کراچی(جنگ نیوز)سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ڈاکٹرعبد القدیر خان کےجوہری پھیلائو کےدستاویزی ثبوت سی آئی اے سربراہ نے مجھے دکھائے میری زندگی کا وہ سب سے مایوس کن لمحہ تھا میں نے ڈاکٹرعبد القدیر خان کو دفتر میں بلایا اورساری باتیں بتائیں وہ آنسوئوں سے رونا شروع ہوگئے اور میرے گھٹنوں کو پکڑ لیا اور معافی مانگی ڈاکٹر قدیرکا سری لنکن فرنٹ مین ڈبل ایجنٹ بنا ہوا تھا عبدالقدیر خان کی کےجوہری پھیلائو سے متعلق پریزنٹیشن میں نے سب سے پہلے نواز شریف کو دی تھی معافی مانگنے پر میں نے کہامجھے اور ملک کو شرمندہ نہ کریں، بیٹھ جائیں آرام سے ابھی جو کچھ ہوا ہے اسے ہمیں ہینڈل کرنا ہےمیں نے ڈاکٹر قدیر سے کہا جو مجھ سے کہیں کیمرے کے سامنے یہ باتیں کہہ دیں۔
صدر بش نے مجھے نہیں کہا تھا کہ ڈاکٹر قدیر کو دو لیکن ان کی نظر میں وہ انٹرنیشنل کرمنل تھا۔ایک انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیر اعظم نوا ز شریف کا لند ن فلیٹ بہت بڑا ہے ان کے فلیٹ کا ایک کمرہ ہی شاید میرے پورے فلیٹ کے برابر ہوگا، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آرمی چیف بن جائوں گا اور نہ میرا ایسا کوئی خواب تھا، لیکن جس دن میں آرمی چیف بنا وہ میر ے لئے خوشی کا دن تھا، جب نوا ز شریف نا اہل ہوئے تو میں نے مٹھائی کھائی تھی اور وہ مٹھائی لوگوں نے مجھے کھلائی تھی، میں خود اس طرح نہیں کرتا کہ کوئی نا اہل ہو اور میں مٹھائیاں تقسیم کروں لیکن نوا ز شریف نا اہل ہونے کے مستحق تھے،انہوں نے سو فیصد کرپشن کی،میرے دور میں بھی ان کے خلاف کیس تھے مگر نوا زشریف خود سعودی عرب میں تھے تو کیسز پر کارروائی نہیں کی گئی، اس وقت ہمارا مقصد پاکستان کو استحکام میں لانا تھا اس لئے ہم نے نوا زشریف کرپشن کی طرف زیادہ توجہ بھی نہ دی، ایک انٹرویومیں مشرف کا کہنا تھا کہ جارج بش نے مجھے تحفے میں کتے نہیں دئیے تھے، میرے ذاتی طور پر بھی بش سے اچھے تعلقات تھے انٹر پرسنل ریلیشن کی کوالٹی ویسے بھی ایک لیڈر میں ہونی چاہئے، اور یہ کوالٹی ذولفقار بھٹو میں بھی تھی،ہم نے امریکا کو ڈبل کراس نہیں کیا 1965تک ہم ساتھ تھے پھر ہم پر پابندیاں عائد کی گئیں،اس کے بعد 1979میں ہماری اہمیت پھر بڑھ گئی تھی کیونکہ روس سامنے موجود تھا، 1989میں سوویت یونین کے ٹوٹنے میں ہم نے حصہ ملایا تھا ،ہمیں امریکا کو باور کرانا چاہئے کہ 1990سے آگے متا زعہ دور شروع ہوا جس میں طالبان سامنے آئے ، اسی طرح جو ہمارے مجاہدین سوویت یونین سےلڑر ہے تھے امریکا کے جانے کے بعد وہی پلاننگ کرنے لگے 9/11کی ،ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو تاریخ کا علم نہیں ہمیں اسے بتا نا ہوگا کہ ہمارے لئے بھارت مسئلہ ہے ،ٹرمپ کو افغانستان اور کشمیر سے متعلق بھی تفصیلات معلوم نہیں ہیں،میرے دور میں اگر ٹرمپ ہوتا تو میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا کہ بھارت کی باتیں سننا بند کردیں،مشرف نے کہا کہ طالبان اور القاعد ہ کی حکمت عملی کے معاملے پر پاکستان ، امریکا اور مغرب سب ایک پیج پر ہے، جب زمینی کارروائی کی بات آتی تھی تو اس میں تنازعہ تھا اور میں امریکا کو یہی کہتا تھا کہ مجھے اس بارے میں زیادہ پتا ہے کہ ان سے کیسے نمٹنا ہے، اسی طرح بھارت بھی افغانستان میں کارروائیاں کرنے لگا تھا، افغانستان میں انڈیا کا زور کم کرنے کیلئے اپنے برانڈ کے طالبان کو پناہ دینے کے سوال پر مشرف کا کہنا تھا کہ یہ بات درست بھی ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت بلوچستان میں ہم پر وار کرتا ہے اور اس کیلئے تاجک، ازبک اور ہزارہ والوں کو استعمال کرتا ہے، اوریہ لوگ پھر ہمارے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں فضل اللہ کی مدد کرتے ہیں اور بلوچستان میں گڑ بڑ کرتے ہیں ، اس لئے ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہے، امریکا ہم پر حقانی کا الزام لگا تا ہے تو ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ فضل اللہ اور براہمداغ کو ہمارے حوالے کیا جائےاور ہندوستان کو روکا جائے، ہم نے اگر حقانی کو پناہ نہیں دی ہوئی تو ہمیں اس کا ثبوت دینا چاہئے اور اگر دی ہوئی ہے تو ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان کی شکایت ہٹائی کیسے جائے،کیا امریکا ڈرون کا حملہ کر سکتا ہے کا جواب دیتے ہوئے پرویز مشرف کا کہنا تھا بالکل کرسکتا ہے اور پھر پاکستان اپنی ائیر فورس کا استعمال کر کے ان کو حملے کو پسپا بھی کرسکتا ہے لیکن پھر آگے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ امریکا سپر پاور ہے وہ ایسے ڈرون بھی بھیج سکتا ہے جس کو ہمارے پاس گرانے کی صلاحیت نہیں ہوگی، اسامہ بن لادن کا کیوں نہیں پتا چلا کہ وہ پاکستان میں ہے ؟ کا جواب دیتے ہوئے مشرف کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کے مرنے کے بعد وہاں میڈیا چینلز بھی موجود تھے اور وہ وہاں لوگوں سے سوالات کر رہے تھے وہاں ایک شخص ایسا نہیں تھا جس کو یہ پتا ہو کہ اسامہ یہاں رہتا تھا، وہاں کوئی ہیومن انٹیلی جنس موجود نہیں تھی، اور اس بات میں بھی شک ہے کہ وہ وہاں پانچ سال سے رہ رہا تھا بلکہ وہ وہاں آتا جاتا ہوگا۔