• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سولہ جولائی نے جدید ترکی کیلئے ایک اہم اورتاریخ سازدن کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ گزشتہ سال اس دن باغی ترک فوجیوں نے حکومت کا تختہ الٹانے کیلئے ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشنوں پرحملہ کرنےکے ساتھ ساتھ ترکی کی پارلیمنٹ، صدارتی محل، پولیس اوردیگرریاستی اداروں پر بھی حملے کئے۔ اسکےعلاوہ انہوں نے سڑکوں پر احتجاج کرنے والے عوام کو بھی نشانہ بنایا۔ اس تشدد کے نتیجے میں 249 افراد جاں بحق جبکہ کئی ہزارزخمی ہوئے۔ ترکی کی فوجی بغاوتوں کی تاریخ میں یہ اب تک کی خونین ترین بغاوت تھی جو ناکام ہوگئی۔جب باغی ترک افواج صدارتی محل اور پارلیمنٹ کو بموں اور گولیوں سے نشانہ بنارہے تھے ترکی کے مغربی حلیف چپ سادھے ہوئے تھے۔ یہ ’’جمہور پسند‘‘ حکومتیں خاموشی سے یہ نظارہ دیکھتیں رہیں اورغالباً لطف اندوزہوتی رہیں۔ بغاوت کے کئی گھنٹوں تک انہوں نے صرف ’’جائزہ‘‘ لینے پر اکتفا کیا تاکہ حالات کے رخ کا صحیح اندازہ کر کےہی اس پررائے قائم کی جائے۔ اس سے یہ تاثرعام ہوگیا کہ ترکی کے مغربی حلیف صدر اردوان کی جمہوری حکومت کو گرتا دیکھنا چاہتے تھے۔ مگران کی خواہشات کے برعکس اردوان نے ایک حقیقی عوامی رہنما کی طرح بھاگنے کے بجائےحالات کا مقابلہ کیا۔ ان کی اپیل پرلاکھوں افراد سڑکوں پر امڈ آئے جنہوں نے باغیوں کے مورال کو ختم کردیا۔ نتیجتاً ان کے پاس عوام کے سامنے جھکنے کے علاوہ اور کوئی چارانہیں رہا۔ جب یہ واضح ہوگیا کہ صدراردوان باغیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو مغربی ممالک سے جمہوریت کے حق میں بیانات کا الاپ شروع ہوگیا۔ لیکن یہ ’’حمایتی‘‘ بیانات اتنی دیر سے آئے کہ ان کی افادیت نہیں رہی۔ مغربی ممالک کے اس معاندانہ روئیے سے ان خیالات کو مزید تقویت ملی کہ وہ درپردہ اس بغاوت کےنہ صرف حامی بلکہ ممدومعاون بھی تھے۔
دوران بغاوت یوروامریکی کارپوریٹ میڈیا کیجانب سے باغیوں کو مسلسل اخلاقی سپورٹ اورتدبیری صلاح ومشورے دیئے گئے حتیٰ کہ ترک عوام کی قوت مدافعت کمزورکرنے کیلئے من گھڑت خبریں اورافواہیں بھی پھیلائی گئیں۔امریکہ کے ایک چینل نے اپنی نشریات میں کئی ’’سابقہ‘‘ جاسوسوں کے ’’خیالات‘‘ کونمایاں جگہ دی جو رواں تبصرہ کرتے ہوئےسخت مضطرب نظرآئے کیونکہ حالات باغیوں کے ہاتھ سے نکلتے نظر آرہے تھے۔ امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے ایک سابق آفیسررابرٹ بیئر اس تاسف کا اظہارکرتے دیکھے گئے کہ ’’ترک بغاوت پیشہ ورانہ بنیادوں پر نہیں کی گئی۔‘‘ بیئرجو بقول خود کئی فوجی بغاوتوں میں شامل رہے ہیں نے لائیو نشریات کے دوران باغیوں کو کئی مفید مشوروں سے نوازا۔ اس دوران انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ چند ماہ قبل انہوں نے ترک فوج کے کچھ آفیسروں سے ممکنہ بغاوت کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ بغاوت کی اولین ساعتوں میں بدنام زمانہ مسلم اوراسلام دشمن ایک امریکی چینل نےفوجی بغاوت کے حوالے سے کافی پرامید نظر آیا اوردعویٰ کیا کہ ’’اگربغاوت کامیاب ہوتی ہے تو اسلام پسند ہارجائینگے اور ہم جیت جائینگے۔‘‘ دوسرے دن جب باغیوں کی شکست یقینی نظرآئی تو انہوں نے تأسف کے ساتھ دعویٰ کیا کہ ’’ترکی میں آخری امید دم توڑ گئی۔‘‘ بغاوت کے دوران جب جمہوریت کی کامیابی کیلئے عوامی مزاحمت اورجذبہ ازحد ضروری تھا امریکہ کے ایک بڑے ٹی وی چینل نے سینئرامریکی فوجی ذرائع کے حوالے سے ٹوئٹ کیا کہ صدر اردوان کو استنبول ائرپورٹ پراترنے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ کہ وہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست کرچکے ہیں۔ اس من گھڑت خبرکو بعدمیں امریکی گلوبل انٹلیجنس کمپنی نے بھی بہت پھیلایا۔ اسی طرح سابق امریکی فوجی عہدیدار اور سابق امریکی صدرجارج بش کے صلاح کارمائیکل روبن نے نیویارک پوسٹ میں اپنے مضمون میں ترکی کی فوجی بغاوت کوامید افزا قراردیا تھا۔
اس معاملے میں برطانوی اور یورپی میڈیا بھی اپنے امریکی ہم نفسوں سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں رہا اور انہوں نے بھی اس بغاوت کی حتی المقدور امداد کی۔ دی اکانومسٹ کی ابتدائی رپورٹنگ میں بغاوت کی کامیابی کی امید ظاہر کی گئی ۔ دائیں بازوکی طرف جھکاؤ رکھنے والا روزنامہ گارڈین بھی حیرت انگیز طورپرباغیوں کی مدد کواترا۔اس نے بغاوت کو واجب ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’ترکی میں تو پہلے ہی ایک سلوموشن بغاوت ہورہی تھی جو فوج کی طرف سے نہیں بلکہ اردوان کی طرف سے ہورہی تھی‘‘۔ برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی نے جو سرکاری طور پر برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کیلئے کام کرتا ہے نے اپنی ویب سائٹ پر اردوان کو اس سرخی کیساتھ پیش کیا ’’رجب طیب اردوان:ترکی کا سنگدل صدر۔‘‘ فوجی بغاوت سے کئی ماہ قبل مغربی ممالک میں اردوان کیخلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ شروع ہوچکا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ انہیں ایک خطرناک اسلامی شدت پسند کے طور پر بھی پیش کیا جانے لگا تاکہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف اہل مغرب کی بڑھتی ہوئی معاندانہ روش کا فائدہ اٹھاتے ہوئےاردوان کے خلاف مغرب میں رائےعامہ کو ہموار کیا جاسکے۔ اس ضمن میں امریکی جریدے نیوزویک میں بغاوت سے تین ماہ قبل مارچ2016ء میں ایک مضمون میں ترکی میں فوجی بغاوت کا مطالبہ کیا گیا۔
15جولائی کی ناکام بغاوت کے نتیجے میں ترکی اوراس کے مغربی حلیفوں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوگئی ہے۔ مغرب نے بغاوت کی ناکامی کو نہ صرف کھلے دل سے ماننے سےانکار کیا بلکہ ہرممکن کوشش کی کہ ترکی میں جمہوریت کو مضبوط ہونے سے روکا جاسکے تاکہ کسی نہ کسی شکل میں یورپ پراس کا تذویری انحصار باقی رہے۔ ترکی جب ناکام بغاوت کی پہلی برسی منانے کی کوششوں میں مصروف تھا توکئی یورپی ممالک نے اپنے ملکوں میں ترک حکومت یا جمہور پسند ترک نژاد آبادی کیجانب سے منائی جانے والی تقریبات پر مختلف حیلوں بہانوں سے پابندی لگادی جس سے واضح عندیہ ملتا ہے کہ فی الحال مفاہمت کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا کیونکہ اہل مغرب ترکی کیخلاف اپنی معاندانہ روش ترک کرنے میں بالکل سنجیدہ نہیں۔
یہ واقعئ ایک افسوسناک امر ہے کیونکہ موجودہ حالات میں جب دنیا کے کئی خطوں بشمول مغربی دنیا میں مذہبی اور قومی انتہا پسندی عروج پر ہے ترکی اورمغرب میں مفاہمت سے تہذیبوں کے درمیان مکالمے اور اتفاق رائے قائم کرنے میں کافی مدد ملتی جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تازہ ترین