کراچی(رائٹرز) گجرات فسادات کو15سال گزرنے کے باوجود متاثرہ بھارتی مسلمان تاحال کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فروری 2002میںشاہجہان نامی نوجوان احمد آباد میں اپنی والدہ کے ہمراہ مارکیٹ میں سبزیاں فروخت کر رہا تھا کہ فسادات پھوٹ پڑے، اس دوران شہر میں ہجوم کی افراتفری پھیلائی ہوئی تھی، گھروں کو جلایاگیا، دکانیں لوٹی گئیں ، خواتین کی عصمت دری کی گئی او ر مردوں خواتین اور بچوں کو قتل کیا گیا اور تقریباً1ہزار سے زائد لوگ ’’اکثریت مسلمان‘‘ ان فسادات میں مارے گئے۔ شاہجہان اور انکی والدہ فسادات کی پہلی رات مارکیٹ میں ہی چھپے رہے اور پھر اگلے دن انہیں ریلیف کیمپ میں لے جایاگیاجہاں ان کے خاندان کے ساتھ دیگر مسلمان بھی موجود تھے بعد ازاں کیمپ چھوڑ کر شاہجہان اور انکا خاندان سٹیزن نگر میں مسلم چیرٹی کی جانب سے پناہ گزین خاندانوں کے لئے بنائے گئے2کمروں کے عارضی مکانات میں مقیم ہوگئے، اب گجرات فسادات کو 15سال گزرچکے ہیں اور شاہجہاں اور انکا خاندان آج بھی وہیں مقیم ہے۔
اس سلسلے میں 23سالہ شاہجہان کا کہنا تھا کہ فسادات میں انہوں نے سب کچھ کھو دیا ہم اس گھر کے لئے انتہائی مشکور ہیں لیکن ہم روزانہ یہاں گھٹ گھٹ کر جیتے ہیں، یہاںدھواں ، بو، گندگی ہے ا ور سہولتوں کا فقدان بھی ہے۔ ہم نےیہاں سے جانے کا سوچا پر ہم کہاں جائیں؟ فسادات میں تقریباً2لاکھ افراد بے گھر ہوئے جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اسی سلسلےمیں ایک بھارتی وکیل شمشاد پٹھان کا کہناتھا کہ متاثرین کو پھر آبادکرنےکے لئے ریاست کی جانب سے انتہائی کم اقدامات کیے گئے۔