکتا ہے۔افغانستان کی بات کریں تو سب کو معلوم ہے کہ ہمارے منظور نظر اشرف غنی اور بھارتی لابی کے حمایت یافتہ عبداللہ عبداللہ دونوں ہمارے شدید مخالف ہوچکے ہیں۔کابل کی تمام ڈوریاں دہلی سے بیٹھ کر ہلائی جاتی ہیں۔ایران نے اب تک اپنے صدر کی پریس بریفنگ اور پھر تردیدی ویڈیو بیان کو نہیں بھلایا۔ایسے حالات میں ہر طرف ہم اپنے لئے مشکلات پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔بھارت تیزی سے اپنے دوست جبکہ ہم اسی تیزی سے اپنے دشمن بڑھا رہے ہیں۔اگر گزشتہ دس سالوں میں ہماری خارجہ پالیسی کی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے تو بھارتی لابی نے ہمیں بہت بے دردی سے مات دی ہے۔عرب ممالک ،ایران ،افغانستان سب بھارت کے نام پر ایک ہیں ۔ایک وقت تھا یہ تمام ممالک ہمارے بہترین دوست تھے ۔لیکن آج سب کچھ بدل چکا ہے۔
گنوادی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
آج کے پاکستان میں لوگوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے کہ کس سے ہم نظریاتی اختلاف رکھے اور کس سے دوستی۔پاکستان کے عوام صرف امن چاہتے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ دنیا بھر میں تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کرنے والے داعش کے عفریت نے پاکستان میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔تحریک طالبان کے لوگوں کو پکڑنا آسان تھا کہ ایک مخصوص لباس اور لہجے سے شناخت ہوجاتی تھی۔مگر لاہور ،کراچی اور اسلام آباد کے پوش گھرانے داعش کی طرف تیزی سے راغب ہورہے ہیں۔دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے جو بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔سب قابل تعریف اور قابل ستائش ہیں۔لیکن ممتحن نتائج پر یقین رکھتا ہے۔آپ سارا سال کھیلتے رہیں اور امتحان میں اول آجائیں تو ہر جگہ آپکی واہ واہ ہوتی ہے ۔لیکن اگر آپ سارا سال پڑھتے رہیں اور فیل ہوجائیں تو سب یہی کہتے ہیں کہ کارکردگی صفر ہے۔اسی طرح پاکستانی عوام کو مختلف آپریشنز،پنجاب میں رینجرز،جوائنٹ کوآرڈنیشن کمیٹی کی کارروائیوں سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔ان کی تو چھوٹی سی خواہش ہے کہ کسی طرح ملک میں امن قائم ہوجائے۔جو بدقسمتی سے اب تک نہیں ہوپارہا ۔اگر میں ڈیوز ایڈوکیٹ نہیں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہمسائیوں سے بہتر تعلقات کے بغیر دائمی امن کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔اور ہمسائیوں سے مثالی تعلقات کا براہ راست انحصار بھارت کے ساتھ تعلقات پر ہے۔حکمت اور صبر کا مظاہر ہ کرنے سے معاملات ہمیشہ حل کی طرف جاتے ہیں۔آج پاکستانی قوم اپنے اداروں سے حکمت اور صبر کی درخواست کرتی ہے۔

تازہ ترین