علامہ اقبال کے حوالے سے میں نے ایک بات لکھی تھی کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا خلا ہے۔ میں اگر یہ کہوں، تو غلط نہ ہوگا کہ 27 دسمبر 2007ء کے بعد یہ ملک قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ اس دو سوا دو سال کے عرصے میں وقت نے ہر بڑے لیڈر کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بے نظیر کے بعد جمہوریت کی تحریک ایک نعرہ ضرور تھی مگر اس کے پیچھے نہ قیادت تھی، نہ کوئی ہوم ورک نہ منصوبہ بندی۔ سب کچھ حالات کی لہروں کے زور پر آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم ان لہروں پر تیرتے ہوئے یہاں تک آپہنچے ہیں کہ اب جمہوریت پر سے بھی بعض لوگوں کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ جمہوریت صرف عوام کے حق ووٹ کا نام نہیں، یہ اس ووٹ سے ایسی قیادت کا ابھرنا ہے جس نے اپنے ممکنہ کردار کے لئے سب تیاری کر رکھی ہو۔ جمہوری جماعتیں منصوبہ بندی کرتی ہیں، ان کے ہاں تھنک ٹینک کام کرتے ہیں، مشاورت کا عمل ہوتا ہے، ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں۔ متحرمہ کا ایک وژن تھا، ذہن صاف تھا علم تھا سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو بھی کام پر لگا رکھا تھا۔ وہ جگہ جگہ جا کر لوگوں سے ملتیں، ہر ضلع ہر تحصیل کے سوچنے سمجھنے والوں سے رائے لیتیں، مزدوروں، دانشوروں، کالم نگاروں، یونیورسٹی کے پروفیسروں، سول سوسائٹی کے ذہین لوگوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اعلیٰ دماغوں سے رابطے میں رہتیں۔ ان کا نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر پاکستانیوں سے رابطہ تھا۔ وہ دوسرے ملکوں کی حکومتوں، سیاسی پارٹیوں اور تھنک ٹینک سے رابطے میں تھیں۔ وہاں جا کر خطاب کرتیں اور ان کی باتیں بھی سنتیں۔ اس سے ان کی سوچ اور فکر میں بڑی کشادگی پیدا ہوگئی تھی۔ بی بی کے بعد مشاورت قومی سطح پر ہو سکتی تھی، اسے بھی بوجوہ محدود کر دیا گیا جس کے نتیجے میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔
جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے۔ ان میں ہوم ورک اور سوچ بچار کا بالکل ہی فقدان ہے۔ تھنک ٹینک تو کہاں سے آئیں گے، ان کے ہاں تو مشاورت کا عمل تک نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت مقبول ضرور ہے مگر اس قیادت کے پیچھے یہ سوچ بچار کا عمل بالکل مفقود ہے۔ اے این پی، جے یو آئی وغیرہ سب جماعتیں جن بنیادوں پر قائم ہیں، وہاں ان سب باتوں کی توقع ہی نہیں کرنی چاہئے۔ سب سیاسی جماعتیں قائدین کے موڈ یا مفاد پر چلتی ہیں، قومی تقاضے کسی کو عزیز نہیں یا انہیں انگلی پکڑ کر چلایا جاتا ہے۔ البتہ جماعت اسلامی ایک استثنیٰ ضرور ہے۔ آپ کو جماعت سے جتنا بھی اختلاف کیوں نہ ہو، یہ حقیقت ہے کہ جماعت کے ہاں ایک طرح کے تھنک ٹینک بھی موجود ہیں اور ان کے ہاں مشاورت کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ ایک زمانے میں اسی کے زور پر اور اپنے نظم و ضبط کی وجہ سے ان کا قومی سیاست پر بڑا اثر تھا، تاہم ان کی سوچ بھی 1970ء کے بعد رک سی گئی ہے انہوں نے امریکہ مخالف نعرے کو اپنا مقصد حیات بنا لیا ہے نہ سیاست اس پر کی جا سکتی ہے نہ دنیا اس پر چلتی ہے۔ ایک تو یہ منفی نعرہ ہے، دوسرا یہ انتہا پسندی کو جنم دے رہا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کی دشمنی میں ہم دنیا سے کٹتے جاتے ہیں۔ پھر جماعت اسلامی ایک اصولی جماعت ہے اور یہ نقطہ نظر کوئی اصول نہیں ہے۔ ایک بات البتہ میں ضرور کہنا چاہوں گا ایم کیو ایم نے گزشتہ بیس سال سے جس سیاست کو اپنایا، اس پر بہت سے لوگوں کو اعتراضات تھے، تاہم اب حالات سے ثابت ہو گیا ہے کہ الطاف حسین کی عملیت پسند سیاست نے کئی بار حالات کا رخ بدلا ہے۔ بلوچستان کا معاملہ ہو یا امن و امان کا مسئلہ، خیبر پختونخوا کا قصہ ہو یا جنوبی پنجاب کا صوبہ، ایم کیو ایم نے وہ موقف اختیار کیا جس کی اس کے مخالفین اس سے توقع نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت کراچی سے نکل کر گلگت بلتستان اور اب پنجاب میں بھی بڑے منظم انداز سے اپنے دائرہ اثر پھیلا رہی ہے۔ یہ ایک مڈل کلاس کی شہری جماعت ہے۔ اس کا اصل کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے اس کیرکٹر کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ پورے پاکستان کی شہری مڈل کلاس جو سوچ رکھتی ہے اور جن مسائل سے دو چار ہے، اس کا اس جماعت نے بھرپور اظہار کیا ہے۔ یہ ابتدا میں کراچی اور حیدرآباد بھی ابھری، لوگوں نے اسے علاقائی اور لسانی جماعت کا طعنہ دیا۔ یہ حکومت میں شامل تھی، لوگوں نے اسے بھی طعنہ بنا دیا مگر اسی زمانے میں اس جماعت نے مثال کے طور پر بلوچستان پر اور اکبر بگٹی کی موت پر ایسا موقف اختیار کیا کہ آمریت منہ دیکھتی رہ گئی۔ یہی حال اب این آر اور کے معاملے میں ہوا۔ الطاف حسین کے صر ف ایک بیان نے ملک کی سیاست کا نقشہ بدل دیا۔ اس جماعت میں قیادت بھی ہے اور سوچنے سمجھنے کا عمل بھی ہے۔ وگرنہ ایسے فیصلے کیسے کئے جاتے ۔ دنیا کے بدلتے حالات میں سیاست ہر لمحہ بدلتے وقت کے ساتھ چلنے کا نام ہے وگر نہ پتھر کی طرح جامد ہو جانا۔ ایم کیو ایم، مجھے کہنے دیجئے اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ میرے خیال میں مڈل کلاس کی یہ جماعت اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں۔ لیفٹ کی وہ جماعتیں جو اس طبقاتی تفاد کا اظہار کرتی تھیں، کب کا قصہ پارینہ ہو چکیں۔ مذہبی جماعتیں تو پہلے ہی اس کا نام نہیں لیتی تھیں۔
اب شہری مڈل کلاس کی یہ جماعت اپنے مخصوص پر مزاج کے ساتھ پاکستان کے اس بنیادی مسئلے کو اجاگر کر رہی ہے۔ اس لئے اس کا اثر دور تک پھیل رہا ہے۔ اس حوالے سے دو باتیں اور بھی اہم ہیں ایک تو یہ کہ اس کی قیادت میں کراچی کی ترقی ایک رول ماڈل ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ اس پارٹی کو اقتدار ملے تو نتائج دے سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے کارکنوں کا لیڈر بہت مضبوط ہے جن میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان میں نوجوان لڑکیوں سے لے کر بزرگ خواتین تک موجود ہیں۔ الطاف حسین ایک باخبر اورآگے تک دیکھنے والے لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں جن میں بلاکی تنظیمی صلاحیت اور خطابت ہے۔
جانے آنے والے وقتوں میں ہماری سیاست کیا کروٹ بدلے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت کو پنپنا ہے تو اس کے لئے مضبوط سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔ ایسی جماعتیں جن کے پیچھے قیادت بھی ہو اور سوچ بھی۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو دونوں سے اختلاف ہو مگر ان کے بغیر سیاسی جماعتیں بے معنی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے بغیر جمہوریت ناممکن ہے۔