آج پانچ اکتوبر ہے، تحریکِ پاکستان کے عظیم سپاہی ، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دست راست اور قابلِ اعتماد ترین ساتھی جوگندرناتھ منڈل کی49ویں برسی جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ ملکر ایک ایسی آزاد مملکت پاکستان کا خواب دیکھا جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں اور دنیا کے سامنے ایک جدید اورکامیاب رول ماڈل ریاست کا نمونہ پیش کریں، جہاں بسنے والے ہر شہری کو بلا تفریق مذہب ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں، ایک ایسی آزادمملکت جسکا ہر شہری امن و سلامتی، برداشت اور رواداری کا پرچارک ہو، ایک ایسی مثالی ریاست جو اسلام کے زریں اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے دنیا کے نقشے پر امن پسندی کی علامت ہو۔ مسلم اکثریتی ملک کے حصول کیلئے سرگرم غیرمسلم جوگندرناتھ منڈل قائداعظم کے اس موقف کے سوفیصدی قائل تھے کہ ترقی و خوشحالی کیلئے تنگ نظری سے پاک آزاد وطن پاکستان کا قیام ناگزیر ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی پکا ر پر لبیک کہتے ہوئے عظیم مقصد کے حصول کیلئے اپنی توانائیاں وقف کردیں اورایک انتھک جدوجہد کے بعد مسلمانانِ برصغیرتمام تر مشکلات کے باوجود اپنے لئے آزاد وطن لینے میں کامیاب ہوگئے، اس عظیم الشان کامیابی کے سفر میں جوگندرناتھ منڈل قائداعظم کی آخری سانسوں تک شانہ بشانہ رہے۔ جوگندر ناتھ منڈل بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری تھے جو اپنی ہندو برادری اور مسلمانوں کے معاشی مسائل کو مشترکہ جانتے ہوئے دل و جان سے مسلم لیگ کے کاروانِ آزادی کا فعال حصہ بنے،انہیں قیامِ پاکستان سے قبل مسلم لیگ کی جانب سے وزیر نامزدبھی کیا گیا،مشترکہ ہندوستان کے صوبہ بنگال میں مسلم لیگ کے نامزدکردہ وزیرِ قانون کی حیثیت میں انکی موجودگی نے پاکستان مخالف قوتوں کا پروپیگنڈہ زائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، بانی پاکستان کو قائداعظم کا لقب دینے کے حق میں مسلم لیگی شخصیات میں جوگندرناتھ منڈل نمایاں ترین تھے، تقسیمِ ہند کے موقع پر جب مذہبی فسادات پھوٹ پڑے تو وہ امن و امان یقینی بنانے کیلئے بذاتِ خود مشرقی بنگال کی سڑکوںپر نکل آئے،انہوں نے ضلع سلہٹ کو پاکستان میں شامل کرانے کیلئے قائداعظم کی ہدایات پروہاں کے عوام کو قائل کیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت پہلی آئین ساز اسمبلی کے اس اجلاس کی صدارت کا اعزاز بھی جوگندرناتھ منڈل کو حاصل ہوا جس میں قائداعظم نے پہلے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا، اس تاریخ ساز موقع پر جوگندرناتھ منڈل نے غیرمسلم پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اظہارِ امید کیاتھا کہ قائداعظم کی قیادت میں نوزائیدہ مملکت پاکستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی،پاکستان کا پرچم پہلی مرتبہ جوگندرناتھ منڈل کی زیرصدارت اجلاس میں لہرایا گیا، جوگندرناتھ ہی کی زیرصدارت میں گیارہ اگست کے اجلاس میں قائداعظم نے اپنی شہرہ آفاق تقریر میں امورِ مملکت کے حوالے سے واضح روڈ میپ دیا کہ پاکستان میں تمام شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی میسر ہوگی، آپ چاہے مسجد جائیں یا مندر، ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ایک ایسے موقع پر، جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت مذہبی بنیادوں پر کی جارہی تھی اور قتل و غارت کا بازار گرم تھا، قائداعظم نے پاکستان میں بسنے والے غیرمسلموں کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنے آبائی وطن سے نقل مکانی نہ کریں بلکہ پاکستان ہی کو اپنا وطن بنائیں۔ قائداعظم ایک سچے، مخلص اور ایماندار لیڈر تھے جنہوں نے اپنے الفاظ کا عملی ثبوت غیرمسلم پاکستانی شہریوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے دیا، آزادی کے بعد جوگندرناتھ منڈل نے پاکستان کے پہلے وزیرِ قانون کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں،انہیں امورِکشمیر کے پہلے اور کامن ویلتھ کے دوسرے وزیر کا اعزاز بھی حاصل ہوا، پاکستان کے آئین کے ابتدائی خاکے، کشمیر پر پہلی پریس کانفرنس، اقوامِ متحدہ میں تنازع کشمیر پر حکومتِ پاکستان کے موقف کے ڈرافٹ کی تیاری، ملکی قوانین میں ترامیم سمیت متعدد اہم مواقع پر انہوں نے پاکستان سے اپنی بے انتہا محبت کا اظہار کیا، قیامِ پاکستان کے بعد جب بارشوں کے باعث سیلاب کا خدشہ پیدا ہوا تو حکومتی افسران کی طرف سے ملک گیر ہنگامی دوروں کی صوبہ سندھ میں میزبانی کی ذ مہ داری جوگندرناتھ منڈل نے اٹھالی۔ قائداعظم زندگی کی آخری سانسوں تک جوگندر ناتھ منڈل پر بے حد اعتماد کیا کرتے تھے اور انکی قومی امور سے متعلق رائے کو مقدم جانا کرتے تھے لیکن آزادی کے فقط ایک سال بعد ہی قائداعظم کے انتقال کے بعد ملکی حالات تیزی سے بدلنا شروع ہوگئے، مسلم لیگ کے دیرینہ کارکنوں کی جگہ ان نئے آنے والوں نے لے لی جو شامل ہی مسلم لیگ میں اس وقت ہوئے تھے جب انہیں قیامِ پاکستان کا یقین ہوگیا تھا، یہی حال بیوروکریسی کا ہونے لگا جنہیں قائداعظم کی زندگی میں اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی جرات نہ ہوسکی تھی۔ پاکستان کی پہلی اسمبلی کے 53اراکین میں سے 13غیرمسلم تھے جو کہ ملکی آبادی کے ایک چوتھائی غیرمسلم حصے کی نمائندگی کرتے تھے۔
جوگندرناتھ منڈل نے غیرمسلم پارلیمانی نمائندوں کے شدید تحفظات کے باوجود قراردادِ مقاصد کی حمایت کی جسکا خمیازہ انہیں دونوں اطراف سے بھگتنا پڑا، جوگندرناتھ منڈل کیلئے حالات اتنے خراب کردیئے گئے تھے کہ انہیں قیامِ پاکستان کے صرف تین سال بعد اکتوبر 1950ء میں نہ صرف وزارت سے مستعفی ہونا پڑا بلکہ اپنےوطن پاکستان سے بھی ہمیشہ کیلئے ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔ جوگندرناتھ منڈل نے کلکتہ پہنچنے کے بعد اپنے استعفیٰ میں ان تمام سماجی ناانصافیاں، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی عوامل پر تفصیل سے روشنی ڈالی جنہوں نے آگے چل کر قیامِ بنگلہ دیش کی راہ ہموار کی، جوگندرناتھ منڈل کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کی ترقی کی خاطراپنی زندگی کے مشن میں ناکامی پر شدید صدمہ پہنچا ہے، انہوں نے بعض لوگوںکے ناروا سلوک، ہندوآباد ی کے تحفظ میں ناکامی، انتظامیہ کی طرف سے منفی اقدامات کا تذکرہ بھی کیا، جوگندرناتھ منڈل کا دل اس بات کو ماننے کو تسلیم نہیں کررہا تھا کہ انہیں اپنے وطن پاکستان میں ناقابلِ اعتبار قرار دے دیا گیا ہے۔ بھارت پہنچنے کے بعد جوگندر ناتھ منڈل نے اپنی بقایا زندگی کا مقصد پاکستان سے نقل مکانی کرکے آنے والے بے گھر افراد کی خدمات کرنا بنا لیا کیونکہ ان لُٹے پِٹے مظلوم افراد میں انہیں پاکستان کا عکس نظر آتا تھا، خود جوگندرناتھ منڈل کااپنا دِل پاکستان ہی میں اٹکا رہا جسکی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے انہیں پاکستانی ایجنٹ قرار دیکر ہتک آمیز سلوک کیا۔ جوگندر ناتھ منڈل ایک سیاسی شخصیت تھے جو اپنی قوم کو درپیش مسائل کا حل پارلیمانی جدوجہد میں دیکھا کرتے تھے ، انہوں نے 1967ء میں اپنے آبائی علاقے باراسات میں انتخابات میںحصہ لینے کا فیصلہ کیا تو کوئی مقامی سیاسی جماعت جوگندر ناتھ منڈل کواپنانے کیلئے تیار نہ ہوئی بلکہ تحریکِ پاکستان سے تعلق کی وجہ سے انکے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈہ کرتے ہوئے جوگندر علی مُلا کا نام دیا گیا،جوگندرناتھ منڈل انتخابات میںبدترین شکست کے نتیجے میں دلبرداشتہ ہوکر ایک سال بعد5اکتوبر1968ء کو دارِفانی سے کوچ کرگئے۔میں جب جوگندر ناتھ منڈل کی داستانِ حیات کا مطالعہ کررہا تھا تو میرا دل خون کے آنسو ررورہا تھا کہ کیسے کیسے قابل لوگ ہم نے اپنی اناپسندی ،سماجی ناانصافیوں اورتعصب کی بھینٹ چڑھا دئیے، پاکستان ایک عظیم مقصد کے حصول کیلئے وجود میں آیا تھا جسکی بنیادوں میں ہزاروں لاکھوں افراد کا خون شامل ہے لیکن یہ باعث شرم ہے کہ ستر برس بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاںقائداعظم اور انکے دیرینہ ساتھی جوگندرناتھ منڈل ہمیں چھوڑ کر گئے تھے،ہمیں تو جوگندرناتھ منڈل جیسے مخلص پاکستانی رہنما کا احسان مندہونا چاہئے جنہوں نے ہر قدم پر پاکستان کا ساتھ دیا لیکن آج ہم انکے نام سے بھی ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔ میں آج جوگندرناتھ منڈل کی برسی کے موقع پرانکی آتما کی شانتی کیلئے دعا کرتے ہوئے اپیل کرتا ہوں کہ ہم سب کو قائداعظم کے وژن کے تحت پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے اپنی صفوں میں برداشت، رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی جوگندرناتھ منڈل جیسا مخلص اور بے لوث شخص حالات سے دلبرداشتہ نہ ہو۔