کراچی(ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنا گھر ٹھیک کرنے کے معاملہ پر سول ملٹری قیادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کابل میں حملہ پاکستان پر حملہ ہے،اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں، پاکستان کو گولیاں چلانے والے نہیں نوبل انعام جیتنے والے نوجوانوں کی ضرورت ہے، دہشتگردی کیخلاف جوابی بیانیہ کیلئے تمام مذہبی جماعتوں سے مل کر کام کریں گے، اقوام متحدہ کی قراردادوں میں شامل تنظیموں اور افراد پر پابندی نہ لگائی تو ہمارے خلاف پابندیاں لگ سکتی ہیں،پرتشدد راستہ اختیار کرنے والوں کو دوبارہ قومی دھارے میں لائیں گے،کسی کو اپنی سرزمین کو استعمال کر کے دوسرے ملک میں کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،ملک میں سیاسی عدم استحکام روکنا تمام اداروں کا فرض ہے،نواز شریف کی نظرثانی اپیل کا فیصلہ آنے تک احتساب عدالت کی کارروائی ملتوی کی جانی چاہئے، پرویز مشرف کے معاملہ پر قانون کے مطابق چلیں گے، جنرل مشرف اب سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ان کیلئے رعایت کی گنجائش نہیں ہے،چوہدری نثار کے بیانات کو جھٹکا نہیں کہوں گا کیونکہ ان سے اسٹاک مارکیٹ نہیں گرتی،لاپتہ افراد کی بازیابی اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے،عوامی مرکز آتشزدگی میں سی پیک کا ریکارڈ جلنے کی باتیں غلط ہیں، سی پیک کا تمام ریکارڈ پلاننگ کمیشن کے پاس ہے، بھارتی قیادت کی تنگ نظری خطے کیلئے تشویش کا باعث ہے، بطور وزیرداخلہ سب سے بڑی ترجیح نیشنل ایکشن پلان اور جوابی بیانیہ کی تشکیل ہے، آئی سی سی کی سیکیورٹی ٹیم نے لاہور کی کلیئرنس دی اسی وجہ سے یہاں میچز ہورہے ہیں،اگر ہماری چوائس ہوتی تو لاہور سے پہلے کراچی میں میچ کرواتے۔
میزبان حامد میر سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ آٹھ سال بعد عالمی کرکٹ کی پاکستان واپسی پر قوم کو مبارکباد دیتا ہوں، آزادی کپ کے میچوں کا مقام طے کرنے کا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، آئی سی سی کی سیکیورٹی ٹیم نے لاہور کی کلیئرنس دی اسی وجہ سے یہاں میچز ہورہے ہیں،اگر ہماری چوائس ہوتی تو لاہور سے پہلے کراچی میں میچ کرواتے، آئندہ کراچی میں میچوں کیلئے آئی سی سی کو آمادہ کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔
وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ کابل میں حملہ پاکستان پر حملہ ہے اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں، کابل میں افغان کرکٹ بورڈ کے قریب حملہ انہی لوگوں کی کارستانی ہے جو پاکستان میں شکست دیکھ رہے ہیں، پاکستان اور افغانستان کو لڑانے کی ہرکوشش پاکستان پر حملہ ہے، پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، پاکستان اور افغانستان معلومات کے تبادلے اور باہمی تعاون بہتر بنانے کیلئے کوشش کررہے ہیں، پاک افغان سیکیورٹی اور سیاسی قیادت مل کر ایسے لوگوں کی سرکوبی کرنا چاہتی ہے جو افغانستان میں تخریب کاری کرتے ہیں یا افغانستان کی سرزمین استعمال کر کے پاکستان میں تخریب کاری کرتے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ خود احتسابی کسی بھی زندہ قوم کیلئے مسلسل عمل ہوتا ہے، زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ملکی معاملات کو درست کرتی ہیں، پاکستان میں افغانستان میں سوویت یونین کے حملے کے بعد مخصوص حالات کے تحت حکمت عملی تیار کی گئی تھی، ہمارے خطے میں مدرسے صدیوں سے قائم ہیں لیکن کبھی یہاں سے شدت پسندی نہیں پیدا ہوئی، افغان جہاد کے دوران مغربی ایجنسیاں پوری دنیا سے مجاہدین کو اکٹھا کر کے پاکستان لائے، القاعدہ کے ایک مرکزی لیڈر کا تعلق برما سے تھا، افغان مہاجرین کیلئے نصاب امریکا کی یونیورسٹی میں تیار کیا گیا جس میں مہاجرین کے اندر جنگجویانہ رویے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، سوویت یونین کی واپسی کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز ہاتھ جھاڑ کر چلے گئے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ افغان جہاد کے نتیجے میں ملک میں منشیات، اسلحہ اور شدت پسندی آئی اور مختلف انتہاپسند گروپس کھڑے ہوئے جو اب ہماری پالیسی کا حصہ نہیں ہے، ہمیں اپنی اس میراث کو ٹھیک کرنا ہوگا، آج پاکستان یا امت مسلمہ کو گولیاں چلانے یا ٹارگٹ کلنگ کرنے والے نوجوانوں کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو نوبل انعام جیت کر لائیں، کراچی میں انصار الشریعہ کے زیادہ تر لوگ گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کچھ تنظیموں اور افراد کے نام شامل ہیں، اگر ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ملک میں عمل نہیں کریں گے تو پاکستان کے مخالف ہمارے خلاف پابندیاں لگواسکتے ہیں، ہماری فہرست میں کچھ گروپس پر پابندی ہے جبکہ کچھ گروپس واچ لسٹ پر ہیں، اقوام متحدہ کی قراردادیں ہمیں ان گروپس کی آزادانہ سرگرمیوں اورفنڈ ریزنگ روکنے کا پابند بناتی ہیں، پابندی اس حد تک ہے کہ یہ گروپس کسی اور نام سے دوبارہ سرگرم نہ ہوسکیں،موثر اقدامات کی وجہ سے پاکستان اس حوالے سے گرے سے وائٹ کیٹگری میں آگیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں جوابی بیانیہ کے نکتے پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، تمام مذہبی جماعتوں سے مل کر اس کیلئے روڈ میپ وضع کریں گے اور پاکستان کو لاحق خطرات سے بھی آگاہ کریں گے، دہشتگردی کی طرح انتہاپسندی ختم کرنے کیلئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے، ہماری کوشش ہوگی پرتشدد راستہ اختیار کرنے والوں کو دوبارہ قومی دھارے میں لایا جائے، انہیں معاشی طور پر بحال کیا جائے تاکہ وہ عام شہری کی طرح زندگی بسر کرسکیں۔