دو سال قبل ہندوستانی پنجاب کے شہر جالندھر میں کاشتکاروں کے ایک ”انٹرایکشن“ میں پوچھا گیا کہ ایک جیسی مٹی، پانی اور موسمی حالات کے باوجود ہندوستانی اور پاکستانی پنجابوں کی فی ایکڑ زرعی پیداوار میں فرق کیوں ہے؟ ماہرین زراعت نے بہت سی وجوہات بتائیں۔ ایک ماہر کا کہنا تھا کہ بھارتی پنجاب کے سکھ کاشتکار مسلمان کاشتکاروں سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ دوسرے ماہر نے خیال ظاہر کیا کہ ہندوستان میں زرعی زمینوں کی حد ملکیت پاکستان کے کاشتکاروں کی حد ملکیت سے کم ہے چنانچہ وہ کم از کم رقبے سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایک بھارتی سکھ کاشتکار کا جواب سب سے زیادہ چونکا دینے والا تھا۔ اس نے کہا کہ ”اصل فرق لائل پور اور فیصل آباد کا ہے“۔
وضاحت طلب کرنے پر بتایا گیا کہ ہندوستانی پنجاب کے کاشتکاروں نے زراعت کی تعلیم لائل پور سے حاصل کی تھی اور لائل پور کی زرعی یونیورسٹی وہاں کے کھیتوں اور کھلیانوں میں پھیلی ہوئی تھی مگر قیام پاکستان کے بعد لائل پور فیصل آباد میں تبدیل ہوا تو زرعی یونیورسٹی بھی کھیتوں اور کھلیانوں سے واپس موسمی اثرات سے محفوظ (ایئر کنڈیشنڈ) دفتروں میں چلی گئی۔
جالندھر کے سکھ کاشتکار کی یہ بات مجھے سابق لائل پور اور حال فیصل آباد کے ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ کے اس فیصلے سے یاد آئی کہ ڈگری حاصل کرنے والے ہر طالب علم کو ایک پودا لگانا پڑے گا۔ ”ہر طالب علم ایک درخت“ کے عنوان سے شروع کی جانے والی یہ تحریک قابل قدر ہی نہیں لائق ستائش بھی ہے بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کے تعلیمی اداروں کے لئے قابل تقلید بھی ہونی چاہئے کیونکہ یہ تحریک ابھی کل گزر جانے والے ”یوم الارض“ کے مقاصد اور تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے جس کی تقریبات کے دوران میں نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں اور نوجوانوں کی تنظیموں اور این جی اوز سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ نوجوان نسل کو ملک میں زیادہ سے زیادہ درخت اگانے کی تحریک اور مہم میں شامل کریں۔
ان کالموں میں گزشتہ تیس سالوں سے پاکستان کو ایک سرسبز و شاداب ملک میں تبدیل کرنے اور اس کے موسمی اور معاشرتی حالات کو مثبت انداز میں تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ ان کالموں میں اس سے پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ بہت سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کے ابتدائی دنوں میں مجھے بعض اخبار نویس دوستوں کے ہمراہ امریکہ کے شہر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہماری خوش نصیبی کہ جس روز ہم وہاں پہنچے امریکہ کے لوگ انگلستان سے آزادی کا دن منا رہے تھے۔ ان دنوں ہمارے معروف مصور اور شاعر اور شعبہ سیاحت کے ماہر چنگیز سلطان اور ان کی زوجہ عذرا سعید بھی وہاں اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے۔ میری اور سید امجد حسین مرحوم کی ان دونوں سے اتفاقیہ ملاقات ہو گئی اور ان کے ساتھ ہمیں امریکہ کی یوم آزادی کی ایک خوبصورت تقریب میں شرکت کا موقع بھی مل گیا۔
تقریب ننھے امریکی بچوں اور بچیوں کی تھی جن کو دو بڑی سڑکوں پر ”میرا گھر“ کے عنوان سے تصویریں بنانے کے لئے رنگ اور برش فراہم کئے گئے تھے اور وہ بڑے انہماک سے اپنے گھر بنانے میں مصروف تھے اور ٹیلی ویژن کے کیمرے ان کے اس انہماک، جوش جذبے اور شرارتوں کی ”کوریج“ کر رہے تھے۔ شام کو ”میرا گھر“ کے عنوان سے اس تقریب کی دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ ملک کے ماہرین تعمیرات اور معاشرت نے اس حقیقت کا خاص طور پر ذکر کیا کہ ہر بچے نے اپنے گھر میں ایک درخت ضرور دکھایا ہے جبکہ نیویارک میں درخت دکھائی نہیں دیتے اور پورا شہر سیمنٹ، سریے اور شیشے کا جنگل ہے۔ بچوں کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ درخت اگانے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ اس دستاویزی فلم میں بتایا گیا کہ قدیم مصری تہذیب میں جب کسی کے ہاں بچی پیدا ہوتی تھی تو وہ اس کے نام سے سات درخت اگاتا تھا اور بچی کے جوان ہونے اور شادی پر یہ درخت اسے جہیز میں دیئے جاتے تھے۔ یہ بھی بتایا گیا اور خود میں نے سنگاپور میں دیکھا کہ ہر بچے کے نام کا ایک درخت لگایا جاتا ہے اور وہ بچہ اگر خدانخواستہ فوت بھی ہو جائے تو اس درخت میں زندہ سمجھا جاتا ہے۔
زیادہ سے زیادہ شجر کاری کے رجحان کو تقویت دینے اور عوام الناس میں مقبول بنانے کے لئے اس نوعیت کی روایات کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں فیصل آباد کی جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا یہ فیصلہ اور اعلان قابل تقلید بننا چاہئے کہ ڈگری حاصل کرنے والوں کو اپنے حصے کا ایک درخت لگانا چاہئے۔ کچھ سال پہلے جب بلوچستان کے علاقہ زیارت میں دنیا کے تیسرے بڑے قدرتی صنوبر کے جنگل میں ”فنگس “ کا مرض پھیلا تھا تو ان کالموں میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ پنجاب یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات کو گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران زیارت کے صحت افزا مقام پر لے جایا جائے جہاں وہ پشاور زرعی یونیورسٹی کے ماہرین اساتذہ کی زیر نگرانی اور ہدایت کے مطابق صنوبر کے خوبصورت درختوں کا ”فنگس“ دور کرنے کے عمل میں حصہ لیں اور یوں پنجاب اور ملک کے دوسرے علاقوں اور صوبوں کے نوجوانوں کے طبقے کا بلوچستان کے اس علاقے کے صنوبر کے درختوں کے ساتھ ایک رشتہ قائم ہو جائے۔ زیارت کے علاقے میں صنوبر کے اتنے پرانے اور قدیم درخت بھی موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ بھی دیکھا ہو گا۔ اتنے قدیم زمانے سے ہمارے جدید دور کی نسلوں کا رشتہ قائم کرنے کے لئے جن حکمرانوں اور ارباب اختیار کی ضرورت ہے ان میں اور موجودہ حکمرانوں اور ارباب اختیار میں وہی فرق ہے جو لائل پور اور فیصل آباد میں پایا جاتا ہے۔