• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ملک میں نواز شریف کا متبادل تلاش کیا جارہا ہے۔ ہر شخص اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ نوازشریف کی مخالفت کرکے کوئی بڑا فائدہ اٹھا لیا جائے۔اداروں کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش عروج پر ہے۔ مگر یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے۔ 1999کے مارشل لا کے بعد بھی اسی قسم کی خواہشات کا اظہار کیا گیا تھا اور نوازشریف کی جماعت کو ہی ٹیک اوور کرکے مسلم لیگ ق بنائی گئی تھی،مگر آج مسلم لیگ ق کا نام و نشان تک موجود نہیں رہا۔ حامد ناصر چٹھہ، چوہدری شجاعت و پرویز الہٰی، میاں اظہر، سلیم سیف اللہ، ارباب غلام رحیم سمیت بڑے بڑے ناموں نے ق لیگ کی بنیاد ڈالی۔ مگر آج ق لیگ کے ساتھ ساتھ ان بڑے ناموں کا بھی سیاسی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ مختصر سی زندگی کا تجربہ ہے کہ دونوں افراد کو ہمیشہ سیاسی طور پر شکست کھاتے دیکھا ہے۔ ایک وہ جس نے نوازشریف کو چھوڑا ہے اور دوسرا وہ جسے نوازشریف نے چھوڑا ہے۔ بالا بڑے نام اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ریاض پیرزادہ صاحب جیسے سیاسی لوگ مسلم لیگ ق کی بھی اگلی صفحوں میں موجود رہتے تھے اور ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے پرویز مشرف کو وردی نہ اتارنے کا مشورہ دیا تھا۔ آج یہی لوگ مسلم لیگ ن میں بھی موجود ہیں اور نوازشریف کو اتارنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ رات لندن سے فون آیا۔ گفتگو کا سلسلہ طویل ہوگیا۔ فون کرنے والے دوست کہنے لگے کہ ریاض پیرزادہ صاحب کب سے مسلم لیگ ن ہوگئے ہیں؟ اس خاکسار نے بات پر مزید بحث کرنے کی کوشش کی تو فون کرنے والے کہنے لگے کہ یہ سیاستدانوں کی اس قبیل میں سے ہیں، جنہوں نے کبھی بھی کوئی الیکشن ایک جماعت سے نہیں لڑا۔ ہر الیکشن نئی جماعت سے لڑتے ہیں۔ ملت پارٹی سے مسلم لیگ ق اور پھر آزاد حیثیت۔ اب مسلم لیگ ن میں موجود ہیں۔ ذاتی رائے ہے کہ ایسے لوگ ہی کسی بھی جماعت کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جو لوگ آج نوازشریف کو مائنس کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ آئندہ الیکشن نوازشریف کی تصویر لگائے بغیر لڑکر دیکھیں۔ واضح ہوجائے گا کہ اپنے حلقے میں کتنے مقبول ہیں۔ ویسے تو ایسے لوگ آئندہ انتخابات کے لئے بھی اشاروں کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ لوگ کبھی بھی مسلم لیگ ن کی مضبوطی نہیں رہے۔ بلکہ میری ناقص رائے کے مطابق جو لوگ شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کوٹیک اوور کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، وہ شریف فیملی کی بنیادی اخلاقی روایات سے بھی ناآشنا ہیں۔ اگر انہیں اس خاندان کی روایات کی الف، ب بھی معلوم ہوتی تو شاید ایسی بات نہ کرتے۔ کسی اور کا تو مجھے علم نہیں مگر نوازشریف اور شہباز شریف کے درمیان جو خاندانی روایات موجود ہیں۔اس پر بہتر تبصرہ کرسکتا ہوں۔ شہباز شریف مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کو اپنا بھائی یا لیڈر سمجھنے سے پہلے اپنے باپ جیسا درجہ دیتے ہیں۔ان دونوں بھائیوں کے ساتھ اور کچھ ہے یا نہیں مگر اپنے مرحوم باپ کی نصیحتیں ضرور ہیں۔ ٹیک اوور کا مشورہ دینے والوں کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ 1999کے بعد بھی شہباز شریف کو ایسی کئی آفرز اس وقت کے حکمران نے کی تھیں۔ مگر شہبا ز شریف کو اپنے بھائی سے زیادہ عزیز کوئی چیز نہیں ہے۔ آج جو لوگ پارٹی ٹیک اوور کا مشورہ دے رہے ہیں، دراصل وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ٹیک اوور تو پرائی چیز کو کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کے بعد شہباز شریف پارٹی کے مالک ہیں۔ مالک اپنی چیز کو ٹیک اوور نہیں کرتے۔ بلکہ مالک فیصلہ کرتا ہے۔ سول عسکری تعلقات کے حوالے سے شہباز شریف کی رائے نوازشریف سے مختلف ہوسکتی ہے، مگر نوازشریف کے خلاف جانا یا ان کے کسی فیصلے میں ان کا ساتھ نہ دینا، کم از کم شہباز شریف جیسا انسان تو نہیں کرسکتا۔ شہباز شریف کھل کر اختلاف رائے بھی کریں گے اور آخری حد تک اپنی بات پر نوازشریف کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے، مگر اس سب کے بعد شہباز شریف کا آخری فیصلہ وہی ہوگا جو نوازشریف کا فیصلہ ہوگا۔ پوری دنیا نوازشریف کو اس آزمائشی وقت میں چھوڑ سکتی ہے، مگر شہباز شریف نوازشریف کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ دو جسم اور ایک روح ہیں۔ جس شخص نے گزشتہ چار سالوں میں سات سے زائد مرتبہ وزارت عظمیٰ کی پیشکش سے معذرت کرکے نوازشریف کو ہی رہنے کا مشورہ دیا ہو،آج وہ مسلم لیگ ق سے آئے ہوئے لوگوں کی بات کو اہمیت دے گا؟ شہباز شریف اس ٹائی ٹینک کا وہ کپتان ہے،جو نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہونے والا آخری شخص ہوگا، غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں۔ نوازشریف سے بھی غلط فیصلے ہوئے ہوں گے۔ مگر لیڈر نہیں بدلے جاتے۔بہت سے معاملات میں دیکھا ہے کہ نوازشریف کے لئے قدرت آؤٹ آف وے جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔
شہباز شریف کی محنت اور دن رات کی لگن سے مسلم لیگ ن پنجاب میں بہت مضبوط ہوئی ہے۔ 2013کے انتخابات میں کشمور سے پہلے اور اٹک کے بعد مسلم لیگ ن کہاں تھی۔ مگر اس بہترین کارکردگی کے باوجود ووٹ بنک نوازشریف کا ہے۔شہباز شریف کے نو سالہ اقتدار میں جس شفافیت سے کھربوں روپے کے منصوبوں پر کام ہوا ،اس سے پہلی بار ان کا ذاتی ووٹ بنک بننا شروع ہوا۔ مگر اس ووٹ بنک کی مضبوطی تب ہے جب نوازشریف اور شہباز شریف متحد ہوں۔ شریف خاندان کی مضبوطی ان کا اتحاد اور خاندانی روایات ہیں۔ جس دن یہ خاندانی روایات مسخ ہوئیں تو اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوجائے گا۔ جہاں تک مجھے علم ہے کہ اگر نوازشریف کوتھوڑا سا بھی محسوس ہوا کہ ملکی مفاد اور مسلم لیگ ن کی مضبوطی کے لئے ان کا ایک قدم پیچھے ہٹ کر شہباز شریف کو آگے کرنے سے معاملات بہتر ہوجائیں گے تو وہ ایک منٹ بھی تاخیر کئے بغیر ایسا کر گزریں گے۔ مگر نوازشریف شاید کسی بہتر آپشن کے منتظر ہیں۔ اداروں کے سربراہان کوبھی نواز شریف کا احسان یاد کرنا چاہئے۔ اب بہت ہوچکا ہے۔ باقی مسلم لیگ ن کے اڑنے والوںدوستوں کے لئے عرض ہے کہ مشکل وقت میں دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔ جو ابن الوقت لوگ آج نوازشریف کے بھائی کو ٹیک اوور کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کل شہباز شریف کسی مشکل میں ہونگے تو یہ کسی اور کو شہباز شریف کی حکومت ٹیک اوور کرنے کا مشورہ دیں گے۔ووٹ بنک نواز شریف کا ہے، تھا اور رہے گا۔ بے نظیر بھٹو جتنی بھی بڑی لیڈر تھیں مگر ووٹ پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر پڑتا ہے۔ نوازشریف مسلم لیگ ن کے بانی اور لیڈر ہیں۔ صرف نوازشریف تلخیاں بھلادیں،سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ کیونکہ بہرحال نوازشریف کا متبادل بھی نوازشریف ہی ہے۔

تازہ ترین