• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ آف پاکستان کا این آر او (قومی مصالحتی آرڈیننس) سے متعلق تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد آئینی اور قانونی صورتحال یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ 31جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تمام آرڈیننس (جن کی تعداد 37ہے) 120دن کے اندر اندر پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوں گے۔ حکومت کا خیال تھا کہ 120دن گزرنے کے بعد این آر او اپنی موت آپ مر جائے گا لہٰذا این آر او کو پارلیمنٹ میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جناب زرداری سمیت جن خاص 300 کے لگ بھگ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے اس سے فائدہ اٹھایا اور اربوں روپے لے کر کرپشن مقدمات سے بریت حاصل کی اسی طرح سے ایم کیو ایم نے بھی این آر او سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقدمات میں ملوث اپنے کارکنوں کو رہائی اور نجات دلوائی۔ ان تمام فوائد کو ہضم کرنے کیلئے این آر او کو سردخانے میں ڈال دینا ضروری سمجھا گیا۔
یاد رہے کہ این آر او کا متنازع قانون جنرل پرویز مشرف اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے معاہدے کے ذریعے وجود میں آیا۔ این آر او جنرل مشرف نے اپنے صدارتی الیکشن سے ایک دن پہلے 5/اکتوبر 2007ء کو نافذ کیا تھا لیکن 3نومبر 2007ء کو اپنی معزولی سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے این آر او کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا اور حکام کو ہدایت جاری کی تھی کہ کسی کو بھی اس متنازع قانون کے تحت کوئی فائدہ نہ دیا جائے جب تک اعلیٰ ترین عدالت این آر او کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں کو نمٹا نہیں دیتی۔ 31جولائی کا مختصر فیصلہ شاید حکومت کی سمجھ میں نہیں آیا اس لئے وہ لمبی تان کر سو گئے تاہم سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اگر این آر او کی پارلیمنٹ نے توثیق نہ کی تو وہ تمام کیسز دوبارہ کھل جائیں گے جنہیں این آر او کے تحت ختم کر دیا گیا تھا۔ یہ نئی صورتحال نہ صرف پی پی اور ایم کیو ایم کیلئے پریشانی کا سبب بنی ہے بلکہ خود جناب زرداری کی صدارت کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے حوالے سے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق این آر او کو بل کی صورت میں منظورکرنے کیلئے حکومت کو قومی اسمبلی میں 13/ اور سینیٹ میں 11ووٹ درکار ہیں جو موجودہ صورتحال میں حاصل ہونا کافی مشکل ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو زیر بحث لائے بغیر اگر محض پارلیمنٹ کے اندر کی صورتحال ہی کو سامنے رکھا جائے تو این آر او کا بحران کم ہوتا نظر نہیں آ رہا تاہم ”این آر او بحران“ کا اگر مزید جائزہ لیا جائے اور ملک کی معاشی، داخلی اور خارجہ پالیسیوں کو بھی ”این آر او بحران“ کے ساتھ شامل کر دیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جو معاملہ ہمیں بہت ہی سادہ اور محض ایک آئینی و قانونی مسئلہ نظر آ رہا ہے درحقیقت وہ دوسری طرف ایک بہت بڑے گیم کا بھی حصہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے انسداد دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں ملوث ہو کر پاکستان کو جن مشکلات، خطرات اور مسائل میں دھکیل دیا توقع تھی کہ پیپلزپارٹی کی حکومت بھاری مینڈیٹ کے سہارے جنرل مشرف کے فیصلوں اور پالیسیوں کے نقصانات سے پاکستان کو نکالنے کی کوششیں کرے گی مگر یہ عجیب منظر ہے کہ زرداری حکومت نے ایک طرف جنرل مشرف کو پاکستان سے فرار ہونے کیلئے محفوظ راستہ دیا تو دوسری طرف پاکستان میں امریکی مداخلت کیلئے مزید پھاٹک کھول دیئے گئے۔ اس طرح کے فیصلوں نے جہاں پوری قوم کو تشویش میں مبتلا کر دیا وہیں پر جناب زرداری کا اقتدار بھی غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ وہ قوتیں جو پاکستان کو امریکی مداخلت، ڈرون حملوں، بلیک واٹر کی دہشت گردی اور توہین آمیز شرائط کی حامل امریکی امداد (لوگر بل) سے آزاد اور محفوظ دیکھنا چاہتی ہیں جن کے نزدیک خطہ کے استحکام اور امن کیلئے افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا ضروری ہے تاکہ پاکستان کا گھیراؤ جو امریکہ، نیٹو اور بھارت کی افواج کے ذریعے کیا جا رہا ہے اسے توڑا جا سکے۔ ان تمام اہداف کو حاصل کرنے کیلئے غالباً ان کے نزدیک موجودہ سیٹ اپ میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ ”مائنس ون فارمولا“ جو کافی دنوں سے اخبارات میں آ رہا ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ جانے کے بعد اس فارمولے کو عملی جامہ پہنانے والوں کو یقیناً ایک بہترین موقع مل گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ این آر او جب پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہو پائے گا تو اس کے بعد وہ ایک رات آئے گی جو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ حکومت کے ایوانوں میں آ چکی ہے کہ دیر گئے ، ملاقات کرنے والے ملاقات کریں گے اور دو آپشن رکھے جائیں گے اڈیالہ یا چکلالہ ۔ مشکل وقت جب دروازے کی بجائے دیوار پھلانگ کر آئے تو غلطی کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور عقلمند حکمرانوں کا وہ ایک ہی فارمولا کہ ”چھوٹی جان لاکھوں پائے“ پر بلا تاخیر عمل کیا جاتا ہے لہٰذا ہمارا یہ پختہ خیال ہے کہ اگر اڈیالہ کی بات کی گئی تو یقیناً پہلا جملہ یہ ہو گاکہ ان کا طیارہ لگایا جائے۔
اس طرح کے امکانی معاملے طے ہو جانے کے بعد صدارت کیلئے دو مضبوط امیدوار ہوں گے۔ میاں محمد نواز شریف اور چوہدری اعتزاز احسن۔ میاں نواز شریف کو صدارت پر فائزکر کے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان مثالی تعاون اور اعتماد قائم کیا جا سکتا ہے جس سے گیلانی حکومت مضبوط اور جمہوریت مستحکم ہو گی تاہم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی خاطر غالباً چوہدری اعتزاز احسن کا صدر بنایا جانا زیادہ بہتر ہو گا۔
بہرحال ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ تبدیلی لانے والی قوتوں کا ارادہ کیا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ صدر کے نئے انتخاب کیلئے راستہ بنایا جا رہا ہے۔ اس امکانی تبدیلی کا فیصلہ خاموشی سے کیا جائے گا تاہم اس پر عملدرآمد جمہوری انداز اور آئین کے تقاضوں کے مطابق ہو گا تاکہ امریکہ سمیت کسی ملک کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ پاکستان دوبارہ آمریت کے راستے پر چل کھڑا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور امریکی سفارتخانے کو قطعاً یہ فکر نہیں کرنی چاہئے کہ فوج مداخلت کرے گی۔ فوج کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں پیپلز پارٹی اور امریکہ خود ہی ایسی غلطیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کے بعد نئے انتخاب کا راستہ کھلتا نظر آ رہا ہے۔ آخری بات جو ہم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دوستوں کو کسی دوسرے سے گلہ کرنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ان کی حکومت جنرل مشرف کی ناکام حکومت سے بھی زیادہ ناکام اور آمریت سے بھی زیادہ بدنام ہو چکی ہے لہٰذا یہ خود پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہو گا کہ موجودہ ”سیٹ اپ“ میں جزوی تبدیلی لائی جائے کیونکہ اگر جزوی تبدیلی نہ آئی یا یہ کہ اسے روکا گیا تو پھربڑی تبدیلی یعنی عام انتخابات کا امکان بڑھ جائے گا کیونکہ ملک کو زیادہ عرصے تک خطرات میں اور عوام کو تکالیف میں مبتلا نہیں رکھا جا سکتا۔
تازہ ترین