• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سچ ہے کہ بعض پاکستانی روزِ اوّل سے اس خواہش میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کے مسلمان کسی بھی طرح جلد سے جلد ہندوستان پر غلبہ حاصل کرلیںاور دلّی میں لال قلعے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا جھنڈا گاڑ دیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان پر فیصلہ کن لشکر کشی اِن کا پیدائشی حق ہے ۔ اِنہیں یقین ہے کہ اس معرکے میں تمام ہندو حکمراں یا تو مارے جائیں گے ، اسلام قبول کرلیں گے یا پھر فاتح مسلمانوں کے آگے ہمیشہ کے لئے اپنا سر تسلیم خم کردیں گے ۔ساتھ ساتھ یہ بھی کہ برصغیر میں بسے کوئی ایک ارب ہندو ، مسلمانوں کی سماجی اور نظریاتی بالادستی تسلیم کرلیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں ’غزوہ ہند‘ سے متعلق اشارات موجود ہیں لیکن ٹھوس شہادتوں کی عدم دستیابی کے سبب کوئی واضح بات نہیں کی جاسکتی ۔ ایک رائے ہے کہ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کے ساتھ ہی اِن اشارات کی تکمیل کوئی تیرہ سو برس پہلے ہوچکی ہے۔ البتہ کچھ مفّکرین آج بھی ہندوستان پر غلبے کی خواہشات کا اظہار کرتے ہی رہتے ہیں ۔
دوسری جانب زمینی حقائق انتہائی تکلیف دہ ہیں! پچھلے کوئی سات سو سالوں میں ہندوستان سے لیکر مراکش تک بسے مسلمانوں کے علمی، سیاسی اور سماجی حالات تیزی سے انحطاط کا شکار ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان یک جہتی اور سیاسی یک سوئی کا واضح فقدان ہے۔ البتہ دور ِحاضر کی کچھ ویڈیوز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں کم از کم ایک ایسا مسلمان موجود ہے جو ہندوستان کے خلاف عظیم لشکر کا سپہ سالار بننے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے۔ وہ شخص لال ٹوپی والے کے نا م سے مشہور ہے!
پہلی بارجب انہیں دیکھا تو بلا مبالغہ چی گویرا کا خیال آیا ۔یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ خیال خدانخواستہ ، چی گویرا کے نظریات کی وجہ سے نہیں آیا ؛ بلکہ محسوس یہ ہوا کہ ٹوپی اور بالوں کے علاوہ مستقبل قریب میں ایک بڑے ’ انقلاب ‘ کا وسیلہ بن جانا شاید اِن دونوں شخصیات کے درمیان سب سے بڑی مماثلت ثابت ہو جائے۔اگر کیوبا کے کمیونسٹ انقلاب میں سب سے بڑا ہاتھ چی گویرا تھا تو مستقبل قریب میں ہندوستان کے خلاف تاریخی فتح حاصل کرنے کا سہرا صرف لال ٹوپی والے کے سر جائے گا۔ البتہ اِس عظیم معرکے سے متعلق ذہن میں کچھ بنیادی نوعیت کے خیالات پیدا ہورہے ہیں جنہیں میں اوپر تلے یہاں تحریر کررہا ہوں ۔
پہلی بات یہ کہ بحیثیت پاکستانی ہم سب جانتے ہیں کہ اگر کبھی کسی بھی انداز میں ہندوستان اور پاکستان کے ایک ہونے کی بات کی گئی تو خیر نہیں ! موصوف نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ڈالی گئی اِس روایت کو ایک طرف رکھ کر پہلی بار مستقبل ِ قریب میں ہندوستان اور پاکستان کے ایک ہوجانے کا اعلان کردیا! حیرت یہ کہ ’فتح ہندوستان ‘ کے خوبصورت نعرے تلے یہ اعلان پاکستان کی طاقتور اکثریت اور ہندوپاک کے درمیان ’ضروری فاصلے‘ پر یقین رکھنے والے اداروں کے لئے بھی قابل قبول رہاہے۔
دوسری بات اِس سوال پر مشتمل ہے کہ لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کے بعد کم و بیش پورے برصغیر پر مشتمل اس وَسیع و عریض ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا؟ اگر نظام جدیدجمہوری تصورات کے مطابق ہواتویقینا یہاں عام انتخابات بھی ہوں گے۔ ایسی صورت میں تو یہ ایک ارب ہندو باشندے کسی مسلمان امیدواریاجماعت کو ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ مشرقی بنگال کے بیس کروڑ مسلمان بھی 1971تک کے واقعات کے تناظر میںمغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سپہ سالار کے ہوتے ہوئے شاید ریاست میں کسی اسلامی حکومت کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔ کہتے ہیں نا کہ ’’،چھاچھ کا جلا دودھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔‘ ‘
دوسری جانب انڈین نیشنل کانگریس ، کمیونسٹ پارٹی اور دیگر سیکولر اور اسلامی جماعتوں کے کروڑوںمسلمان ووٹرز بھی کم از کم مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی امیدوار یا جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے۔ یعنی قوی امکان ہے کہ برصغیر میں بسے کوئی60کروڑ مسلمانوں میں سے لگ بھگ 25 کروڑمسلمان مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی امیدوار یا جماعت کو ووٹ نہیں دینا چاہیں گے ۔
ریاست کے پہلے انتخابات میں تقریبا ً ایک ارب ہندو ووٹرز کے مقابلے میں اگر کوئی اسلامی جماعت یا امیدوار کل60کروڑ مسلمانوں کے باقی 45کروڑ ووٹ حاصل بھی کرلے تو بھی کسی طورا سلامی حکومت کے قیام کا امکان پیدا نہیں ہوسکے گا۔ یعنی طے ہوگیا کہ ہندوستان پر پاکستانی غلبے کے بعدموصوف اور ان کے ساتھی کسی جدید جمہوری نظام کا انتخاب نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی وہ خود ایسا کوئی نظام وضع کرنا چاہیں گے جس میں عام آدمی کی رائے کے ذریعے حکمران کا تعین کیا جائے ۔
نظام خلافت اور جدید جمہوریت دونوں میں حکمران کی تقرری یا حکومت سازی بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی نہ کسی انداز میں حق رائے دہی کے تحت ہی عمل میں آتی ہے۔ لہذا اِن دونوں میں سے کسی ایک نظام کاانتخاب بھی موصوف اور ان کی نگراں حکومت کے لئے ممکن نہیں۔ تیسراور آخری راستہ ظاہر ہے شہنشاہیت کا ہے!
شہنشاہیت ہندوستان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ۔ لیکن جناب کو پچھلے شہنشاہوں سے سبق سیکھ کر خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں کوئی انار کلی پھر سے دیوار میں نہ چنوا دی جائے، کہیں غریب عوام کے پیسوں سے پھر کوئی تاج محل نہ بنا ڈالے اور کہیں ایک بار پھر دارا شکوہ سر عام موت کے گھاٹ نہ اتاردیا جائے ؟
ہندوستان کے خلاف لشکرکشی کے لئے موصوف بہترین انتخاب ہیں لیکن صرف ایک قباحت ہے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیاکی کسی ریاست کے آئین ، قاعدے، قوانین اور عدالتی نظام کو نہیں مانتے ۔ مثال کے طور پر اِسی ہفتے وہ ضلع جنوبی کی ایک عدالت میںحکم کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔ مزید یہ کہ ان کو عدالت نے غیر حاضری پر اشتہاری قرار دیدیا ہے۔ مقدمے کا ایک کاغذ دیکھنے پر پتہ چلا کہ ان پر پیمرا کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کا بھی الزام ہے ۔یہ بھی معلوم ہواکہ اُنہیں ایک سعودی عدالت کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی پر سزا بھی سنائی جاچکی ہے ! پھر تو سوچنا پڑے گا کہ ایک ایسا آدمی جو نہ سعودی قوانین کا احترام کرتا ہے ، نہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے پیمرا کے قواعدوضوابط کی پرواکرتا ہے اور نہ ہی عدالت کے حکم کو خاطر میں لاتا ہے، کیا وہ ہندوستان کو فتح کرنے کے عظیم فریضے کے لئے صحیح انتخاب ہوسکتاہے؟
کوئی نہیں جانتاکہ اگلے چند دنوں میں وہ دلّی کے لال قلعے پرفاتح ہندوستان کے طور پر کھڑے دکھائی دیں گے یا جھوٹے الزامات لگانے پر ضلع جنوبی کی ایک عدالت کے کٹہرے میں ! فی الحال جو بات معلوم ہے وہ یہ کہ عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ راولپنڈی میں موصوف کے گھر کے آس پاس اِن کے ’اشتہاری‘ ہونے کے اعلانات کرائے جائیں!

 

.

تازہ ترین