• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ برسوں کی قومی سیاست میں، تین فریق اہم کردار ادا کرنے والے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور بنیادی کردار تحریک انصاف کا ہوگا جس کا دور 2011 دسمبر سے شروع ہوچکا ہے، اگرچہ وہ برسراقتدار نہیںہے، لیکن اس کے سیاسی اثرات پورے ماحول پر حاوی ہیں۔ پارلیمنٹ کی حزب اقتدار ہو یا اختلاف سب اس کے بوجھ سے دبی کراہ رہی ہیں، وہ ہر انتخابی حلقے میں ہر جماعت کی متبادل ہے لیکن اس کا حقیقی متبادل پیدا ہونے میں ابھی دیر ہے۔
دوسرا فریق مسلم لیگ(نواز) ہے، اگرچہ وہ ابھی تک مرکز اور پنجاب میں برسراقتدار ہے لیکن ہر دن اس کی قوت و شوکت، مدہم ہوتی جاتی ہے۔
تیسرا فریق جسے فی الوقت سب لوگ نظر انداز کئے یا بھول بیٹھے ہیں، وہ مسلم لیگ(ق)اور چوہدری برادران ہیں یعنی سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی ہیں جو آج کی سیاست کے بلند آہنگ میں اپنی نرم گوئی کی وجہ سے سنائی نہیں دے رہے لیکن آئندہ انتخاب کے بعد (جو بہت جلد منعقد ہونے جارہے ہیں) ان کا کلیدی کردار ہوگا، نوابزادہ نصر اللہ اور چوہدری ظہور الٰہی کی طرح۔
پچھلے 47برس کی قومی سیاست، پیپلز پارٹی اور اس کے خلاف ردعمل کی سیاست تھی۔ پاکستان قومی اتحاد، ضیاء الحق، اسلامی جمہوری اتحاد، مسلم لیگ جیم، قاف، نون ا ور پرویز مشرف بھی، ان سب کا کوئی خاص سیاسی نظریہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے اگر وہ آجائے تو نکال باہر کرنے کی تدبیر کریں۔ ضیاء الحق کی شہادت کے بعد نواز شریف ان کے جانشین ٹھہرے اور انہیں پیپلز پارٹی کا اصل حریف تسلیم کرلیا گیا۔ مذہبی لوگ، بزنس کلاس، سفید پوش ، صنعت کار، پنجاب کے زمیندار اور اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں نواز شریف کی حمایت اور مدد کرتے رہے، فوج اور عدلیہ نے ہر آڑے وقت نواز شریف کا ساتھ دیا، باوجودیکہ اکثر اوقات ان کا موقف غلط اور طرز عمل ناگوار تھا، پھر بھی ان کی حمایت اور ناز برداری کی جاتی رہی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے دانشور صلاح کار یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ جس وجہ سے ان کو ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا گیا تھا وہ وجہ ہی باقی نہیں رہی اس لئے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اور اپنا توازن خود برقرار رکھنا ہے۔ حماقت کی حد یہ ہوئی کہ جن وجوہات، نظریات اور شخصیات کی وجہ سے پیپلز پارٹی پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا انہیں میاں نواز شریف نے خود اختیار کرلیا، بدعنوانی اور بیرون ملک اثاثے جن کی وجہ سے زرداری بدنام ہوئے ان کی اپنی شہرت بھی ان کے ساتھ میچ کرنے لگی اور ’’پاناما لیکس‘‘ کے بعد عمران خان کی ثابت قدمی نے انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعدہر چند کہیں ہے نہیں وہ یہ تو نہیں کہ پل بھر میں نواز شریف کا اثر زائل اور ان کی پارٹی تحلیل ہوجائے گی لیکن آج کے بعد 1997اور 2013کی مسلم لیگ(ن) کبھی دکھائی نہ دے گی۔ آئندہ انتخابات کے بعد یہ آہستہ آہستہ معدوم ہو کر ایک نئی مسلم لیگ کی شکل میں پیدا ہوگی۔ مسلم لیگ ہندوئوں کے نظریہ ’’اواگون‘‘ کے سچ ہونے کی واحد مثال ہے، پیپلز پارٹی1997میں زوال کی آخری حد کو پہنچ گئی تھی، مگر متبادل پیدا نہ ہونے کی وجہ سے مشرف کے بعد پھر زندہ نظر آنے لگی۔ اس پارٹی کو صرف زرداری کی بری شہرت اور خراب کارکردگی نے ختم نہیں کیا بلکہ عمران خان کی شکل میں اس پارٹی کا بہتر متبادل پیدا ہوگیا، ورنہ بری شہرت اور خراب کارکردگی، ان کے پہلے دور میں ہی ثابت ہوگئی تھی۔ 2007سے عمران خان کی تحریک انصاف کا عہد طلوع ہوا،2011کے بعد اسے ہر جگہ اور ہر کسی کے متبادل کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ زرداری صاحب کی طرح، نواز شریف بھی اپنی آخری بازی کھیل کر رخصت ہورہے ہیں، جس طرح پچھلے یعنی 2013 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا مکمل صفایا نہیں ہوا تھا بلکہ وہ مسلم لیگ نواز کے بعد پارلیمنٹ میں دوسری بڑی پارٹی کے طور موجود رہی، اسی طرح مسلم لیگ’’نواز‘‘نہ ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں دوسری بڑی جماعت ہوگی، البتہ پی پی کی حالت اے این پی جیسی ہوجائے گی جو سندھ کے دو ایک اضلاع میں زندہ رہے گی، مسلم لیگ پیپلز پارٹی نہیں ہے جو زرداری کی بے احتیاطی اور عمران خان کی ضرب سے دم توڑ دے۔ مسلم لیگ نے آب حیات پی رکھا ہے، اس کو آپ کاٹ کر ٹکڑوں میں بانٹ دیں تو کیچوے کی طرح ہر ٹکڑا ایک نیا اور زندہ کیچوا بن جاتا ہے۔ پاکستان کی یہ بانی جماعت لیاقت علی خان کے بعد اپنا اصل کردار بھول بیٹھی، اب یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں پاسنگ کی طرح ہے ، جب قومی سیاست کا پلڑا ایک سمت میں زیادہ جھک جائے تو اس کی مددسے دوسرے پلڑے کو برابر رکھا جاتا ہے۔ حالات کی رفتار کہتی ہے کہ نئے انتخاب اب زیادہ دور نہیں ہیں، عمران خان کے لئے حالات زیادہ ہی سازگار بنتے جارہے ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے حریف کمزور پڑتے جارہے ہیں، اس کی اولین حریف حکمران جماعت سربراہ سے محروم ہو کر ا ندرونی خلفشار سے گزررہی ہے، شہباز شریف کو نیا وزیر اعظم بننے کے لئے قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنا ہوگا، موجودہ حالات میں یہ مرحلہ ہمیشہ کے مقابلے میں بہت دشوار ہے، ساتھ ہی سنگین الزامات پر مقدمات کا سامنا نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران تفتیشی ٹیم کے خلاف ہونے والی وارداتوں کے بعد اپوزیشن یہ بات مان کر نہیں دے گی کہ جس خاندان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں اس کے اہم فرد کو اثر انداز ہونے کا موقع دے، چنانچہ ان کے خلاف احتجاج کی تحریک زور پکڑ سکتی ہے۔ شہری انتظامیہ گزشتہ برسوں کی طرح شریف خاندان کے وفادار کا کردار نبھا نہ سکے گی، ماڈل ٹائون قتل عام کا مسئلہ سر اٹھانے کو ہے، عمران خان کشش اور مقبولیت عروج پر ہے، حکومت کے خلاف ابھی ابھی اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے، ساری جماعتوں بشمول مسلم لیگ(ن) اہم انتخابی امیدوار اسے دستیاب ہیں۔ پاکستان بھر کے ہر حلقے میں اسے تجربہ کار لوگ مل گئے ہیں۔ پچھلے الیکشن کے بعد تقریباً دو کروڑ نیا ووٹر لسٹ ہوا ہے اور نوجوان ووٹرز کی بھاری تعداد عمران خان کے ساتھ ہے، اگر نتائج کو سابق انتخابات کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو امیدواروں کی دستیابی کے بعد نئے ووٹر کا اندراج عمران خان کی واضح کامیابی کے لئے کافی ہے۔ نواز شریف میں پھر بھی ایک بات دوسروں سے الگ تھی کہ وہ عمران خان کے مقابل جلسے کا بھرم رکھ سکتا تھا لیکن خانشین نہ عمران خان کی طرح انتھک ہیں، محنتی نہ پرکشش لہٰذا وہ خان کے مقابلے جلسے کرسکیں گے نہ ووٹر کو متحرک، عمران خان کے مخالفین کو اب کے بار اسٹیبلشمنٹ کا تعاون اور تھپکی بھی نہ مل سکے گی، ان بیساکھیوں کے بغیر انہوں نے چلنا سیکھا ہی نہیں۔ تبدیلی کی خواہش بھی لوگوں کے دل میں مدتوں سے انگڑائیاں لے رہی ہے جس کے پورے کرنے کا موقع ملے گا۔
انتخاب کے بعد قومی سیاست نئے مراحل طے کرے گی، جب مسلم لیگ چوہدری برادران کی کوشش سے اتحاد بنائے گی اور حسب سابق اسٹیبلشمنٹ کی پرانی محبت جوش میں ہوگی۔

تازہ ترین