گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی اذیت ناک لہر نے امت ِ مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کر رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں مسلمان مجموعی طور پر دہشت گردی کی مذمت اور مخالفت کرتے ہیں اور اسلام کے ساتھ اس کا دور کا رشتہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہاں کچھ لوگ اس کی خاموش حمایت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ اس کی کھلم کھلا مذمت و مخالفت کی بجائے موضوع کو خلط مبحث کے ذریعے الجھا دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی اسباب میں عالمی سطح پر بعض معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ نا اِنصافی ، بعض خطوں میں بالادست طاقتوں کے دُہرے معیارات اور کئی ممالک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لئے طویل المیعاد جارحیت جیسے مسائل بنیادی نوعیت کے ہیں۔
اِسی طرح دہشت گردوں کی طرف سے مسلح فساد انگیزی، انسانی قتل و غارت گری، دنیا بھر کی بے گناہ اور پر امن انسانی آبادیوں پر خودکش حملے، مساجد ، مزارات ، تعلیمی اداروں ، بازاروں ، سرکاری عمارتوں، ٹریڈ سینٹروں ، دفاعی تربیتی مرکزوں ، سفارت خانوں، گاڑیوں اور دیگر پبلک مقامات پر بمباری جیسے اِنسان دشمن، سفاکانہ اور بہیمانہ اقدامات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ لوگ آئے دن سیکڑوں ہزاروں معصوم جانوں کے بے دریغ قتل اور انسانی بربادی کے عمل کو جہاد سے منسوب کردیتے ہیں اور یوں پورے اسلامی تصورِ جہاد کو خلط ملط کرتے رہتے ہیں۔ اس سے نوجوان نسل کے ذہن بالخصوص اور کئی سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن بالعموم پراگندہ اور تشکیک و ابہام کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ ایسے اقدامات کرنے والے مسلمانوں میں سے ہی اٹھتے ہیں، اسلامی عبادات و مناسک کی انجام دہی بھی کرتے ہیں اور ان کی ظاہری وضع قطع بھی شریعت کے مطابق ہوتی ہے لہٰذا عام مسلمان ہی نہیں بلکہ بیشتر علماء اور دانشور بھی ایک مخمصے میں مبتلا ہیں کہ ایسے افراد اور گروہوں کے اس طرح کے طرز عمل، طریقہ کار اور اقدامات کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں؟
علاوہ ازیں مغربی دنیا میں میڈیا عالم اسلام کے حوالے سے صرف شدت پسندی اور دہشت کے اقدامات و واقعات کو ہی highlight کرتا ہے اور اسلام کے مثبت پہلو، حقیقی پُرامن تعلیمات اور اِنسان دوست فلسفہ و طرز عمل کو قطعی طور پر اُجاگر نہیں کرتا۔ حتی کہ خود عالمِ اسلام میں دہشت گردی کے خلاف پائی جانے والی نفرت، مذمت اور مخالفت کا سرے سے تذکرہ بھی نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں منفی طور پر اسلام اور انتہا پسندی و دہشت گردی کو باہم بریکٹ کردیا گیا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اسلام کا نام سنتے ہی مغربی ذہنوں میں دہشت گردی کی تصویر ابھرنے لگتی ہے۔ اس سے نہ صرف مغرب میں پرورش پانے والی مسلم نوجوان نسل انتہائی پریشان، متذبذب اور اضطراب انگیز ہیجان کا شکار ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے نوجوان اعتقادی، فکری اور عملی لحاظ سے متزلزل اور ذہنی انتشار میں مبتلا ہورہے ہیں۔
ان تمام حالات کے نتیجے میں دو طرح کے ردّعمل اور نقصانات پیدا ہورہے ہیں۔ ایک نقصان اسلام اور امت مسلمہ کا اور دوسرا نقصان عالم مغرب اور بالخصوص پوری انسانیت کا۔ اسلام اور اُمت مسلمہ کا نقصان تو یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی نوجوان نسل جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے شناسا نہیں و میڈیا سے متاثر ہوکر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو (معاذ اللہ ) دین و مذہب کے اثرات یا دینی اور مذہبی لوگوں کے رویوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور یوں اپنے لئے لادینیت یا دین گریزی کی راہ میں بہتری سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ غلط طرزِ فکر انہیں رفتہ رفتہ بے دین بنارہا ہے جس کا نقصان پوری اُمت ِ مسلمہ کی اگلی نسلوں کو ہوگا۔ اس کے برعکس دوسرا نقصان، عالم ِ مغرب اور بالخصوص پوری انسانیت کیلئے یہ ہے کہ مذکورہ بالا پالیسیوں اور منفی سرگرمیوں کا کئی مسلم نوجوانوں پر منفی ردّعمل ہورہا ہے۔ وہ اسے عالم مغرب کے بعض موٴثر حلقوں کی اسلام کے خلاف منظم سازش اور عداوت قرار دے رہے ہیں جسکے نتیجے میں وہ ردّعمل کے طور پر راہِ اعتدال (moderation ) چھوڑ کر نفرت و انتقام کا جذبہ لے کر انتہا پسند (extremist ) اور پھر شدت پسند اور پھر بالآخر دہشت گرد بن رہے ہیں یا بنائے جارہے ہیں ۔ گویا مغربی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو مزید نئی کھیپ اور نئی افرادی قوت میسر آتی جارہی ہے اور یہ سلسلہ لا متناہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ سو دونوں صورتوں میں نقصان عالمِ انسانیت کا بھی ہے اور عالم اسلام کا بھی ۔
مزید یہ کہ ایسے حالات عالمِ مغرب کے درمیان تناؤ اور کشیدگی میں مزید اضافہ کرتے جارہے ہیں اور دہشت گردی کے فروغ سے مسلم ریاستوں میں مزید دخل اندازی اور ان پر دباؤ بڑھائے جانے کا راستہ بھی زیادہ سے زیادہ ہموار ہوتا جارہا ہے۔ پھر یہ خلیج عالمی سطح پر انسانیت کو نہ صرف بین المذاہب مخاصمت کی طرف دھکیل رہی ہے بلکہ عالمی انسانی برادری میں امن و سکون اور باہمی برداشت و رواداری کے امکانات بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
اِن حالات میں ہم نے ضروری سمجھا کہ ملت ِ اسلامیہ کا دو ٹوک موقف قرآن و سنت اور کتب ِ عقائد و فقہ کی روشنی میں واضح کردیا جائے۔ یہ موقف شرق تا غرب دنیا کے ہر خطہ میں تمام قابلِ ذکر اداروں او موٴثر طبقات تک پہنچا دیا جائے تاکہ غلط فہمی اور شکوک و شبہات میں مبتلا جملہ مسلم و غیر مسلم حلقوں کو دہشت گردی کے بارے میں اسلام کا نقطہٴ نظر سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اِس تحقیقی دستاویز کے مندرجات اور مشتملات کا اِجمالی خاکہ کچھ اِس طرح ہے کہ اس دستاویز کے پہلے باب میں اِسلام، ایمان اور اِحسان۔ پر بحث کی گئی ہے ۔ یہ تینوں الفاظ اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے سراسر اَمن و سلامتی، رحمت و رأفعت ، تحمل و برداشت ، محبت و اُلفت ، اِحسان شعاری اور اِحترامِ آدمیت کی تعلیم کے حامل ہیں۔
اِس دستاویز کے دوسرے باب میں درجنوں آیات اور بیسیوں اَحادیث کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کا قتلِ عام اور دہشت گردی اسلام میں قطعی حرام بلکہ کفریہ افعال ہیں۔ کبارائمہ تفسیر و حدیث اور فقہاء و متکلمین کی تصریحات سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ چودہ سو سال تاریخِ اسلام میں جملہ اہلِ علم کا فتویٰ یہی رہا ہے ۔
فتویٰ کے تیسرے باب میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اِس ضمن میں متعدد آیات و احادیث اور آثار سے استنباط کرتے ہوئے کبار اَئمہ کرام کی آراء بھی درج کی گئی ہیں۔
علاوہ ازیں اس بحث اور تحقیق کا اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ وہ کیا فکر، نظریہ، سوچ اور ذہنیت ہے جو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمانوں اور انسانوں کے قتلِ عام تک لے جاتی ہے؟ اُس کی نظر میں بازار میں خریداری کرنے والی عورتوں اور اسکول جاتے معصوم بچوں کا قتل جائز ہی نہیں بلکہ باعث ِ اجر و ثواب بن جاتا ہے۔
وہ کون سی قوت ہے جو اسے یہ یقین دلادیتی ہے کہ مساجد میں نماز کے لئے جمع ہونے والے مسلمانوں کا قتل عام کرکے بھی وہ جنت کا حق دار بن جائے گا؟ زندگی جیسی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت، ایک دہشت گرد کیوں اپنے ہی ہاتھوں خود کش حملہ کرکے ختم کر لیتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں ۔ اِن تمام اُبھرتے ہوئے سوالات کا جواب دینے کے لئے ہم نے علمی دلائل کے ساتھ ساتھ ان تاریخی حقائق سے بھی اِستدلال کیا ہے جن کی نشاندہی خود نبی ِ آخر الزمان ﷺ اور صحابہ کرام نے فرمائی تھی ۔ ہم نے آیات ِ قرآنی احادیث ِ نبوی اور تصریحات ِ ائمہ کے ذریعے خوارج کی علامات اور عقائد و نظریات کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات واضح کی ہے کہ دہشت گرد موجودہ دور کے خوارج ہیں۔
قرآن و حدیث ، آثارِ صحابہ اور ائمہ و فقہاء کرام کے ناقابل ِ تردید دلائل سے دہشت گردی کو خروج و بغاوت ، فسادانی الارض اور کفریہ فعل قراردینے کے بعد ہم نے ”دعوت ِ فکر و اِصلاح “ کے عنوان سے ان تمام ذمہ دار طاقتوں کو اس طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات کا خاتمہ ہونا چاہئے جن سے عوام الناس ابہام کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے پیچھے کار فرماخفیہ قوتوں کو تقویت ملتی ہے۔ آج کل ایک بحث یہ بھی چل رہی ہے کہ چونکہ غیر ملکی سامراجی طاقتیں پاکستان سمیت مسلم ممالک میں بے جا مداخلت کر رہی ہیں، اِس لئے ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے اور ان کا راستہ روکنے کے لئے جہادی گروہ سرگرمِ عمل ہیں۔ ان کا عمل اگرچہ درست نہیں لیکن نیت اور اِرادہ چونکہ دفاع ِ اسلام ہے، اس لئے انہیں برا نہیں کہنا چاہئے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک گھناؤنہ مذاق اور افسوسناک روِش ہے ۔ اِس فکری مغالطے کے ازالے کے لئے بحث کے آغاز میں مختصر سا حصہ اِس موضوع کے لئے بھی مختص کردیا گیا ہے جس میں اس حقیقت کو آیات و احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ برائی کسی بھی صورت میں نہ اچھائی بن سکتی ہے اور نہ ظلم و زیادتی، حسن ِ نیت کے باعث نیکی شمار ہوسکتی ہے۔
اِن ابتدائی وضاحتی معروضات کے ساتھ یہ حقیقت بیان کردینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم یہ تحقیقی موقف محض دینِ اسلام کی عزت و حرمت اور خدمت انسانیت کی خاطر پیش کر رہے ہیں ۔ اس سے ہمارا مقصود نہ کسی عالمی طاقت کی غیر دانش مندانہ کارروائیوں کی حمایت ہے اور نہ پاکستان سمیت کسی بھی حکومت کی غلط پالیسیوں کا تحفظ ۔ ہمیں نہ کسی حکومت کی خوش نووی چاہئے اور نہ کسی عالمی ادارے یا ملک کی طرف سے داد ِ تحسین ۔ ہم ہمیشہ کی طرح یہ کام بھی اپنا منصبی فریضہ اور دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے سر انجام دے رہے ہیں۔ ہمارا مقصود اسلام کے روشن چہرے پر لگے ہوئے دہشت گردی کے بدنما داغ کو دھونا، مسلمانوں کو قرآن و سنت کی اصل تعلیمات سے روشناس کرانا اور انسانیت کو دہشت گردی کی دہکتی آگ سے نجات دلانے کی کوشش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو اپنے حبیب مکرمﷺکے تصدق سے اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے۔