سوال اخلاص کا نہیں اطلاق کا ہے، سینکڑوں نہیں ہزاروں والدین اپنی اولاد کو اپنے بے پناہ متشدد رویوں سے برباد کر دیتے ہیں۔ تربیت کے نام پر نہایت خلوص سے اولاد ان کی کم علمی اور ذہنی اندھے پن کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، چنانچہ سوال اخلاص کا نہیں اطلاق کا ہے اور اطلاق کی رو سے پاکستان کے گزرے تقریباً 70برسوں میں منتخب وزرائے اعظم اور منتخب حکومتوں کو احتساب اور اخلاقیات کے پلڑوں میں، عوامی ووٹ کی نفی کے لئے، خلوص نیت کے نام پر اپنی ذاتی پسند و ناپسند کا شکار کر دیا گیا، ماضی کے ان قریب قریب 70برسوں میں کوئی غیر منتخب حکمران، کوئی نگران حکومت کبھی احتساب اور اخلاقیات کے مقدس جھمیلوں سے نہیں گزارے گئے۔
روحانیات کی صداقت اپنی جگہ مگر خالق کائنات کے قوانین بھی اپنی جگہ، زندگی ان قوانین کے تحت چلائی جا رہی ہے، روحانیات استثنیٰ ہے اور استثنیٰ زندگی کا معمول نہیں، لہٰذا نواز شریف کی رخصتی کو کسی روحانی صورتحال کا نتیجہ قرار دینا خود کو شاید سب سے بڑی آزمائش میں مبتلا کر دینے کے مترادف ہے، آپ ہم سب خطا کار ہیں، ہمیں کسی کے اعمال پہ حرف آخر کہنے سے پہلے اپنے مالک کے احکامات اور اپنے دامن پر، چاہے طائرانہ سی ہی سہی، اک نظر ڈال لینی چاہئے، امید ہے طبیعت درست ہو جائے گی!
سو سوال اخلاص کا نہیں اطلاق کا ہے، پاکستان کے گزرے قریب قریب 70برسوں کی تاریخ منتخب وزرائے اعظم اور منتخب حکمرانوں کی سیاسی زندگیاں، آئینی بالادستی، عوامی ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل جنگ لڑتے لڑتے بیت رہی ہیں!
برادر عزیز جاوید ہاشمی کی آہ و فغاں یونہی نالہ بن کر پاکستان کی فضائوں میں تھرتھری پیدا نہیں کر رہی، ان کے اظہار اور الفاظ نے اس آہ و فغاں کے ناتے منتخب وزرائے اعظم اور منتخب حکومتوں کی المناک تاریخ کو مجسم اور متشکل کر دیا۔ ان کا کہا دہراتے چلے جاتے ہیں۔
برادر کا کہنا ہے! ’’کوئی جج جرنیل یا سیاستدان صادق امین نہیں گاڈ مافیا کہہ کر آپ نے فیصلہ دے دیا، سماعتنیا بنچ کرے۔ صرف حضور ﷺ صادق اور امین تھے، شیخ رشید پہلے میرا، پھر مشرف، اب عمران کا درباری ہے، جے آئی ٹی کیسے بنتی اور کام کرتی ہے اعلیٰ عدلیہ کو پتہ ہے، جس جج کا نام پاناما میں ہے اس کا کوئی نام لے سکتا ہے۔ ’’تصدق جیلانی کے بعد آنے والا چیف جسٹس پارلیمنٹ توڑ دے گا‘‘ میں نے کہا ’’یہ مارشل لا ہو گا‘‘، عمران نے کہا’’جج کے اس اقدام کو کون مارشل لا کہے گا‘‘، جرنیلوں کی انگلی کے اشارے سے ملک ہل جاتا ہے، نواز شریف نے مجھے کبھی پسند نہیں کیا، آئین کچلنے والوں سے کوئی پوچھنے والا ہے، قربانی ہمیشہ سیاستدانوں کو دینی پڑتی ہے، سازشیں عروج پر ہیں، لوگوں کو انصاف اور معاشی حالت میں بہتری چاہئے، احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے‘‘، یہ ہے پاکستان کے عوامی ووٹ، آئین کی بالادستی اور جمہوری تسلسل کی لڑائی میں مصروف قوتوں کی داستان!
چنانچہ ان دنوں پاکستان کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کے مختلف مواقع پر اظہاریوں کو بھی دہراتے چلتے ہیں۔
(1) اسمبلیاں توڑیں گے نہ استعفیٰ دیں گے۔
(2) آخری حد تک مقابلہ کروں گا، یقین ہے عدالت ہمارے تحفظات کو سنے گی، تیسرا حملہ، خدا اور عوام ساتھ ہیں۔
(3) جمہوریت فروش سازشی ٹولے کے کہنے پر کسی صورت مستعفی نہیں ہوں گا۔
(4) دل کرتا ہے سب کچھ کہہ دوں، ایسا وقت ضرور آئے گا۔
منتخب وزیراعظم کے علاوہ وفاقی کابینہ اور مریم نواز کا ایک ایک بیان بھی ریکارڈ پر رکھ لیں۔
(1) سازش کے ہدایت کار ملک سے باہر اور اداکار اندر ہیں!
(2) عوامی مینڈیٹ پر شب خون نہیں مارنے دیں گے، ان شاء اللہ وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے!
اب تیسرا منظر! ایک انگریزی معاصر کی تجزیہ کار کی رپورٹ کے مطابق۔ وزیراعظم کو ’’سازش‘‘ کے پس پردہ حقائق کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ اس کے بعض نکات اور اپروچ کے مطابق رپورٹ سازشیوں کے عزائم اور منصوبوں کو آشکار کرتی اور ’’ن‘‘ لیگ کی منتخب حکومت کو اپنے عوامی مینڈیٹ کے دفاع میں ناگزیر اقدامات بھی تجویز کرتی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ دراصل منتخب وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا پیغام ہے، پہلے یہ مشورہ اعلانیہ دیا جاتا تھا مگر بعد میں یہی کام جے آئی ٹی کی وساطت سےکیا گیا۔
رپورٹ انکشاف کرتی ہے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ ملک کے کونے کونے میں پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی بقاء بنا کرپیش کیا جائے گا ایسا لگے گا پاکستان کی دھرتی کا ہر ذرہ اسی مطالبے میں مصروف ہے۔ یہ انتہا ایسی ہو جس سے قومی سطح پر عملی انارکی پیدا ہو جائے جس کے بعد کسی راستے سے ملک کی ’’نظریاتی اور جغرافیائی بقا‘‘ بچانے کے لئے ’’اقدام‘‘ کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہے، استعفیٰ کے مطالبہ کا انداز اور مقدار رپورٹ کی تائید ہی کرتا نظر آتا ہے، بدقسمتی اب ’’استعفیٰ مافیا‘‘ کی اسے ساری اپوزیشن کو اس یک نکاتی ایجنڈے پر لانے پر کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، مولانا فضل الرحمٰن، آفتاب شیر پائو، اسفند یار ولی اور حاصل بزنجو کی جماعتیں اس مطالبے سے مکمل علیحدگی، مخالفت اور لا تعلقی کا اعلان کر چکی ہیں!
یہ جو بعض قلمکار منتخب وزیراعظم کی جانب سے ’’آخری دم تک لڑوں گا‘‘ کے عزم کو ان کی ذات کا تکبر، ذاتی ضد، ذاتی ہٹ دھری ثابت کرنے میں تاریخ عاجزی، فلسفۂ عاجزی، نتیجۂ عاجزی، مقصد عاجزی اور عظمت عاجزی کے میناروں کی تعمیر میں دن رات معماروں کی طرح مصروف ہیں، وہ زیادتی کر رہے ہیں، عاجزی کی عمارت پہلے ہی عوامی ووٹ کے انتخاب کی شکل میں موجود ہے یعنی نواز شریف تو ایک فرد ہے لیکن پاکستانی عوام کے ووٹ نے 1973ء کے ملکی آئین کی روشنی میں اسے حق حکمرانی تفویض کیا ہے، وہ اس انتخابی امانت کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ویسے تو اسفند یار ولی نے چند ماہ قبل جیو کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا تھا ’’کسی کا باپ بھی نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکتا‘‘ بہرطور سپریم کورٹ میں پاکستان کی منتخب تاریخ کی سماعت جاری ہے، اپنے مقدر کا انتظار کریں!