• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں مصنوعی بحران پیدا کرنے کیلئےدرپردہ کوشش ہورہی ہے،احسن اقبال

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر داخلہ و منصوبہ بندی اور مسلم لیگ ن کے مرکزی جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے متواتر جلسے دھرنا تھری کی تیاری ہیں ،عمران خان چاہتے ہیں کہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن نہ ہوں کیونکہ سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کی کامیابی 2018 کے الیکشن میں ان کے لئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے احسن قبال کا کہنا تھا کہ جب بھی ہمارے ملک میں سینیٹ کے الیکشن ہونے کو ہوتے ہیں تو ایک فضا بنائی جاتی ہے اور مجھے لگتاہے کہ پی ٹی آئی بھی اس حوالے سے پریشان ہے کہ اگر سینیٹ کے انتخابات ہوگئے اور اس میں جو پی ایم ایل این کو کامیابی حاصل ہوگی او راس سے جو نفسیاتی فضا بنے گی اور وہ یقیناً اس کی اپنی کارکردگی بھی ہوگی تو اگلے الیکشن میں ہمارے لئے مشکلات ہوجائیں گی تو یوں احساس ہوتا ہے کہ کوئی درپردہ ایک کوشش ہے کہ ملک کے اندر کوئی مصنوعی بحران پیدا کیا جائے کہ مارچ میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن نہ ہوسکیں۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ انہوں نے جو پچھلا دھرنا دیا تھا اس سے قبل کافی جلسے اس کوشش اور امید میں کئے تھے کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اسلام آباد لے آئیں گے لیکن میرا خیال ہے کہ اس مرتبہ بھی ان کو ناکامی ہوگی ۔ سلیم صافی کے سوال کہ دھرنا ون اور دھرنا ٹو عمران خان اور طاہر القادری نے کئے نہیں تھے ان سے کروائے گئے تھے اب کیا دھرنا تھری خان صاحب خود کررہے ہیں کے جواب میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس کا جواب وہ خود دے سکتے ہیں لیکن اس وقت پیور سیاست ان کے لئے ایک سیلفش موٹیو ہوسکتا ہے کہ وہ سینیٹ الیکشن کو خراب کریں یا ان الیکشن کو ہونے ہی نہ دیں ۔ کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ ن لیگ کی اس میں کامیابی 2018 کے الیکشن میں ان کے لئے مشکلات پیدا کردے گی ۔ امید ہے کہ اس مرتبہ عمران خان صاحب دھرنا تھری خود ہی کررہے ہوں گے،ان سے کوئی کروا نہیں رہا ہوگا کیونکہ ابھی ایسی کوئی معلومات نہیں کہ ان سے کوئی کروارہا ہے،یہ خان صاحب کی اپنی سوچ ہے جو بہت محدود ہے ۔

انہوں نے کہا کہ خان صاحب کو اب 2018کے الیکشن کی تیاری کرنی چاہئے ملک میں انتشار نہیں پھیلانا چاہئے کیونکہ یہ ملک کی معیشت کے لیے درست نہیں ہے ۔ ہماری کوشش ہے کہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی ہوجس کی کوشش سابق وزیراعظم نواز شریف بھی کرچکے ہیں اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ 2014 کے دھرنے کو اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی مدد بھی حاصل تھی لیکن یہ اسوقت کے وزیراعظم نواز شریف کی وضع داری تھی کہ انہوں نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی ورنہ تو اس پر یہ کیس بنتا تھا کہ موثر کارروائی کرکے ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جاتی جو اس پوری سازش کے پیچھے شریک تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاوید ہاشمی صاحب کا بیان اس حوالے سے ریکارڈ کا حصہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ ہم اندرونی طو رپر بھی استحکام قائم رکھیں انہوں نے مزید کہا کہ میں بحیثیت وزیر داخلہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کو بہت ہی سنگین قسم کے بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے جس کی نشاندہی سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی کرچکے ہیں اور اس کے پیش نظر ہمارے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اندرونی عدم استحکام سے زیادہ سے زیادہ بچیں ، آپس کے تنازعات کو ختم کرکے یکجہتی قائم کریں تاکہ ہم ان بحرانوں سے نکل سکیں ۔ یہ حالات آسان نہیں دو سے تین سال ہمارے لئے بے حد اہم ہیں اس میں ہمیں انتہائی محتاط طریقے سے آگے بڑھنے ہیں اور معمولی سا عدم استحکام بھی ہمارے دشمنوں کے لئے منہ مانگی فرمائش ہوگی جو ہم پوری کریں گے ،علاقائی خطے کی صورتحال او ر بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ہم کسی بھی قسم کی Confrontation کے حق میں نہیں ہیں ، پاکستان کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے اس کو کوئی بھی ایک ادارہ تنہاحل نہیں کرسکتا ہے کیونکہ یہ چیلنجز ہم سب کے قد سے بڑے ہیں اور ہم ان کا مقابلہ تبھی کرسکتے ہیں کہ ہم آپس میں اتحاد رکھیں ، ایک دوسروں کے مددگار بنیں اور ایک دوسرے کی پشت کے اوپر کھڑے ہوں تاہم اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ان چیلنجز کو بطور ادارہ اکیلے حل کرسکتا ہے تو اس کو اپنا معائنہ کرالینا چاہئے ۔

پارٹی لیڈر شپ پربات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کا پارٹی لیڈر کون ہوگا اس کا حق سپریم کورٹ یا کسی اور ادارے کے پاس نہیں ہے اس کا حق صرف پارٹی ممبران کے پاس ہے کہ وہ کس کی قیادت پر اتفاق رکھتے ہیں ۔ اور ان ووٹرز کے پاس ہے جو اس جماعت کو ووٹ دیتے ہیں ۔ نواز شریف کی نااہلی کی سزا پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے سپریم کورٹ کے ایسے فیصلے موجود ہیں جو بعد میں خود سپریم کورٹ کے لئے ندامت کا باعث بنے ۔ آج کیا سپریم کورٹ جسٹس منیر کے فیصلوں کو کوڈ کرتی ہے یا شرماتی ہے ۔ کیا سپریم کورٹ نصرت بھٹوکیس پر کوئی فخر کرتی ہے یا نہیں کرتی ۔ پارٹی صدارت کا قانون 1975 سے لے کر 2001 تک یہی تھا یہ تو جنرل مشرف نے اپنی آمد کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو پارٹی سربراہیسے دو رکرنے کے لئے اس میں دراڑ ڈالی تاکہ ان کو سیاست سے باہر کیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرکے ہم نے مثال قائم کی ہے ۔

نواز شریف کو گاڈ فادر او رمافیا کہا گیا لیکن گاڈ فادر او رمافیا کبھی عدالتوں کے سامنے پیش ہوکر اپنی کرسی نہیں چھوڑتے ۔ نواز شریف کی قیادت پاکستان کے لئے ایک اثاثہ ہے کیونکہ پاکستان میں کوئی ایسا لیڈر نہیں جو ان کے قدکا ہوانہوں نے جو چاروں صوبوں کے ساتھ اس انداز میں بات چیت کرسکے ۔ سلیم صافی کے سوال کہ مولانا فضل الرحمن کا قد تو ان سے بہت بڑا ہے جس پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ نواز شریف قومی سطح پر تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور ان کو جو پاکستان کے مسائل کا ادارک ہے اور جو تجربات ہیں وہ شاید کسی اور لیڈر کو نہ ہوں۔

نواز شریف پر اپنے تینوں ادوار میں کوئی بدعنوانی ، کرپشن ، کک بیکس لینے کا کیس نہیں ہے ۔سلیم صافی کے سوال کہ شرجیل میمن کو تو آپ کی حکومت گرفتار کرلیتی ہے لیکن آپ کی حکومت عمران خان اور طاہر القادری کو کیوں گرفتار نہیں کرتی جبکہ ان پر دہشت گردی کے کیسز میں مقدمہ درج ہے کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ رولز آف لاء تو یہی کہتا ہے کہ پاکستان کے اندر سب کے ساتھ برابر ی کا سلوک ہو لیکن اس وقت عمران خان کی خواہش بھی ہے اور وہ اپنی منفی سیاست کرکے اپنی مقبولیت بھی کھورہے ہیں اس لئے وہ اپنی اس گرتی سیاست کو بچانے کے لئے مظلوم بن کر گرفتار ہونا چاہتے ہیں لیکن ہم عمران خان کو گرفتار کرکے مظلوم بننے کا موقع دینا نہیں چاہتے جس پر سلیم صافی کا سوال تھا کہ صرف اس خیال سے کہ عمران خان ہیرو نہ بن جائے آپ قانون پر عملدرآمد نہیں کررہے کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جبکہ الیکشن کے قریب آنے پر ہم یہ تاثر چھوڑنا نہیں چاہتے کہ ہم اپنے مخالفوں کو جیلوں میں ڈال رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شرجیل میمن کو ہم نے گرفتار نہیں کیا ، اس کو عدالت کے حکم پر نیب نے رینجرز کی مدد سے گرفتار کیا ہے وہ نیب کی تحویل میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت عمران خان کو گرفتار کرنے کا براہ راست حکم دے تو اس کی تعمیل ہوگی ۔

عمران خان کو الیکشن کمیشن کے بعد اب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بھی پیش ہونا چاہئے کیونکہ جتنا یہ عمران خان کا امتحان ہے اتنا ہی ہمارا امتحان بھی ہے ۔ عمران خان رول آف لاء کے چیمپئن بنتے ہیں لیکن رولز آف لا کو ہی Skip کررہے ہیں ۔ جتنا بڑا یہ ہم پر دھبا ہے کہ ہم عمران خان کو پکڑ نہیں رہے اس سے کہیں زیادہ بڑا دھبہ یہ عمران خان پرہے کہ وہ قانون پر عملدرآمد کیوں نہیں کررہے ۔ ہم ناں عمرن خان سے خوفزدہ ہیں اور ناں ہی ایسی کوئی بات ہے کہ عمران کی گرفتاری کے حکم کو لاء انفورسمنٹ ادارے رد کردیں گے ۔ ہم انسداد دہشت گردی عدالت کے براہ راست حکم کی تعمیل کریں گے تاہم ہم ایسا کوئی تاثر بالکل بھی نہیں دینا چاہتے کہ ہم اپوزیشن کو Victimize کررہے ہیں ۔ سلیم صافی کے سوال کہ ہر لاء انفورسمنٹ ادارے پر آپ کا حکم چلتا ہے کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ امید تو ہے جس پر جوڈیشل کمپلیکس میں پیش آنے والے واقعہ کی تحقیقات کا کیا بنا کے سوال پر احسن اقبال کا کہنا تھاکہ اس دن میں سابق وزیراعظم کے ساتھ نہیں گیا تھا بلکہ چیف کمشنر کی حکم عدولی ہونے پر میں وہاں گیا تھا اور جب تمام واقعات کی سول سائیڈ سے بھی تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایسی کوئی ہدایات نہ تھیں اب رینجرز کو کہا گیا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کرے اور مجھے امید ہے کہ جلد اس کا رزلٹ بھی آجائے گا ، ہماری وزارت اس کو سپروائز کررہی ہے اور اس کی جو بھی رپورٹ آئے گی اس پر مناسب ایکشن لیا جائے گا ۔

اس سوال کہ اسلام آباد میں حکومت کس کی ہے کے جواب میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی جس کے بعد ہماری لیکن جو پاور اسٹرکچر ہے اس میں مختلف اسٹیک ہولڈرز ہیں جو مل کراس طاقت کو ایکسرسائز کررہے ہیں ۔ دی نیوز کے رپورٹر احمد نورانی پر حملے کے حوالے سے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ بہت افسوسناک واقعہ ہے جو ایک دھبہ ہے ہمارے لئے کہ اکیسویں صدی میں اس طرح کی چیزیں صحافیوں کے ساتھ ہوں تو وہ کسی بھی ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ان کا کہنا تھا کہ اس کی تحقیقات کے لئے ہم نے بہترین افسران کو ذمہ داری دی ہوئی ہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی کو بھی اس پر استعمال کیا جارہا ہے اور جو ابتدائی شواہد ملے ہیں اس کو لے کر جلد ہی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تاہم مزیداس پر بات نہیں کرنا چاہوں گا کیونکہ ابھی یہ تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے جس کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنی تمام تر معلومات کو صیغہ راز میں رکھیں تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ جوں ہی یہ پراسیس مکمل ہوگا اسی حوالے سے ہم پالیسی مرتب کریں گے ۔

نواز شریف کے سو ل ملٹری مکالمے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لئے سول ملٹری مکالمے کی تجویز دی تھی تاکہ اس ریفارمز کے نتیجے میں ملک کے اندر جمہوری استحکام پیدا ہو ۔

تازہ ترین