قحط الرجال کے اس دور میں جب چند چہرے ایسے سامنے آتے ہیں جنہیں ان کے کردار کے حوالے سے ’’چاند چہرے‘‘ کہا جا سکتا ہے تو دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ اس دور پُر آشوب میں جب جھوٹ بولنے پر انعام اور سچ بولنے پر الزام آپ کے حصے آتا ہو، سچ بولنا جہاد کے برابر ہو جاتا ہے۔ میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ کلمہ حق کہنے والے ہمارے درمیان بہت کم ہو گئے ہیں اور ہر طرف سے جھوٹ کی یلغار ہو رہی ہو اور یہ یلغار اتنے کونوں سے اتنے شدومد کے ساتھ ہو رہی ہو کہ حقیقت حال سے بے خبر عوام اس کو یا تو سچ سمجھنے لگتے ہیں یا کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ میرا ایک دوست میری اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہو تو انتخابات کے نتائج پروپیگنڈے کی یلغار کے مطابق آنے چاہئیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا!
چلیں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی کریں گے۔ میں بہت شدت سے جمہوریت کا قائل ہوں اور ہر ریاستی ادارے کو اس کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرتے دیکھنے کا خواہاں ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اس معاملے میں ایک مثالی کردار کے حامل ہیں۔ وہ اپنے دل کی بات بے خوف لہجے میں کرتے اور اس کے لئے ہر قسم کے خطرات مول لینے کو تیار نظر آتے ہیں۔ وہ ایک بہت پڑھے لکھے اور شائستہ انسان ہیں۔ انہیں اپنی بات کہنے کا ہنر بھی آتا ہے۔ میرے دل میں ان کے لئے اتنا احترام اور اتنی محبت ہے کہ ایک بار ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ میری اس بات پر ہنسیں نہیں، کیونکہ جس شخص کے ساتھ ہزاروں لوگ تصویر بنوانے کے خواہشمند ہوں تو اس کا نفس موٹا ہو جاتا ہے اور اس کے لیے اس طرح کی فرمائش شکل ہو جاتی ہے جو میں نے رضا ربانی صاحب سے کی۔ میں اس وقت ان کی مختلف تقریریں خصوصاً حالیہ تقریر کے حوالے نہیں دوں گا کہ جمہوریت کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ ہم پر واضح ہے۔ میں اس وقت صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ربانی صاحب مجھے آپ سے محبت ہے۔
رضا ربانی ہی کی طرح ایک شخصیت اور بھی ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں اور اس محبت کی وجہ بھی ان کی ہر دور میں آمریت کے خلاف جدوجہد ہے۔ میں انہیں ایوب خان کے زمانے مار کھاتے اور جیلیں بھگتتے دیکھ رہا ہوں، ان کا ’’سابق‘‘ وزیراعظم میاں نواز شریف سے اختلاف ہوا تو وہ خوش فہمی کا شکار ہو کر عمران خان کی تحریک انصاف میں چلے گئے، مگر انہیں جلد ہی پتا چل گیا کہ اس جماعت کا لیڈر تو کسی’’انگلی‘‘ کے اشارے کے انتظار میں رہتا ہے چنانچہ انہوں نے عمران کے دھرنے کے عین دوران نادیدہ طاقتوں سے عمران کے پوشیدہ تعلقات طشت از بام کر دیئے۔ وہ حالانکہ مسلم لیگ(ن) میں نہیں ہیں لیکن انہوں نے نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر سپریم کورٹ کے بارے میں کھل کر وہ باتیں کیں جو رضا ربانی نے بھی اپنی ایک حالیہ تقریر میں ’’بہت سے لفظوں‘‘ میں کہی تھیں۔ جاوید ہاشمی نے طویل جیل اور طویل علالت بھی کاٹی ہے۔ اب وہ نوجوان بھی نہیں ہیں مگر ان کے جذبے جوان ہی نہیں جوان رعنا کی طرح نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں تادیر ہمارے درمیان سلامت رکھے۔
ایک خاتون جسے میں ’’آئرن لیڈی‘‘ کہتا ہوں اور جس کا نام عاصمہ جہانگیر ہے وہ مجھ ایسے سہمے ہوئے ڈرپوک شخص کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ مجھے ان کی سب باتوں سے اتفاق نہیں ہے مگر وہ اپنی بات جس Clarityاور بے باک انداز میں کرتی ہیں، انہیں تو یہ سب کچھ کہتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا، مگر میں ڈر جاتا ہوں۔ وہ صف اول کی قانون دان ہیں اور سویلین بالادستی کی زبردست حامی ہیں۔ جب سب لوگ کسی جابر سلطان کے پائوں میں جگہ تلاش کرتے ہوں یہ خاتون ایسے جابر سلطان کی ایسی کی تیسی کر دیتی ہے۔ عاصمہ ایک بڑے باپ کی بڑی بیٹی ہے۔ جو لوگ دنیاوی خواہشات کو ٹھوکر مار کر جھوٹ کے مقابلے میں سچ کا ساتھ دیں، وہ نیک لوگ ہوتے ہیں۔ میں عاصمہ سے درخواست کروں گا کہ وہ میرے لئے دعا کیا کریں۔
میں یہاں ایک اور غیر معمولی شخص کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ میں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں۔ اس کا نام پرویز رشید ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں کون سی عقوبت ہے جو انہوں نے اس شخص کے عقوبت خانوں میں برداشت نہیں کی مگر اس کے پائے استقلال میں کبھی لرزش نہیں آئی۔ پرویز وزیر رہا مگر فقیروں جیسی زندگی بسر کرتا رہا۔ سیاست میں آنے سے پہلے خوشحال تھا اب صرف گزر بسر کرتا ہے۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دور میں صرف اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ڈان لیکس کے حوالے سے پرویز رشید، طارق فاطمی ایسے بلند کردار ساتھیوں اور اس سے پہلے مشاہد اللہ خان جیسے جواں مرد کی قربانی بادل نخواستہ دینے پر مجبور ہو گئے جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ مجھے یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا تھا، مگر ان دوستوں نے اس کے باوجود پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یہ آج بھی نظریاتی لوگ ہیں اور اپنی نظریاتی جماعت کے ساتھ ہیں۔ میں پرویز رشید کو دیکھتا ہوں تو آنکھیں جھکا لیتا ہوں۔ میں ان سے آنکھیں نہیں ملا سکتا مگر یہ شیر دل اپنی پارٹی اور اپنے نظریے کے ساتھ پہلے کی طرح وفادار ہے اور اپنے ہر عمل سے اپنے لیڈر کے فیصلے کی توثیق کرتا ہے۔
میرا جی چاہتا تھا کہ میں یہاں ان تمام لوگوں کا ذکر کروں جنہوں نے آمریت کے خلاف جدو جہد کے دوران بے پناہ قربانیاں دیں۔ان سب کے نام میرے دل کی دھڑکنوں میں زندہ ہیں خصوصاً کچھ صحافیوں نے تاریخی کردار ادا کیا، یہ وہ لوگ ہیں جنہو ں نے اپنے پیشے کی لاج رکھی اور میں ان کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ لیکن ایک ادارہ ایسا ہے جس نے پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو اپنی آواز بنایا اور یہ جنگ گروپ ہے۔میں نے اس کے مالک اور گروپ ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان سے زیادہ بہادر اور جنگجو شخص اور کوئی نہیں دیکھا۔میں نے سنا تھا کہ سرمایہ دار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،کوئی نظریہ نہیں ہوتا ،مگر میر شکیل الرحمان نے یہ بات غلط ثابت کر دکھائی۔وہ زبردست پاکستانی ہے۔جو اس شخص کی حب الوطنی پر شک کرتا ہے میرے دل میں اس کی عزت کم ہو جاتی ہے۔ اس کے ادارے نے جمہوریت، انصاف،کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی سالمیت کے لیے غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کیا، اربوں روپے کا نقصان اٹھایا،اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا،چوبیس گھنٹے کی ٹینشن مول لی،مگر کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔میں ان صحافیوں کے نام سنا کرتا تھا جنہوں نے انگریز کے خلاف جدوجہد کی اور اس ضمن میں بے پناہ قربانیاں دیں۔خدا کا شکر ہے کہ حمید نظامی، مجید نظامی،شورش کاشمیری اور مجیب الرحمان شامی کے بعد ایک ایسا نام سامنے آیا ،جو پہلے وقتوں میں تو سننے میں آجاتا تھا مگر آج کے دور آشوب میںاس کا تصور بھی محال تھا۔میرے پاس میر شکیل الرحمان کے علاوہ پاکستان کے ان تمام قابل فخر لوگوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں، جن کا میں نے اس کالم میں ذکر کیا ہے۔میں تو ان کیلئے دعا ہی کر سکتا ہوں۔ان سب تک میرا سلام پہنچے!