• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت صرف 11برس کا تھا جب پہلی دفعہ میری صدر پرویز مشرف سے شناسائی ہوئی اور میری نظر میں وہ ایک ناپسندیدہ شخصیت بن گئے ۔ہوا کچھ یوں کہ جب میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی بہن کو اے لیول کے امتحانی مرکز چھوڑنے جا رہا تھا۔ ہم لوگ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی نکل چکے تھے تا کہ وہاں پہنچنے تک ہمیں کوئی دشواری نہ ہولیکن ابھی آدھا راستہ ہی طے ہوا تھا کہ پولیس والوں کے ساتھ کچھ باوردی لوگ آئے اور ہماری گاڑی کو روک دیا گیا ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب صدر پرویزمشرف اپنے وی وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے تھے ۔
تمام تر منت سماجت اور انتہائی اہم امتحان جس پر میری بہن کا سارا مستقبل منحصر تھا کے بارے میں بتانے کے باوجود ہماری بات سنی ان سنی کردی گئی اور ہمیں صرف اتنا بتایا گیا کہ صدر پرویز مشرف کا قافلہ آرہا ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے اسی دوران 30 منٹ گزر گئے نا کوئی آیا اور نا کوئی گیا۔فطری طور پر ایسی ناانصافی دیکھ کر اور اپنی بہن کو تکلیف اور کرب میں روتا دیکھ کر میں کیسے ایسے انسان (مشرف) کو پسند کر سکتا تھا۔یہ تماشہ تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہا اور دور سائرنوں کی آوازیں آنے کے بعد ہمیں جانے کی اجازت مل گئی لیکن میری بہن 30 منٹ لیٹ ہو چکی تھی مگر خوش قسمتی سے اس کو امتحانی مرکز میں بیٹھنے دیا گیا مگر ان تمام مجبوریوں کے باوجود اضافی وقت نہ مل سکا۔اب آپ خود اس کرب کا اندازہ کر سکتے ہیں جو اس وقت میری بہن پر گزر رہا ہوگا جس کی وجہ سے میری مشرف کے لیے ناپسندیدگی ایک فطری عمل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے میں بڑا ہوا میں نے تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا اور جمہوریت کے بارے میں مزید پڑھا تو مجھے پرویز مشرف سے مزید نفرت ہوگئی کیونکہ انھوں نے پاکستان کاآئین توڑا تھااور منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا۔پھر اس وقت وکلا تحریک، جمہوریت کی بحالی اور انصاف کے حصول کی تحاریک کی وجہ سے میری جمہوریت پسندانہ سوچ مزید تقویت پکڑ چکی تھی۔پھر جب مشرف کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو عجیب و غریب صورتحال پیش ہوئی کہ میرے دل میں ا ن کے لیے عزت پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ جس کی وجوہات میڈیا کی آزادی، ترقی کا منشور، معیشت کی بہتری وغیرہ تھیں۔ پھران سب چیزوں سے بڑھ کر مشرف کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا وہ پاکستان کا پوری دنیا میں دفاع کرنا تھا۔جس طرح انہوں نے انٹرنیشنل میڈیا پر انتہائی مشکل ترین وقت پر مشکل ترین سوالوں کا بہادری سے اور زبردست طریقے سے جواب دیا چاہے وہ کشمیر کی بات ہو ،پاکستان کی سیکیورٹی ہو، یا ملک کی ترقی کا ایجنڈاہوہر جگہ پاکستان کا بھرپوردفاع کیا۔اسی وجہ سے میں حیران ہوں کہ آخر مشرف صاحب جو ہر بات کا سہی وقت پر سہی جواب دیا کرتے تھے انھیں کیا ہوگیا ہے ؟
جیسے ہی شمالی کوریا نے خطرناک ایٹم بم کا تجربہ کیاتو تمام انٹرنیشنل میڈیا کی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب ہوگیا کہ پاکستان نے شمالی کوریا کو یہ راہ دکھائی ہے اور ہمارے سابق صدر پرویز مشرف نے اس پر پاکستان کا دفاع کرنے کی بجائے اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے شمالی کوریا کے ساتھ نیو کلئیر رازوں کو شئیر کیا مگر ہمیشہ کی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس بات کی سخت تردید کی اور ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔سابق صدر کے ایک اور بیان نے پاکستان کو بے حد نقصان پہنچایا جب انہوں نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کر دیا کہ انٹرنیشنل ڈان داؤد ابراہیم پاکستان میں کہیں ہوسکتے ہیں۔اس تحریرکے لکھنے تک میری تمام تر کوشش رہی کہ سابق صدرپرویز مشرف کا کوئی ایک بیان بھی حج کے مقدس مہینے میں میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے حوالے سے سامنے آیا ہو،مگر مجھے ایسا کچھ نہ مل سکا۔جس واقعے کی بات ہو رہی تھی یہ ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے جس طرح مسلمانوں کا روہنگیا میں قتل عام کیا جا رہا ہے اگر روہنگیا کی حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں اور مسلمانوں کا برسوں سے ہونے والا اس طرح کا قتل عام اس علاقہ میں عام سی بات ہے اور یہ سب کچھ نوبل امن انعام یافتہAung San Suu Kyiکی نگرانی میں ہورہا ہے۔اس وقت تمام مسلمان ممالک نے اپنا احتجاج صرف بیانات کی حد تک رکھا ہوا ہے اور سب مدد کے لیے صرف مغرب کی طرف دیکھ رہے ہیںکہ وہ آکر مسلمانوں کو بچائیں۔دوسری طرف مسلمان ممالک کے اپنے معاملات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ راتوں رات ایک دوسرے مسلمان ملک کے ساتھ تعلقات بھی توڑدیتے ہیں،اشیائے خورد ونوش کی سپلائی بھی بند کردیتے ہیں اور جہازوں کے گزرنے کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت ختم کردیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک مسلمان ملک کے شہریوں پر حج جیسے مقدس فریضہ پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے۔ جہاں تک بات ہے برما کے مسلمانوں کی تو ابھی تک ہم نے کسی طرف سے کوئی ٹھوس قدم نہیں دیکھا۔میںیہ نہیں کہتا فوج بھیجنا ہی ضروری ہے مگر سفارتی طور پر اس مسئلہ کو جنگ کی طرح لڑنا بھی ضروری ہے۔تو دنیا میں ہونے والا یہ سب کچھ دیکھنے کے بعدمشرف صاحب کے بیانات ہمارے لیے اتنے حیران کن نہیں رہتے۔

تازہ ترین