گفتگو سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کے حوالے سے اپنے اختتامی دائرے میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ آزادی رائے کے قدرتی استحقاق کا استعمال ناگزیر ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے، چوہدری نثار کی مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رہبر میاں محمد نواز شریف کے اختلافات کا اعلان، ٹائمنگ کے تناظر میں وفاداری کی عملیت پسندی سے متصادم ہے، ذاتی یا سیاسی جدوجہد کی طویل رفاقتوں میں ’’اصولوں کی بنیاد‘‘ پر اس وقت میدان سے ہٹ جانا جب اپنا ہمرکاب تیروں کی بوچھاڑ کا سامنا کر رہا ہو، وفاداری بغیر عمل کی اس حقیقت کو سامنے لا رہا ہے۔ وہ عملاً مسلم لیگ ’’ن‘‘ چھوڑ چکے ہیں۔ ان پر مستقبل قریب میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے توڑنے جیسے نفسیاتی یا واقعاتی منصوبوں کا حصہ دار یا غیر جانبدار حامی کردار ہونے کا شبہ بھی کیا جا سکتا ہے!چوہدری نثار کی تمام تر سیاسی پختگی کے باوجود وہ آج کے شاہ محمود قریشی، مصطفیٰ کھر، ذوالفقار مرزا اور ماضی کے متعدد ایسے کرداروں کے مشابہ قرار دیئے جا رہے ہیں جنہیں موج سے الگ ہونے کے بعد بالآخر دریا سے ہی باہر پھینک دیا گیا۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے ملک کو درپیش سنگین خطرات سے آگاہ ’’صرف پانچ افراد‘‘ (اپنے سمیت) کے بارے میں قوم کو مطلع کئے شاید تین چار ہفتوں سے اوپر کا عرصہ ہو چکا ہے، انہوں نے وطن عزیز کے نمائندہ ترین ادارے منتخب قومی پارلیمنٹ سے ایک لحظہ کے لئے بھی رجوع کرنا ضروری نہیں سمجھا، ان سنگین خطرات کو اس منتخب قومی ادارے کے کسی کمرہ اجلاس میں زیر بحث لانے تک کا اشارہ بھی نہیں دیا، وہ زبان سے تو نہیں کہتے تاہم عملاً ان کے نزدیک پاکستان کی بقا کے ایسے معاملات ’’کسی اور جگہ‘‘ کے علاوہ زیر غور لانے کا تصور کرنا بھی کبیرہ گناہ کے مترادف ہے۔ جو لوگ اس سطح کے معاملات کے لئے منتخب قومی پارلیمنٹ ہی کو نا گزیر قومی ادارہ سمجھتے ہیں، انہیں کنارے لگائے بغیر چارہ نہیں اور ’’ان دیکھے افراد‘‘ نے 7اکتوبر 1958کو کنارے لگانے کی یہ آئین شکنی شروع کر دی تھی۔
لڑائی ’’سیاستدانوں کی کرپشن‘‘ کی نہیں پاکستانی عوام کی آئینی بالادستی، آئینی استحقاق، آئینی جمہوریت، آئینی شفافیت اور منصفانہ آئینی انتقال اقتدار کی ہے، 7اکتوبر 1958کو قومی سیاستدانوں کے کسی ’’کرپشن مینارے‘‘ کا وجود تک نہ تھا، حلقہ 120میں ضمنی انتخاب میں یہی لڑائی لڑی گئی، سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا مریم نواز کی متوقع سیاسی لیڈر شپ کا نقطہ نظر، شاید ان کا یہ حق اور لوگوں سے کہیں زیادہ بنتا ہے، خود بقول مریم نواز کے ’’وہ ان کے والد کے سینئر ساتھیوں میں سے ہیں، میں ان کا بے حد احترام کرتی ہوں‘‘، یقیناً مریم نواز کو اپنی سیاسی جدوجہد کے مراحل سے ابھی گزرنا ہے، حلقہ 120میں ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کے ساتھ لڑائی میں کامیابی ایک ایسی سیاسی چھلانگ ہے جسے معمول سے ہٹ کر دیکھنا چاہئے۔
چوہدری نثار علی خاں کے ذاتی رکھ رکھائو، منضبط عادات و اطوار کے سب ہی قائل ہیں، کم از کم اخبار نویسوں اور دانشوروں میں سے کبھی کسی نے، اختلافات کے باوجود، ان کے بارے میں غیر اخلاقی تو بہت دور کی بات ہے اشارتاً بھی کبھی کوئی غیر معیاری لب و لہجہ اختیار نہیں کیا، یہ سب قابل ذکر اور قابل فخر ہے، قومی سوالات البتہ وہ پہلو ہے جہاں ہم سب اپنے وطن کی دھرتی اور اس کے محافظوں یعنی پاکستانی عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، اسی باعث لوگ وزیر خارجہ خواجہ آصف کے اس انکشاف پر چوہدری صاحب کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں جس میں خواجہ صاحب نے کہا ’’آئی ایس آئی کے متعلق اصغر خاںکیس کی انکوائری چوہدری نثار نے نہیں چلنے دی‘‘، ایسے مواقع پر خاموش رہنا، اپنے ملک کے عوام کے ذہنی انتظار کے رسپانس نہ کرنے کو ایک طرح سے نہ نظر آنے والی مفرور سی انانیت کے کھاتے میں ہی ڈالا جائے گا، غالباً چوہدری صاحب ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ، ہو سکتا ہے بعض فکری مغالطوں کے بھی اسیر ہوں، ہو سکتا ہے گزشتہ چند دہائیوں میں وقت کی متعدد تاریخی ارتقائی پرتیں ان کی نظروں سے ابھی تک اوجھل ہوں، اگر ایسا نہیں اللہ کرے ایسا نہ ہو، تب ہی بعض یاددہانیاں توہین کے زمرے میں نہیں آتیں نہ انہیں بد اخلاقی کا نام دیا جا سکتا ہے۔
مثلاً وہ کسی بھی قومی زاویے یا قومی سطح سے ’’لیڈر‘‘ نہیں ہیں، ہاں! پاکستان کے 20کروڑ سے زائد تعداد پر مشتمل عوام کی قومی اسمبلی کے ایک شہر راولپنڈی سے ایک حلقے کے منتخب رکن اسمبلی ہیں، وہ بھی اپنے علاقے کے ایسے مستند ترین عوامی نمائندے جن پر برسوں سے اس حلقہ کے ووٹروں نے کبھی بھی عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا، سیاسی ریکارڈ کی فائل میں یہ بات منفرد ترین ابواب میں شامل ہو سکتی ہے، یہ سب اپنی جگہ سوتی صداقت، بعینہٖ اپنی جگہ دوسری سو فیصد صداقت وہی ہے یعنی ’’وہ لیڈر نہیں ہیں البتہ راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے ایک رکن!‘‘
پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رہبر اور عوامی رہنما میاں محمد نواز شریف ہی ہیں، ’’ان دیکھے افراد‘‘ یا گروپوں، نے پاکستان کی قومی سیاست کے رواں دواں شفاف پانیوں میں جن جن گدلے جوہڑوں کی پرورش کی ان میں ’’مائنس ون کا فارمولا‘‘ سب سے معروف گدلا جوہڑ رہا ہے۔
پہلی دو تین دہائیوں میں وقت کی تاریخی ارتقائی پرتوں کا ایک اور بھی پیغام ہے کہ یہ 1958، 1969، 1978اور 1999نہیں ہے، نہ ہی ڈھائی ڈھائی سال بعد منتخب حکومتوں کو گھر بھجوانے اور ملکی ترقی برباد کرنے کی سفاکانہ عیاشی کے شب و روز دہرائے جا سکتے ہیں، وقت اور تاریخ دونوں آگے بڑھ چکے ہیں، حلقہ 120میں ’’ن‘‘ لیگ جیت پر نہیں ووٹ کم پڑنے پر غیر موثر ہو گئی ہے‘‘، یا ’’پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور ’’ملک بچانے‘‘ کے لئے نواز شریف کو ’’مائنس‘‘ کر کے شہباز شریف کو ’’رہبر‘‘ بنا دیا جائے، یہ سارے ’’کاروبار‘‘ دفن ہو چکے، باقی جب مقدر میں پتھر چاٹنا ہو تب تقدیر کے مقابل کون آ سکتا ہے؟ وہ بھی نہیں جو بے چارا پتھر چاٹ رہا ہو!
میرے ایک عزیز کالم نگار نے لکھا ہے:’’چوہدری نثار ‘‘ اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک انگلش نائٹ (Knight)ہیں جسے اپنی صلاحیتوں کے مکمل اظہار کے لئے اپنے من پسند بادشاہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی سب سے بنیادی سیاسی خطا ہے،یہ اکیسویں صدی ہے، عالمی برادری سے لے کر جمہوری ممالک کے ایک عام آدمی تک ’’من پسند بادشاہوں ‘‘ کے بجائے ’’من پسند عوامی رہنمائوں‘‘ کے بیلٹ باکس تیار کر رکھے ہیں غالباً چوہدری نثار علی خاں کے لئے عوامی سیاسی چوائس ’’ن‘‘ لیگ ہی دکھائی دیتی ہے، باقی تو شاہ محمود قریشی، چوہدری سرور اور مصطفیٰ کھر ہی رہ جاتے ہیں۔
سیاسی کامن سینس انہیں اور کوئی الائونس دینے پر تیار نہیں۔