ؕ( گزشتہ سے پیوستہ)
مولانا مرحوم کی اسٹوری کا فالو اپ بذات خود اسٹوری سے کہیں زیادہ دلچسپ ہے کہ جب میں صبح اجلاس کی کوریج کے لئے نون ہائوس گیا تو وہاں پی پی کے کارکنوں نے میرے ساتھ جو سلوک کیا وہ میں جانتا ہوں یا کم از کم ایک عینی شاہد (شاید) سینئر ترین رپورٹر جناب خادم چوہدری، اب بھی صحافت میں سرگرم ہیں۔ ہوا یہ کہ اخبار کی لیڈ ’’پی پی کے دو جماعتوں میں تقسیم ہونے کا امکان‘‘ ہارڈ فیکٹس کے ساتھ دیکھ کر پی پی مشتعل ہوگئی تھی۔ نون ہائوس کے لان میں میرے صحافی دوستوں نے مجھے پانچ سات مکے دھکے کھانے کے بعد لڑبھڑ کر حفاظتی حصار میں لے کر محفوظ کیا۔ اخبار کے خلاف مسلسل نعرے بازی ہوتی رہی۔ کچھ دیر بعد مولانا کے گیارہ لکھائے گئے ناموں میں سے دس تو نہ آئے لیکن و ہ خود تشریف لائے تو کارکنوں کا ہجوم پھر میری طرف آیا اور پھر مولانا کی طرف اشارے کر کر کے جن مغلظات سے نوازا گیا وہ کبھی نہ بھولا، لیکن ادھر سب رپورٹر مان رہے تھے کہ منصوری کی خبر ٹھیک لگ رہی ہے۔ سب آچکے تھے ماسوائے ان دس کے جن کے نام مولانا نے رات فیڈ کئے تھے۔ مولانا لان میں مجھے دیکھ کر سخت ہراساں تھے کہ خبر کا پردہ اٹھ نہ جائے، لیکن انہیں دیکھتے ہی ارادہ باندھ لیا تھا کہ ’’کچھ ہو جائے پردہ نہیں اٹھانا۔‘‘ نہ جانے مولانا کیوں آئے باقی خبر تو ان کی بالکل درست نکلی کہ گیارہ میں سے دس ارکان نہ آئے۔ دو روز بعد مولانا نے کسی دوست کی معرفت رابطہ کر کے پیغام بھجوایا کہ لاہور آئیں گے تو اپنی حاضری کی وضاحت لنچ پر کریں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ وہ آئے تاج محمد لنگا مرحوم کے گھر ظہرانے پر مدعو کیا بغلگیر ہو کر جو توصیف کی۔ بیان کا حوصلہ نہیں، لیکن جواز مکمل قابل تسلیم تھا یہ کہ صبح سویرے ملک معراج خالد صاحب کا فون آیا اور انہوں نے دھمکی دی کہ کوئی آئے نہ آئے تم نہ آئے تو ذاتی تعلقات متاثر ہوسکتے، میرے پارٹ میں یہ ناممکن تھا۔ ساتھیوں سے اجازت لی اور ملک صاحب سے تعلقات کا مان رکھنے چلا آیا۔ کچھ دھڑکا تھا لیکن آپ کی بطور رپورٹر ساکھ حوصلہ دے رہی تھی یہ بھی معلوم تھا کہ پی پی کو تو انور قدوائی کور کرتے ہیں، صبح رپورٹنگ پر وہ یا کوئی سینئر آئے گا۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ مولانا مرحوم کا پردہ کبھی نہ اٹھایا نہ کبھی اسے پبلک کیا نہ حوالے کے طور پر لکھا۔ لیکن آج اسے Declassifide کرنے کی جرات اس لئے ہورہی ہے کہ پاکستانی سیاست اور اقتدار میں خاندانی اجارہ داریوں اور غلبے نے ہماری گورننس اور قومی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ چوہدری نثار کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ بے نظیر اور مریم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیپسٹی بے نظیر جتنی ہو تو سیاست شجر ممنوعہ تو ہیں کہ ایک خاندان میں ایک سے زیادہ فرد نہیں آسکتے، فقط ابا جی وزیراعظم کی انگلی پکڑ کر سیاست کرنا جمہوریت کے لئے مہلک ہے۔ سو، آج مولانا کا تانا پردہ اٹھا دینے کا وقت اور ان کی سوچ کو پروان چڑھانے کا بھی، اب ن لیگ کے پاس اگر کوئی بے نظیر نہیں ہے تو پارٹی میں لیڈر تلاش کریں، یا پھر چوہدری صاحب کو اپنے پر جتنا اعتماد ہے۔ آگے بڑھیں لیکن ابھی تو 47کو وزیر بنا دیا گیا ہے ؎
مشکلے نیست آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود