• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگلش میڈیا اور کشمیر فکرفردا…راجہ اکبر داد خان

جب تک برٹش میڈیا کشمیر پر نہیں بولے گا۔ بات آگے نہیں بڑھے گی۔

برطانیہ میں آباد پاکستانی کشمیری کمیونٹی کے لئے تو کشمیر ایشو سے غیر متعلق ہو جانا ممکن نہیں۔

دوسری طرف چالیس سال کی ہماری احتجاجی تحریک پے درپے ناکامیوں کی ایک تکلیف داستان ہے۔

نریندر مودی کی برطانیہ آمد پر ڈائوننگ سٹریٹ والا مظاہرہ جسےThe Times اخبار نے ایک بھونچال کہا تھا اور روہنگیا مسلمانوں کی نسبت سے برما ایمبیسی اور ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر ہونے والے مظاہرے سے توقعات جوڑے رکھے ہیں۔ ان دونوں مظاہروں کی کامیابی میں ’’مرکزی مقصدیت‘‘ کو اہم مقام حاصل رہا اور جس اہل اور شفاف انداز میں مواصلات میڈیا کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیئے گئے۔ لوگ جوق درجوق ان مظاہروں میں شریک ہوئے اگر لوگ نکل پڑیں تو صرف لندن والے ہی بڑے ہجوم پیدا کر سکتے ہیں۔ سوچنا صرف یہ ہے کہ ہمارا پیغام کس انداز میں لوگوں کو موثر تعداد میں باہر لائے کہ دنیا توجہ دینی شروع کردے۔ برما میں مسلمان نسل کشی کے خوفناک مناظر سامنے آنے پر جب دنیا بھر سے مسلمان عوامی احتجاجوں نے بین الاقوامی میڈیا اور مغربی حکومتوں ک واس مسئلہ پہ کچھ کہنے اور کرنے پر مجبور کر دیا تو برطانوی میڈیا نے بھی خبریں سنائیں۔ جو برطانوی عوام کے عملی اقدامات کی وجہ بنیں۔10ستمبر کا دو جگہوں پہ مظاہرہ کمیونٹی رہنمائوں اور ایک اور برطانوی مسلمانوں کے درمیان ’’مقصد کے ساتھ ہمدردی‘‘ کے مرکزی نقطہ کو فالو کرتے ہوئے وجود میں آئے۔ مظاہروں میں تعداد ہمشہ ہی ایک متنازع معاملہ رہتاہ ے۔ میرے اپنے شہر لوٹن سے مظاہرہ میں شریک ہونے والوں کی اکثریت درمیانی عمر کے پاکستانی کے بغیر پرائیویٹ کاروں اور کشمیری بھائیوں پر مشتمل تھی۔ جو کسی بڑے ٹرک نصف درجن بڑے کوچوں میں لندن پہنچے۔ کسی بھی کوچ میں نہ تو پاکستانی جماعتوں کے جھنڈے دیکھنے کو ملے اور نہ ہی ’’ہٹو بچوں کا ماحول‘‘ دیکھنے کو ملا۔ چالیس سالہ گذشتہ احتجاجی تاریخ میں اتنے کم وقت میں بغیر حکومتی سپانسرشپ کے اتنے لوگوں کا باہر نکلنا تمام شرکاء کے لئے ایک خوبصورت حیرت تھی۔ لوٹن کے احتجاجی قافلہ کی ترتیب میں تحریک کشمیر کے چوہدری محمد شریف مرکزی مسجد کے ملک پنوں خان اور سینٹ مسجد کے زعما نے اہم کردار ادا کیا۔ بقول پولیس اس مظاہرے میں مڈلینڈ کے کئی شہروں اور لندن کے گرد و نواح سے کئی درجن کوچز چلیں اور تمام معاملان پرامن انداز میں نمٹا دیئے گئے۔ مختلف ذرائع برما ایمبسی کے باہر کی تعداد7-6ہزار بتاتے ہیں اور ڈائوننگ سٹریٹ جہاں میں خود اس پرامن احتجاج کا حصہ تھا تعداد ڈیڑھ دو ہزار کے لگ بھگ تھی۔ سارا احتجاج ایک اپنے ہی نوجوان کی خوش اخلاق سٹیورٹ شپ میں بھگت گیا۔ ’’ہم روہنگیا ہیں‘‘ کے نعرے لوگوں کے دلوں سے ابھرتے رہے۔ پچھلے سال ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر کشمیر پہ ہمارے مظاہرہ میں غیرجانبدار لوگوں کی رائے میں600افراد سے زیادہ لوگ موجود نہ تھے۔ اس مظاہرے کو حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر دونوں کی سرپرستی حاصل تھی اور مختلف جھنڈوں کی بہار تھی جو مختلف زبانیں بول رہے تھے۔10ستمبر کو ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر صرف روہنگیا کے حق میں نعرے اور پلے کارڈز تھے کشمیر ایشو ہمارا اپنا بہتر پرانہ ہے۔ ہم دس بارہ لاکھ پاکستانی کشمیر بھائی بہن کم و بیش دو تین نسلوں سے یہاں آباد ہیں۔ ڈیڑھ درجن بھر ہمارے ایم پیز بھی موجود ہیں۔ روہنگیا احتجاج جو بالعموم کسی مرکزی یا علاقائی قیادت کے بغیر وجود میں آیا اور سننے اور دیکھنے والوں کو حیران کر گیا۔ میں بھی شریک اکثریت اپنے ہی بہن بھائیوں کی تھی۔ جسے نہ تو کوئی حکومت سپورٹ کر رہی تھی اور نہ ہی کوئی طاقتور ادارہ۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جو کشمیر ایشو پہ ہمارے ٹرن آئوٹ کو زیادہ کامیاب بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یقیناً ہمارے پالیسی میکرز اور ہم ایورج پاکستان کے لئے یہاں سوچ و بچار کا مقام ابھرتا ہے۔ کشمیر میں بھارتی درندگی جو کبھی پیلٹ بلٹ اور کبھی جیلوں میں ڈال دینے کے اقدامات جو طویل عرصہ سے دیکھے جا رہے ہیں یہ یہاں برطانیہ میں زیادہ موثر احتجاج ’’سامنے نہیں آسکے ہیں۔ کشمیر پہ ہم صورتحال سے زیادہ گہرے انداز میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہم تاریخ اور ثقافتی طور پہ ایک ہیں۔ مذہب بھی ایک ہے اور یہ ایشو ہم سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ اس طرف ایک ادھورا حکومتی ڈھانچہ بھی موجود ہے۔ یورپ میں اس ایشو پر کام کرنے کے لئے ایک معقول بجٹ بھی موجود ہے۔ یہاں کے کچھ لوگوں کو مال تعاون اور پروٹوکول بھی ملتا ہے۔ ایک ہائی کمیشن بھی موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام حقائق کے باوجود کمزور روہنگیا مسلم برطانوی احتجاجی تحریک کو اوپر نیچے کر دیتا ہے۔ مگر کشمیر پہ ہمارے احتجاج نہ تو اتنے بڑے بن پاتے ہیں اور نہ ہی معقول انگلش میڈیا توجہ لے پاتے ہیں۔ مظالم تقریباً ایک ہی طرح کے ہیں۔ ظالموں کی سیاسی اور معاشرتی انداز بھی ایک ہیں۔ ہم ایک ظلم پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ مگر اسی طرح کے دوسرے ظلم پہ اس طرح بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے نہیں نکلتے۔ دونوں مظالم کا مرکزی نقطہ اسلام دشمنی ہے۔ دونوں صورتوں میں طاقتور آواز ابھرنی قانونی فطرت تسلیم ہوناچاہئے مگر یہاں ایسا نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں؟ برٹش انگلش میڈیا جس انداز میں روہنگیا ایشو پر انگیج چلا آرہا ہے۔ اس طرح پاکستان حکومت اور نہ ہی اس کے برطانوی کارندے کشمیر کے اندر ہونے والی بربریت کو برٹش میڈیا کے سامنے ایکسپوز کر سکے ہیں۔ اگرموجود کشمیر تقسیم سے کسی بہتر حل کی کوشش ہو رہی ہے یا ہو سکتی ہے تو برطانیہ والوں کو ایک مختلف پیجیک کے ذریعہ کام کرنے کی ضرورت ہے جون جولائی 1965ء میں تحریک ایک نقطہ عروج پہ پہنچی۔16-2014کے درمیان بھی تحریک پرجوش اور منظم رہی مگر ہم صورتحال کوکیش نہ کروا سکے۔ آزادی کی تحریکوں میں عروج و زوال معمول ہوا کرتے ہیں مگر موزوں مواقع پہ حالات سے بھرپور فائدے اٹھاےن ہی سے قوموں کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ہماری برطانوی احتجاجی تحریک چند سالوں سے ایک بدقسمت جمود کا شکار ہے۔ سیاسی جماعتوں میں چند نکات پہ بھی اتفاق رائے نہیں بن پایا اور نہ ہی کوئی متفقہ پلیٹ فارم موجود ہے۔ ہر جماعت کی اپنی چوہدراہٹ اور ہر ایک کے اپنے پروگرام ہیں جس کی ڈکٹیشن پاکستان/آزاد کشمیر سے ملتی ہے۔ کشمیر پہ برطانوی کام کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ اگر برطانوی سطح پہ ایک متفقہ پلیٹ فارم سے کام کرنے کی راہیں طے ہو جائیں تو پراگرس ہو سکے گی۔ اگر تمام مکتبہ فکر کی مساجد اور ان سے جڑے لوگ حصول مقصد کی خاطر اپنے تعاون شرائط کے بغیر اس تحریک کے ساتھ ایوریج پاکستانی/کشمیری کی طرح تحریکی قافلہ کا حصہ بن جائیں کہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائیں۔ جب بات کرنے کا موقع ملے غنیمت جان کر مختصر بیانیہ دے دیں۔ سٹیجوں پہ قبےض کرنے اور کروانے سے دور رہیں۔ تو عوام الناس میں ان کے ایسے کردار پہ ان کی عزت میں اضافہ بھی ہوگا اور لوگ بھی تحریکی کاز کے ساتھ والہانہ انداز میں جڑے محسوس کریں گے اور اہم ترین یہ کہ موثر کام ہو پائے گا۔ موثر ترین طریقہ عمل کی عدم موجودگی میں بھی سوچ جا رہنے چاہئیں تاکہ مسئلہ برطانوی سیاست میں احتجاجی تحریک کی کنجیاں ہمارے ہی درمیان موجود ہیں تو منطقی طور پہ ہمارے یہ احتجاج موثر ثابت ہونے چاہئیں۔ یہی احتجاجی آوازیں ہی ہیں جو روہنگیا ایشو کو اس مقام پہ لے آئی ہیں کہ دنیا کے طاقتوروں کو توجہ دینی پڑ رہی ہے۔ جب حضرت ابراہیمؑ کو جلا دینے کے لئے بڑی آگ کے بندوبست ہو رہے تھے تو ایک چیونٹی پانی کا ایک مٹکا اٹھائے بھی اگئی۔ پوچھنے پہ بولی شاید پانی کا یہ مٹکا تمام آگ کو بجھا سکے۔ مگر اپنا حصہ ڈالنے آگئی ہوں۔ پھر جو ہوا ہم اس سے آگاہ ہیں تاحال ہم میں سے ہر کوئی کشمیر میں جلتی آگ کو بجھانے کے لئے پانی کا مٹکا نہیں لا سکا ہے۔ جب یہ سلگتے جذبات مٹکا اٹھا لانے کی شکل میں بہہ نکلے اس دن سے برطانوی حکومت بھی کشمیریوں کی ہم نوا بننے پہ مجبور ہو جائے گی بس انتظار ایسے وقتوں کا ہی ہے۔ اللہ ہماری پاکستان اور اسلام کے ساتھ محبتوں کو قائم رکھے۔

تازہ ترین