تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) نے کہا ہے وہ فلسطین میں ایک ہی ریاست کے قیام کے تصور کے خلاف نہیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا میں متعین پی ایل او کے مندوب نے دو ہفتے قبل جنرل اسمبلی کے اجلاس سے صدر محمود عباس کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اپنے ملک میں دو بجائے کے ایک ریاست کو قبول کرسکتے ہیں۔تنظیم
آزادی فلسطین کے نمائندے حسام زملط نے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ایل او‘ فلسطین میں دو ریاستی حل کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ یہ وہ تصور ہے جسے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک، عالمی برادری اور خود امریکا بھی دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔ انہوں نے ساتھ یہ وضاحت بھی کی کہ دو ریاستی حل کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی اپنی وطن کے ایک حصے سے دستبردار ہو رہے ہیں۔
یہ حل اہم ضرور ہے مگر فلسطینیوں کا آخری مطالبہ نہیں۔تنظیم آزادی فلسطین کے مندوب نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ یہ تاثر دیا ہے کہ وہ ایک ’بڑے‘ حل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے نیویارک میں فلسطینی صدر محمود عباس کے موقف کو بھی انہماک سنا۔
اب فلسطینیوں کو انتظار ہے کہ امریکی ٹیم صدر عباس کی تجاویز کا کیا جواب دیتی ہے اور یہ کہ حتمی مذاکرات کی شکل کیا ہوگی۔امریکی انتظامیہ کی طرف سے فلسطین، اسرائیل تنازع کے حل کے حوالے سے کوششوں میں تیزی آئی ہے۔
امریکی صدر کے معاون خصوصی جیسون گرین بلٹ اور صدر کے داماد جیرڈ کوشنر مشرق وسطیٰ میں مذاکرات کی بحالی کے موضوع پر بات کرنیوالی ٹیم میں توسیع کررہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے مارشل پلان جیسے کسی بڑے اقتصادی منصوبے پر بھی غور کررہی ہے۔
مگر امریکا کی طرف سے اگر کوئی بات واضح نہیں تو وہ یہی کہ آیا موجودہ امریکی صدر فلسطین میں ایک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں یا دو ریاستیں قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔حسام زملط نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکی صدر کے معاون خصوصی انہی خطوط پر کام کررہے ہیں جن کی طرف صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کے ساتھ پہلی ملاقات میں اشارہ کیا تھا۔ امریکا وہی فیصلہ قبول کرے گا جس پر دونوں فریقوں کا اتفاق رائے ہوگا۔
تاہم زملط کا کہنا ہے کہ اب معاملہ دو فریقین کے اتفاق رائے کا نہیں بلکہ امریکا کو چاہیے کہ وہ بتائے کہ وہ اس کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ فلسطین میں فلسطینی اور یہودی اقوام کے لیے الگ الگ ریاستوں کے قیام کا حامی ہے یا دونوں قوموں کے لیے ایک ہی ریاست کا طرف دار ہے۔
اس سوال پر کہ اگر امریکا فلسطین میں ایک ہی ریاست کے قیام کی حمایت کرے تو فلسطینیوں کا کیا موقف ہوگا؟ اس پر حسام زملط نے کہا کہ فلسطینی اس شرط پر ایک ہی ریاست کا تصور قبول کرلیں گے کہ انہیں دوسری قوم(یہودیوں) کے مساوی تمام حقوق حاصل ہوں۔
اگر دو ریاستی حل کا تصور قابل عمل ہے تو فلسطینی قوم کو ایک ایسی خود مختار ریاست ملنی چاہیے جس میں بیت المقدس کو دارالحکومت کا درجہ حاصل ہو۔