کہانی 1977ء یا 78ء کی ہے۔ کوئی سوا ایک ڈیڑھ بجے شب فون کی گھنٹی بجتی ہے، میں اخبار کے رپورٹنگ روم میںکسی اہم ہنگامی خبر کو کور کرنے کا تنہا رپورٹر ہوتا تھا۔ جرم فقط پوری رپورٹنگ ٹیم میں واحد چھڑا ہونا تھا اللہ بخشے چیف رپورٹر حضرت انورقدوائی گو کہ انہوں نے سب کا اتفاق حاصل کر کے فیصلہ صادر کیا کہ رات گئے کی ڈیوٹی میں ہی انجام دیا کروں گا کہ سب رپورٹر 9بجے اور کرائمز رپورٹر 11بجے تک چھٹی کر جاتے۔
اخبار کا رپورٹنگ روم ہو یا ٹی وی چینلز کا رات گئے ڈیوٹی دینے والا رپورٹر گہری رات میں دریا کنارے مچھلی کے انتظار میں بیٹھے ڈوری ڈالے اس شکاری کی مانند ہی ہوتا ہے جس کا بیشتر وقت فقط انتظار میں بے کار ہی جاتا ہے لیکن جب اس کوفت کے عالم میں کوئی مچھلی ڈوری میں پھنستی ہے تووہ تگڑی ہوتی ہے کہ عموماً بڑی دریائی مچھلیاں خاموش اندھیری رات میں کنارے کے قریب آجاتی ہیں، لیکن اس کے لئے بچارا شکاری کبھی دیا جلا کر اورکبھی بجھا کر رات گزارتا ہے؎
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
ایک جونیئر اور وہ بھی چھڑے رپورٹر کے ہاتھ شب تنہائی میں کوئی بڑی خبر ہاتھ لگ جانا ایسے ہی جیسے وصل میں یار مل جائے یا شب میں منتظر شکاری کی ڈوری میں کوئی جسیم مچھلی پھنس کراس کی شب تنہائی بھی دور کردے اور معاش و طعام کا اہتمام بھی۔ سو، جب رات گئے کوئی گھنٹی بجتی ہے تو ڈیوٹی رپورٹر کو یونہی محسوس ہوتا ہے کہ اندھیرے رواں دریا میں کسی بڑی تگڑی مچھلی کی آمد کا شور اٹھا۔ میں نے خبر کے انتظار میں جو متذکرہ کال اٹینڈ کی تو بڑی شستہ آواز آئی، ’’السلام علیکم، قدوائی صاحب تشریف رکھتے ہیں؟ ’’آواز پہچانی گئی کہ میں مولانا کوثر نیازی کے کئی نیوز انٹرویو، پریس کانفرنس اور تقریبات کور کر چکا تھا، وعلیکم السلام کے بعد عرض کیا:مولانا صاحب، میں مجاہد منصوری ہوں، قدوائی صاحب تو اس وقت چلے جاتے ہیں، فرمائیں، کسی خبر کے سلسلے میں تو آپ نے فون نہیں کیا؟
جواب آتا ہے:جی ہاں جی ہاں منصوری صاحب! (انہوں نے بڑی مہارت سے میرا اعتماد حاصل کرنے کے لئے میری رپورٹنگ کی تعریف کی) کہنے لگے ہاں بھئی آپ تو باتوں سےبھی خبر نکالتے ہیں لیکن ہماری آج کی بات تو ذرا پردے کی ہے (مطلب تھا کہ آپ نے میرا حوالہ نہیں دینا) میں نے بھی عرض کی آپ نے میری رپورٹنگ کی جو حوصلہ افزائی فرمائی ہے اس میں تو گنجائش نہیں کہ آپ مجھے بتائیں کہ ’’پردے کی بات‘‘ ہے یہ تومیرا امتحان ہے کہ میں خبر بھی بنائوں اور پردہ بھی رکھوں۔ بہت خوش ہوئے زور سے کہا واہ بھئی واہ (مجھے فون پر گفتگو میں ہی اندازہ ہورہا تھا کہ خاموش رواں دریا میں کسی بڑی مچھلی کی آہٹ ہے) واضح رہے، یہ وہ وقت ہے جب 5جولائی کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد کی جب ذوالفقار علی بھٹو اپنی ہی پارٹی کے دبنگ رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری، جو اپنے قائد کے منہ پر کلمہ حق کہنے میں کبھی نہ چوکتے تھے کے والد کے ایف ایس ایف (فیڈرل سیکورٹی فورس) کے اسکواڈ شادمان کالونی میں رات گئے فائرنگ سے قتل کی ایف آئی آر (جو تھانہ اچھرہ لاہور میں درج تھی) پر گرفتار ہو چکے تھے اور پارٹی میں ان کی جگہ محترمہ نصرت بھٹو کو پارٹی کا چیئرپرسن بنانے پر ایک اختلافی دھڑا پیدا ہوگیا تھا۔ صحافتی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں بھی ہورہی تھیں کہ بھٹو صاحب نے اپنی گرفتاری پر قیادت بیگم صاحبہ کے سپرد کرنے کا اشارہ دیدیا ہے، لیکن کچھ کہتے تھے نہیں، یہ فقط بھٹو صاحب کے سینئر وفاداران کی رائے ہے۔
جی ہاں قارئین! آپ کا تجسس بڑھ گیا ہوگا کہ مولانا نے فون پر کیا ’’بات‘‘ کی جو مجھے بڑی مچھلی آمد کے طور محسوس ہوئی۔ فرمایا تھا، یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہمارے قائد تو نظر بند ہیں اور ان کی جگہ متبادل پارٹی قیادت کے لئے کل لاہور میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہورہا ہے (شنید کی حد تک میرے علم میں تھا کہ مولانا اس اختلافی دھڑے میں ہیں جو بیگم بھٹو کو چیئرپرسن بنانے کے مخالف تھےچونکہ مولانا ’’پردے کی بات‘‘ ذرا محتاط انداز میں دھیرے دھیرے کررہے تھے تو میں نے ازخود فوراً پوچھا کہ آپ کی اجلاس میں کیا رائے ہوگی۔
کہنے لگے، میری نہیں کئی اوروں کی بھی، یہ کہ ’’ہم بھٹو صاحب کو تو بادشاہ مانتے ہیں، وہ نظر بندی میں بھی ہمارے بادشاہ ہیں، لیکن بیگم صاحبہ جو ہمارے لئے بہت محترم ہیں، کو ملکہ نہیں مانتے ‘‘سوال کیا، یہ اور کون ہیں؟ مولانا نے فر فر گیارہ نام لکھوا دیئے، اس وقت پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو 40ارکان پر مشتمل تھی۔ دھماکہ خیز خبر مولانا نے یہ دی کہ ’’ہم گیارہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے اوراگر فیصلہ محترمہ کو ملکہ بنانے کا ہی ہوا تو پھر سمجھ لیں پروگریسو پیپلز پارٹی بنے گی (جو بعد میں بن بھی گئی) اور وہ جمہوری اصولوں کے مطابق حقیقی پیپلز پارٹی ہوگی۔‘‘ ’’بھئی منصوری صاحب پارٹی کوئی خاندانی جاگیر تو نہیں ہوتی نا‘‘ پردے میں بات ختم ہوئی۔ بہت بڑی مچھلی ہاتھ لگی۔ فوراً مدیر اعلیٰ کو فون کیا جو صفحۂ اول کی خبروں خصوصاً شہ سرخی فائنل کرانے کے لئے رات ڈھائی بجے تک جاگتے تھے۔ ساری اسٹوری سے آگاہ کیا توکہا، یہ خیر آپ اپنے نام سے دیں، مکمل پردہ رکھیں اور صبح آپ نے ہی نون ہائوس جا کر سینٹرل ایگزیکٹو کے اجلاس کی بھی رپورٹنگ کرنی ہے۔ میں نے جو خبر فائل کی تو تیار ہوتی لیڈ اسٹوری تبدیل ہو کر میری خبر بائی لائن کے ساتھ لیڈ بن گئی اب تک کے کیریئر کی دوسری بڑی مچھلی تھی، اس سے قبل الیکشن 1977ء میں پی پی کے خلاف قائم ہونے والے 9جماعتی اتحاد ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے قیام کی مکمل خبر ایک روز پہلے، قیام کے اعلان کی پریس کانفرنس سے پہلے دے کر ایک مقامی اخبار کو بڑا بنانےمیں اہم کردار کیا، اس میں جناب جمیل اطہر صاحب نے بطور ایڈیٹر میری خبر کے انتظار میں کاپی رات گئے ایک گھنٹہ روک کر غیر معمولی سرپرستی کی تھی۔
اللہ کا شکر ہے میری لانگ ٹرم میموری ہاتھی سے کم نہیں اور شارٹ ٹرم کسی بچے سے زیادہ نہیں (جو صرف میری قربت کے شاگر ہی جانتے ہیں کہ میری یہ کمزوری ان کی تفریحی گفتگو کا موضوع بنتی ہے)۔ 1977ء یا 78 کی اللہ بخشے مولانا کوثر نیازی کی ’’پردے والی بات‘‘ کی کہانی ذہن میں فلم کی طرح گھوم گئی، جب سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ایک ٹی وی انٹرویو سے اخذیہ بیان پڑھا کہ :مریم اور بے نظیر کا موازنہ درست نہیں، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہ غیر سیاسی ہوتے ہیں، انہیں لیڈر کیسے مانا جاسکتا ہے؟
چوہدری صاحب کا مریم صاحبہ کی حد تک تو کلمہ حق ہی ہے کہ اقتدار اور پارٹی پر خاندانی اجارہ داری حقیقی جمہوریت سے متصادم ہے لیکن چوہدری نثار، جناب میاں نوازشریف کے سپریم کورٹ سے نااہل ہونے اور ان کے خلاف ریفرنسز نیب کی منظوری کے بعد عدالت میں دائر ہونے کے بعد میاں صاحب کو اپنا لیڈر کیونکر مانتے ہیں؟ یہ کتنا جمہوری، اخلاقی اور قانونی ہے؟