• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیس رمضان کو دن کے وقت چاند نظر آنے سے متعلق شرعی مسائل..رویت ہلال سے متعلق چند توہمات اور مفروضات کا ازالہ..پروفیسر مفتی منیب الرحمان..چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان.. (گزشتہ سے پیوستہ)

(امام یوسف کے نزدیک) یہ شوال کا چاند ہے یعنی طرفین (امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہماا للہ تعالیٰ) کے نزدیک (دن میں چاند زوال سے پہلے نظر آئے یا زوال کے بعد) ہر صورت میں آئندہ شب کا ہے اور وہ دن رمضان کا ہو گا۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اگر زوال سے پیشتر نظر آیا تو چاند شب گزشتہ کا ہے اور یہ دن عید کا ہے، اس لئے کہ ہلال عادتاً زوال سے قبل نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ دو رات کا چاند ہو، پس ہلال رمضان میں وہ دن رمضان کا ہونا ضروری ہوا اور شوال کے چاند میں عید کا دن اور طرفین کے نزدیک اصل یہ ہے کہ دن کی رویت کا اعتبار نہیں، اعتبار غروب کے بعد کا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(رمضان کا) چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر ہی روزہ چھوڑو“ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1909)۔ پس صوم و افطار کا حکم رویت کے بعد ہے۔ اس صورت میں امام ابو یوسف کا قول نص کے مخالف ہے۔ ”فتح القدیر“ میں ہے: حدیث شریف نے روزہ رکھنے یا عید منانے کے لئے یہ لازم قرار دیا ہے کہ چاند پہلے نظر آئے۔ صحابہٴ کرام، تابعین اور ان کے بعد والے (ائمہ کرام) کے نزدیک رویت سے ظاہر مفہوم یہی ہے کہ ہر قمری مہینے کی آخری شام کو (غروب آفتاب کے بعد) چاند نظر آئے، یعنی ہر مہینے کی تیس تاریخ کو زوال سے قبل رویت معتبر نہیں ہے اور مختار قول امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کا ہے۔ (رد المختار، جلد 3، ص: 322، داراحیاء التراث العربی، بیروت)“۔
امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز سے سوال کیا گیا: ”اخیر تاریخ رمضان شریف کا روزہ چاند دیکھ کر افطار کر لینا جائز ہے یا نہیں یعنی تیسویں کا چاند اکثر تیسرے پہر سے نظر آتا ہے تو آیا اسی وقت روزہ کھول لیں یا غروب آفتاب کے بعد؟ آپ نے جواب میں لکھا: کسی تاریخ کا روزہ دن سے افطار کر لینا ہر گز جائز نہیں بلکہ حرام قطعی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرض کیا کہ روزہ رات تک پورا کرو یعنی جب آفتاب ڈوبے اور دن ختم اور رات شروع ہو، اس وقت کھولو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ: ”پھر روزہ کو شام تک پورا کرو۔ (بقرہ: 187)“۔ درمختار میں ہے: ترجمہ: ”امام کے صحیح معتمد مذہب کے مطابق ہر حال میں دن کو چاند دیکھنے کا کوئی اعتبار نہیں، مگر امام ثانی (امام ابو یوسف) کے قول پر ہے کہ اگر زوال سے پہلے دیکھا تو یہ گزشتہ رات کا ہو گا، تو اب افطار کا یہ معنیٰ نہیں کہ یہ دن کے روزے کا افطار ہے بلکہ اس سے امام ثانی کے نزدیک ثبوت عید ہو رہا ہے کیونکہ گزشتہ رات کا چاند ہے تو عید کی وجہ سے افطار ہے اور حضور ﷺ کے فرمان مبارک ”چاند دیکھنے پر روزہ رکھو اور چاند دیکھنے پر عید کرو“ کا معنی یہ نہیں کہ جب دیکھو تو افطار کرو، ورنہ یہ لازم آئے گا کہ مغرب کے بعد محض چاند دیکھنے سے اسی وقت روزہ لازم ہو جائے اور یہ نہایت ہی واضح ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 10، ص: 388-389، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)“۔ اعتکاف خواہ قصداً توڑا ہو یا کسی عذر کے سبب، اس کی قضا واجب ہے اور جس دن توڑا فقط اس ایک دن کی قضا لازم ہے۔ یہ قضا روزے کے ساتھ ہو گی۔ علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں : ترجمہ: ”اور جب اعتکاف واجب فاسد ہوگیا، تو اس کی قضا واجب ہے۔ پس اگر وہ کسی معین مہینے کا اعتکاف تھا، تو جس دن افطار کیا (یعنی اعتکاف فاسد ہوا) اسی ایک دن کی قضا اس کے ذمے لازم ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد1، ص: 213)“۔
علامہ غلام رسول سعیدی تفسیر بتیان القرآن میں علامہ ابن عابدین شامی حنفی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ”رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہر چند کہ نفل ہے لیکن شروع کرنے سے لازم ہو جاتا ہے، اگر کسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف کر کے فاسد کر دیا تو امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر پورے دس دن کی قضا لازم ہے اور امام ابو حنفیہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک اس پر صرف اسی دن کی قضا لازم ہے (یعنی روزے کے ساتھ ایک دن کا اعتکاف)۔ اس کے برعکس نفل میں اگر کچھ دیر مسجد میں بیٹھ کر باہر نکل گیا تو اس پر قضا نہیں کیونکہ اس کے باہر نکلنے سے وہ اعتکاف ختم ہو گیا۔ (بتیان القرآن، جلد 1،ص: 739)“۔
جن لوگوں نے روزہ توڑ دیا ان کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں اس ایک روزے کی قضا رکھیں، کفارہ لازم نہیں۔ اس کی نظیر یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی نے رمضان یا عید کا چاند دیکھا مگر اس کی گواہی کسی سبب سے رد کر دی گئی مثلاً فاسق ہے یا عید کا چاند اس نے تنہا دیکھا تو اسے حکم ہے کہ روزہ رکھے اگرچہ اس نے خود عید کا چاند دیکھا ہے، مگر اس روزہ کو توڑنا جائز نہیں اگر توڑے گا تو کفارہ لازم نہیں۔ علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں : ترجمہ: ”کسی عاقل بالغ نے رمضان یا عید کا چاند دیکھا اور اس کا قول دلیل شرعی کی بنا پر رد کر دیا گیا (یعنی اس کی گواہی قبول کر کے اس پر فیصلہ نہیں کیا گیا) تو اس کے لئے مطلقاً روزہ رکھنا واجب ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس کے لئے روزہ رکھنا مستحب ہے، اگر روزہ نہ رکھا تو فقط قضا ہے، کیونکہ گواہی رد ہونے کی بنا پر اس کے لئے صورت مسئلہ مشتبہ ہے (اور حدود و کفارات شبہے کی بنا پر ساقط ہو جاتے ہیں)۔ (رد المختار علی الدرالمختار، جلد 3، ص: 313، داراحیاء التراث العربی، بیروت)“ فقہی حوالہ جات کی روشنی میں شرعی مسئلہ واضح کرنے کے بعد ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ سائنسی اور فنی وجوہات کو بھی قارئین کے سامنے لائیں۔ اس سلسلے میں رویت ہلال ریسرچ کونسل کے سیکرٹری جنرل خالد اعجاز مفتی صاحب کی سائنسی توجیہہ درج ذیل ہے:
”09 ستمبر 2010ء بمطابق 29/ رمضان المبارک کی شام پاکستان کے کسی بھی حصے سے رویت ہلال کی مستند شہادتیں موصول نہ ہونے کے باعث مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان نے عدم رویت کا فیصلہ کیا اور اس طرح 10/ستمبر 2010ء جمعتہ المبارک کو 30 رمضان المبارک اور 11/ستمبر 2010ء کو یکم شوال المکرم 1431ھ قرار دیا۔ یہ فیصلہ سائنس اور فلکیات کی رو سے بھی درست ہے۔ جمعتہ المبارک 10/ستمبر کو سہ پہر تقریباً تین بجے اسلام آباد میں چاند دکھائی دینا کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ سائنس کے عین مطابق ہے۔ ”نئے چاند“ کی فلکیاتی اور دینی اصطلاحات کے علاوہ رویت ہلال کے سائنسی پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا۔ اگر ہم چاند کے بڑھنے گھٹنے کے عمل پر غور کریں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ قمری ماہ کے پہلے دو ہفتوں کے دوران یہ ہمیں روز بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر یہ دائرے کی صورت میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اگلے دو ہفتے اس کی جسامت (Size) ہر روز کم ہوتی نظر آتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ چاند نظروں سے بالکل غائب ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوبارہ چاند کے بڑھنے کا عمل نئے سرے سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت کو قرآن شمس و قمر (Conjunction) یا اتصال شمس و قمر یا اماوس کہتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سورج اور چاند ایک سیدھ میں صفر درجہ پر ہوتے ہیں۔ علم فلکیات میں یہی اس کے ”نیا چاند“ کہلانے کا وقت ہے اور رصد گاہی کی کتب میں نئے چاند کے اوقاف اسی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اسے نئے چاند کی پیدائش بھی کہتے ہیں اور چاند کی طبعی عمر اسی وقت سے شمار کی جاتی ہے۔
فلکیاتی اصطلاح کا نیا چاند اپنے ابتدائی دور میں بال سے زیادہ باریک، سورج سے بہت قریب اور اس کی طاقت ور شعاعوں کی براہ راست زد میں ہوتا ہے، لہٰذا انسانی آنکھیں یا غیر معمولی قوت کی دوربینیں بھی اسے دیکھنے کے قابل نہیں ہوتیں۔ جوں جوں چاند کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے، اس کی جسامت بھی بڑھتی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ سورج سے دور ہٹتے ہوئے اس کی شعاعوں کی طاقت سے بھی بتدریج محفوظ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بالآخر ایک وقت اس کا وجود اس قدر ہو جاتا ہے کہ سورج سے ایک خاص فاصلے پر غروب آفتاب کے بعد انسانی آنکھوں کو پہلی بار نظر آنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ بصری نیا چاند ہے، جو دوسرے الفاظ میں رویت ہلال کے معروف نام سے موسوم ہے۔ فلکیاتی اور مقامی احوال کے تحت رویت ہلال پر اثر انداز ہونے والے عوامل یوں ترتیب دیئے جا سکتے ہیں۔
فلکیاتی کیفیات: (الف) چاند کی عمر (ب) غروب شمس اور غروب قمر کے درمیان فرق (ج) چاند کا سورج سے زاویائی فاصلہ (Longitudinal Distance) (د) سورج کا افق سے نیچے ہونا (ح) چاند کا ارتفاع (Altitude of Moon) (و) چاند کا زمین سے فاصلہ۔
مقامی کیفیات: (الف) مطلع (Horizon) کی کیفیت (ب) فضا کا شفاف پن (Transparency) (ج) مقام مشاہدہ کا محل وقوع یعنی طول بلد (longitude) اور عرض بلد (Latitude)۔ مقام مشاہدہ کی بلندی اگر سطح سمندر سے کم ہو تو انعطاف نور (Refraction of Light) کی شرح زیادہ ہو گی اور رویت ہلال کے لیے زیادہ سازگار ہو گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہاڑوں کے بہ نسبت ساحل سمندر پر نیا چاند دکھائی دینے کے امکانات زیادہ وہتے ہیں۔ سائنسی اور فلکیاتی توضیحات کی باریکیوں میں الجھے بغیر ایک عام آدمی بھی مطلع صاف ہونے کی صورت میں صرف دو معلومات کی بناء پر کسی حد تک رویت ہلال کے امکان کا پیشگی تعین کر سکتا ہے یا شہادتوں کے معیار کو پرکھ سکتا ہے۔ اول چاند کی عمر اور دوئم غروب شمس اور غروب قمر کا درمیانی فرق۔ رویت ہلال کیلئے چاند کی عمر کم از کم بیس گھنٹے نیز غروب شمس اور غروب قمر کا درمیانی فرق کم از کم چالیس منٹ ہونا چاہیے، اگر چاند کی عمر 30 گھنٹوں سے بڑھ جائے تو غروب شمس اور غروب قمر کا درمیانی فرق 35 منٹ ہونے پر بھی ہلال نظر آ جاتا ہے یا اگر غروب شمس اور غروب قمر کا درمیانی فرق 50 منٹ سے بڑھ جائے تو تقریباً 19 گھنٹے کی عمر کا چاند بھی دکھائی دے جاتا ہے۔
اصل مسئلہ: رویت ہلال کے لئے غروب آفتاب کا وقت اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس سے قبل ہم نیا چاند دیکھنے کی کوشش کریں گے تو سورج کی تیز روشنی کے باعث ہماری آنکھیں چندھیا جائیں گی اور ہم اتنا باریک چاند اس کی موجودگی کے باوجود دیکھ نہیں پائیں گے۔ نیا چاند دکھائی دینے کیلئے سورج کا غروب ہونا یا سورج کی براہ راست شعاعوں کی زد سے محفوظ ہونا ضروری ہے۔ ستمبر 2010ء میں نیا چاند، 8/ ستمبر کو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق سہ پہر تین بج کر تیس منٹ پر پیدا ہوا۔ 9/ستمبر کو غروب آفتاب کے وقت اگرچہ چاند کی عمر پاکستان کے تمام شہروں میں ساڑھے 26 گھنٹوں سے بھی تجاوز کر چکی تھی لیکن غروب شمس اور غروب قمر کا درمیانی فرق کسی بھی شہر میں 28 منٹ سے زائد نہیں تھا، لہٰذا جمعرات کی شام نیا چاند دکھائی نہیں دیا۔ اگر نیا چاند سہ پہر ساڑھے تین بجے کی بجائے گیارہ بجے قبل از دوپہر پیدا ہوا ہوتا تو وہ جمعرات کی شام دکھائی دے جاتا۔ جمعتہ المبارک 10/ستمبر بمطاق 30 رمضان المبارک کی سہ پہر اسلام آباد میں سورج کے آگے اتنے گھنے بادل آ گئے کہ وہ سورج کی براہ راست روشنی کے آئی نائن سیکٹر پہنچنے کی راہ میں مزاحم ہو گئے جبکہ بادلوں کے اوپر سے سورج کی روشنی چاند کے جس حصے پر پہنچ رہی تھی، وہ روشن ہو رہا تھا، لہٰذا وہ پتنگ اڑاتے بچے کو بھی دکھائی دے گیا حالانکہ وہ بچہ رویت ہلال کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ یہ امر مد نظر رہے کہ اس وقت چاند کی عمر 47 گھنٹوں سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔ اگر بادل سورج کی روشنی میں مزاحم نہ ہوتے تو کوئی بھی انسان چاند کی وہاں موجودگی کے باوجود اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا، تو آنکھیں چندھیا جانے کے باعث اسے دیکھ نہ پاتا۔ رہا یہ سوال کہ اس واقعہ سے ماہ شوال 1431ھ کا 10/ستمبر کی شام سے آغاز مشکوک قرار پاتا ہے، تو اس کا انتہائی سادہ جواب یہ ہے کہ جب 9/ستمبر کی شام رویت ہلال نہیں ہوئی تھی، تو شرعی حکم کے مطابق رمضان المبارک کے تیس ایام مکمل کرنے کے بعد ہی شوال کا آغاز ہونا تھا“۔
ہم نے شرعی اور سائنسی دونوں پہلوؤں کی وضاحت کر دی ہے۔ سائنسی اور فلکیاتی اعتبار سے قمری ماہ کی انتیس یا تیس تاریخ کو دن کے وقت بعض موسمی احوال کی وجہ سے چاند نظر آ سکتا ہے، لیکن اس سے چاند کی تاریخ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ چاند گزشتہ شب ہی سے متعلق ہوتا ہے۔ شرعی اور سائنسی اعتبار سے نئے قمری ماہ کا آغاز اسی صورت میں ہو گا جب چاند اس دن غروب آفتاب کے بعد نظر آئے۔ یہ تفصیلی بحث ہم نے اس لئے کی کہ جب تک دنیا قائم ہے، نظام شمس و قمر بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری رہے گا۔ شمسی اور قمری مہینوں کا آغاز اور اختتام بھی ہوتا رہے گا اور ان کے ساتھ جو دینی امور متعلق ہیں وہ بھی جاری و ساری رہیں گے۔ بس یہ ضابطہ ذہن میں رہے کہ نئے قمری مہینے کا آغاز اسی وقت ہو گا، جب قمری مہینے کی انتیس تاریخ کو غروب آفتاب کے بعد مطلع پر چاند نظر آئے، ورنہ وہ قمری مہینہ تیس کا قرار پائے گا اور اگلے دن کو بعض موسمی وجوہ اور فلکیاتی احوال کے باعث کسی وقت آسمان پر چاند نظر بھی آ جائے، تو اس سے قمری تاریخ میں کوئی رد و بدل نہیں ہو گا۔ اس لئے تمام برادران ملت سے گزارش ہے کہ وہ اس حوالے سے توہمات اور ضعیف الاعتقادی میں مبتلا نہ ہوں۔



تازہ ترین