عجیب اتفاق ہے کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کایوم شہادت قریب آتے ہی پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے درمیان الزام تراشی سے شروع ہونے والا معاملہ اب ملک کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کے معمے تک آن پہنچا ہے۔ بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے کے انجام اور عمومی طور پر ملک میں تحقیقات ، تفتیش اور استغاثہ کے ناقص معیار کے تناظر میں اَب اِس تاریخی المیے پر کسی بڑے انکشاف کا امکان تو کم و بیش ناممکن ہوگیاہے۔البتہ اِن دنوں پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر کئے گئے چند مباحثوں کے تناظر میں لگتا ہے کہ لیاقت علی خان سے متعلق کچھ معاملات کی نوعیت شاید ویسی نہیں تھی جیسی چند حلقوں کی جانب سے بیان کی جاتی رہی ہے۔
خاص حلقوں کی جانب سے خان لیاقت علی خان کی ذاتی شخصیت، قائد اعظم سے اُن کی نظریاتی ہم آہنگی ، تحریک پاکستان میں اِن کے کردار اور اِن کی طرز حکومت کو ایک خاص سطح پر خلط ملط کرکے بیان کیا جاتا رہاہے۔ پاکستان پر امریکہ کا تسلط قائم ہوجانا ملک میں سیاسی اور جمہوری ارتقا اورریاست کے اقتصادی استحکام کو نقصان پہنچانے والے اسباب میں سر فہرست ہے۔ چند نظریاتی حریف اس المیے کے تانے بانے غیرمنطقی طور پر لیاقت علی خان کے دور حکومت سے جوڑتے ہیں ۔
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کی شروعات کا اعلان تھا۔ مشرقی یورپ پر روسی قبضے کے بعدسوویت یونین کی کارروائیوں پر نظر رکھنے اور روسی پیش قدمی کو روکنے کے لئے دنیا کے تمام اہم حصوں میں فوجی اڈّوں کا قیام امریکہ اور اس کے خفیہ اداروں کی اولین ترجیح بن گئی ۔ برصغیر میں راج کے دور سے ہی انگریزی بولنے والی تمام گوری قومیں روسیوں کی وسعت پسندی سے خائف رہتی تھیں اور’ گریٹ گیم ‘ کے نام سے مشہور روس کے ساتھ جاری انگریزوں کی آنکھ مچولی کے اِس کھیل میں اب امریکیوں کے لئے پاکستان کی سرزمین انتہائی اہمیت کی حامل تھی ۔ لہٰذا امریکہ کو مغربی پاکستان میں لازمی فوجی اڈّے کی ضرورت تھی ۔ اُدھر ویت نام میں پھنسے فرانسیسیوں کی جانب سے مدد کی درخواست پر امریکہ کو مشرقی پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ بھی ہوگیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ایران میں محمد مصدق کا تختہ الٹنے کی خاطر امریکہ کاپاکستان پر معاونت کے لئے دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ یہ تمام تر معاملات لیاقت علی خان کے لئے اعصاب شکن صورتحال کا باعث تھے ۔
یہ سچ ہے کہ لیاقت علی خان کو سب سے پہلے سوویت یونین کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ آج سے کوئی دس برس پہلے لیاقت علی خان کے خاندان کے لوگوں سے ملنا ہو ا تو بہت سے موضوعات پر گفتگوہوئی ۔ یہ پہلا موقع تھا جب بہت سے حقائق ٹھوس تجزیات کے ساتھ سامنے آئے ۔ معلوم ہو ا کہ سوویت یونین نے خیر سگالی کے اس دعوت نامے میں لیاقت علی خان کی ماسکو آمدکی جوتاریخ تجویز کی وہ 14اگست 1949تھی ۔ لیاقت علی خان کے پوتے نوابزادہ مشرف علی خان سے ایک تازہ ملاقات میں معلوم ہوا کہ ، ’’لیا قت علی خان کو قائد اعظم کی رحلت کے بعد اِس پہلے یوم آزادی پر ملک ہی میں رہنے کا مشورہ دیا گیا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ انتظار ہی ہوتا رہا لیکن پاکستان کی جانب سے تاریخ بدلنے کی درخواست کا ماسکو نے کبھی کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری جانب جب لیاقت علی خان واشنگٹن پہنچے تو انہوں نے اپنی تقاریر میں امریکی عزائم میں کسی معاونت کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔
تاریخ میں واضح ہے کہ محدودمالی معاونت فراہم کرنے کے باوجود امریکہ لیاقت علی خان کے ہوتے ہوئے پاکستان میں کوئی اڈّہ قائم نہ کرسکا۔ یہ موقع انہیں جنرل ایوب خان کے دور میں نصیب ہوا جب اس فوجی آمر نے بغیر کسی مزاحمت یا ہچکچاہٹ کے امریکیوں کے لئے پشاور کے قریب بڈھ بیر کاپورا علاقہ اڈّے کے نام پر امریکی شہر آباد کرنے کے لئے وقف کردیا ۔پاک امریکہ تعلقات میں اصل کشیدگی اس وقت رونما ہوئی جب لیا قت علی خان نے ایران میں محمد مصدق کے خلاف امریکیوں کا ساتھ دینے سے دو ٹوک الفاظ میں انکار کردیا۔ پھرانہوں نے سوویت یونین سے بھی سفارتی تعلقات قائم کرلئے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد کشمیر اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) سے جڑے پشتونائزیشن کا مسئلہ بھی حل طلب تھا۔ لیاقت علی خان مسئلہ کشمیرکو حق خود ارادیت اور پشتونائززیشن کو افغانستان کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے ۔ اسی دوران امریکہ پاکستان سے کوریا میں فوج بھیجنے کی فرمائش کر بیٹھا۔ لیاقت علی خان نے امریکہ پر شرط رکھ دی کہ کشمیر اور پشتونائزیشن کے مستقل حل میں امریکی معاونت کے بدلے پاک افواج کو کوریا بھیجا جاسکتا ہے۔ امریکہ کے عدم تعاون پر لیاقت علی خان نے فوج بھیجنے سے بھی صاف صاف معذرت کرلی ۔ پھر ویت نام میں فرانسیسیوں کی مدد کے لئے بھی امریکہ لیاقت علی خان سے مدد مانگتے ہوئے ہچکچانے لگا! لیکن بدقسمتی سے کم ہمت اور عاقبت نا اندیش ایوب خان نے امریکیوں کے آگے ایک بار پھر گھٹنے ٹیکتے ہوئے SEATO اورCENTOجیسے معاہدوں پر دستخط کرکے ہمیشہ کے لئے پاکستانی کی غیر جانب داری اور خود مختاریت کا سودا کرلیا۔
ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کو قوم کو جھوٹی خبروں پر کامیابی کے ساتھ یقین دلانے پر کمال مہارت حاصل تھی ۔ سال 1965کی جنگ کے واقعات مثال ہیں ۔ لیاقت علی خان پر امریکہ کی جانب جھکائو کے الزام کی تشہیر نے در حقیقت ایوب آمریت کے دوران ہی زور پکڑا۔ حالاں کہ سچ یہ ہے لیاقت علی خان کو امریکہ کا بدترین دشمن قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے متعلق سمندر پار منظر عام پر آنےوالی کچھ دستاویز میں بہت کچھ ایسا ہے جس سے ماضی سے جڑے بعض واقعات کا معمہ بھی حل کیا جاسکتا ہے ۔شاید لیاقت علی خان کا قتل بھی اِن واقعات میں شامل ہو۔
لیاقت علی خان کے خلاف اس پروپیگنڈے میں ایک اخبار کے مالک و مدیراعلیٰ کی ذاتی مخاصمت بھی کار فرما رہی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ایک بار لیاقت علی خان نے اِن صاحب کوکیبنٹ میٹنگ سے نکال باہر کیا تھا جس کے بعد اِس نے مرتے دم تک لیاقت علی خان کی مخالفت جاری رکھی ۔ ان کے زیر اثر بہت سے دانشوروں اور صحافیوں نے لیاقت مخالف مہم کا آغاز کیا ۔ یہ گروہ باقاعدہ ایک لابی کی صورت اختیار کرگیا۔ کہا جاتا ہے کہ سال 1965کے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کی حریف محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بھی اسی لابی نے محترمہ پر توہین آمیز الزامات لگائے ۔ لیاقت علی خان کی کیبنٹ میٹنگ سے نکالے گئے مدیر اعلیٰ صاحب کے زیر اثر مصنفین ، صحافی اور دانشور تحریک پاکستان میں لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے کردار کو مستقل بے اثر اورمعمولی ثابت کرنے پرتلے رہے ۔ اگرچہ قوم ہمیشہ اس قسم کے پروپیگنڈوں کو مسترد کرتی رہی لیکن اگلی نسل کے چندمفکرین پر اِس جھوٹی مہم کا گہرا اثر ہوتا دکھائی دیا۔ بظاہر اس کی ایک مثال سال 1998میں ریلیز ہونے والی فلم ’جناح ‘ ہے۔
ایک سو دس منٹ طویل اِس انگریزی فلم میں واضح طور پر لیا قت علی خان کے کردار کو انتہائی بے اَثر دکھایا گیا ہے۔فلم دیکھنے والا ہر شخص محسوس کرسکتا ہے کہ کہانی میں لیاقت علی خان جیسی شخصیت کے مقابلے میں لیڈی مائونٹ بیٹن ، جواہر لال نہرو اور رتی جناح کا کردار کہیں زیادہ نمایاں ہے ۔ کہانی سے یہ تاثر بھی ملتا ہے جیسے قائد اعظم کے لئے لیاقت علی خان کے مشوروںکی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی ۔ تاریخی حقائق پر بنائی جانے والی موش پکچرز میںاگر اَہم واقعات اور شخصیات کو کہانی اور مناظر میں نظر انداز کردیا جائے تومحض چند برسوں بعدہی اس فلم کا نام لینے والوں کو محنت کرکے ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔ شاید اسی لئے اس فلم کے بر عکس فلم ’گاندھی‘ـ آج 35برس گزر جانے کے باوجودایک کامیاب اور مقبول فلم سمجھی جاتی ہے۔