ہمارے ہاں سخت سیکورٹی کا حصار، ہٹو بچو اور ہوٹروں کی آوازیں سنائی دیں تو بات فوراً سمجھ آجاتی ہے کہ جناب صدر، وزیراعظم یا کوئی اور اہم شخصیت گزر رہی ہے۔ ان اہم شخصیات کا گزر ہو تو عام لوگ سڑکوں کے قیدی بن جاتے ہیں۔ ایمبولینسوں میں پڑے مریض دنیا سے گزر جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارے ’’محترم تبدیلی خان‘‘ ترین کے بہترین ہیلی کاپٹر سے اترے اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے حکمران ڈاکو ہیں، انہوں نے لوگوں کا جینا محال بنا رکھا ہے۔ نوازشریف کی بیٹی مریم کِس حیثیت میں درجنوں گاڑیوں اور سینکڑوں سیکورٹی گارڈز کی موجودگی میں سفر کرتی ہے؟ ڈچ وزیراعظم کو دیکھو وہ سائیکل پر سفر کرتا ہے‘‘۔ کتاب حکمت تو کہتی ہے’’اے ایمان والو وہ بات کہتے ہی کیوں ہو جو کرتے نہیں‘‘۔ خان صاحب بہادر آدمی ہیں ہروہ بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں، ہر ایک پر تنقید انکا فرض اولین ہے۔ خود ہیلی کاپٹروں، نجی جہازوں اور لگژری گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں، مگر اسکے باوجود دیدہ دلیری سے ایسی باتیں کرنا انہی کا طُرہ امتیاز ہے۔ پچاس سالہ ڈچ وزیراعظم مارک رُٹ کی ایمسٹرڈم شاہی محل سائیکل پر پہنچنے کی تصویر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کے صفحات پر وائرل ہوئی۔ سادہ طرز زندگی بسر کرنا، معمولی گاڑیوں اور سائیکلوں کا استعمال مغربی حکمرانوں کا معمول ہے۔ یورپ کے بہت سے ممالک میں سائیکل پر سفر بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے، سائیکل سواروں کی سہولت کے لئے وہاں سڑکوں پر سائیکل ٹریک ضرور بنائے جاتے ہیں۔
ڈنمارک اس معاملے میں سب سے آگے ہے، وزیراعظم و وزرا نے ہفتے میں ایک دن گھر سے دفتر تک سائیکل کا سفر اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے۔ اعلیٰ سرکاری ملازم اور عام لوگ اس سے بڑھ کر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں۔ وہاں کے لوگ کہتے ہیں اس ایک اقدام سے ہمارا کئی کروڑ کا ایندھن بچتا ہے، ماحولیاتی آلودگی کم ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر سائیکل چلانا ورزش ہی کی ایک شکل ہے جس سے صحت صحیح رہتی ہے۔ چھیالیس سالہ کینیڈین وزیراعظم جسٹن جیمز انتہائی سادہ و ملنسار فرد مانے جاتے ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔ دیگر ممالک سے آنے والے حکمرانوں کا استقبال و دعوت انتہائی سادگی سے کرتے ہیں۔ بھارت کے پردان منتری مودُی ترقی یافتہ ملک سنگاپور پہنچتے ہیں تو وزیراعظم لی حِزن انہیں معمولی ریستوران میں لے جاتے ہیں اور سنگل ڈِش پر مشتمل عشائیہ دیتے ہیں۔ برطانیہ کے سوشل سیکورٹی سسٹم کی تو ہمارے ہاں بہت مثالیں دی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے تمام تر بغض کے باوجود اس محکمے کے ملازمین کی ابتدائی پیشہ ورانہ تربیت کے دوران ہی انہیں بتایا جاتا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل یہ نظام عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم کیا تھا۔
مغربی حکمرانوں کی تعریفوں میں رطب اللسان رہنمائوں کے گِرد گھومنے والی نئی نسل کو کوئی بتائے کہ جناب یہ حسین روایات اور نظام تو مسلمانوں نے قائم کیا تھا۔
راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں کون حکمران گشت کرتا تھا۔
تم مغربی حکمرانوں کی باتیں کرتے ہو، تمہیں نہیں معلوم بیت المقدس کی فتح کے بعد آدھی دنیا پر حکومت کرنے والا امیر المومنین عمر ؓوہاں کس شان سے پہنچا تھا؟
آئیں ہم اس شان و شوکت کو ایک بار پھر سے یاد کرتے ہیں۔
حضرت عمرو بن العاص ؓنے16ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔ اسی دوران حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح بھی مدد کے لئے آن پہنچے۔ بیت المقدس کے عیسائیوں نے کچھ دنوں کی مدافعت کے بعد مصالحت پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے اطمینان کیلئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق ؓخود یہاں پہنچ کر معاہدے کو حتمی شکل دیں۔ امیرالمومنین کو اطلاع ملی تو آپ نے بعد از مشاورت حضرت علی ؓکواپنا نائب مقرر کر کے رجب 16ھ میں مدینہ سے بیت المقدس کیلئے روانہ ہوئے۔
ابن اثیر رقمطراز ہیں کہ یہ سفر انتہائی سادہ تھا۔ ایک اونٹنی، اس پر دو تھیلے ایک میں ستو، دوسرے میں کھجوریں۔ ساتھ میں پانی سے بھرا ایک مشکیزہ۔ طویل سفر کے پیش نظر ایک غلام ساتھ رکھا اور آغازِ سفر پر اسے کہا کہ یہ نہ سوچنا میں سواری پر آرام سے سفر کرتا رہوں گا اور تم پیدل مشقت، یہ انصاف کیخلاف ہے۔ دوران سفر مسلمانوں کے خلیفہ اور غلام باری باری اونٹ پر سواری کرتے رہے۔
مقام جابیہ میں عمال حکومت نے آپ کا استقبال کیا اور سب کی حیرت گم ہو گئی کہ اس وقت غلام اونٹ پر سوار تھا اور امیر المومنین خود پیدل تھے اور اونٹ کی مہار آپ کے ہاتھ میں تھی۔
بیت المقدس شہر کے باہر حضرت ابوعبیدہ ؓکی قیادت میں سپاہ نے آپکا استقبال کیا۔ آپکا لباس اتنا سادہ اور پرانا تھا کہ مسلمانوں کو شرم آئی کہ عیسائی اس لباس میں دیکھ کر کیا کہیں گے، انہوں نے آپ کو ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک پیش کی اور عرض کی یا امیرالمومنین یہ لباس تبدیل کر لیں۔
سیدنا عمر ؓنے فرمایا کہ’’خدا نے ہمیں اسلام کی وجہ سے عزت بخشی ہے، پوشاک و اعلیٰ سواری کی بدولت نہیں۔ ہمارے لیے اﷲ کی بخشی عزت کافی ہے‘‘۔
بیت المقدس کے پادری ’’صفرینوس‘‘ کا خیال تھا کہ امیرالمومنین کا لائو لشکر پر شکوہ ہوگا اور دور سے نظر آئے گا مگر وہ حیران ہوا کہ ایک آدمی اونٹنی پر بیٹھا ان کی طرف آرہا ہے اور دوسرا نکیل پکڑے آگے چل رہا ہے ان کا حلیہ دیکھنے کا تھا۔ پھٹے جوتے، بالوں پر گردوغبار، پیوند لگا کُرتا۔ ایک دو نہیں پورے چودہ پیوند لگے تھے جن میں سے کچھ چمڑے کے تھے۔ پادری نے دل میں سوچا کہ وہ عظیم المرتبت فاتح جس نے سلطنت روم اور فارس کو تاخت و تاراج کیا، یہ وہ نہیں ہو سکتا۔ کیا خلیفہ ایسا سادہ اور درویش صفت ہو سکتا ہے؟ وہ اپنی بات زبان پر نہ لا سکا۔ امیرالمومنین اس حال میں بیت المقدس میں داخل ہوئے کہ رومیوں نے عالم عرب و عجم کے فرمانروا کیلئے دروازے کھول دئیے، شہر کی چابیاں پیش کی اور کہا کہ بیشک آپ ہی فاتح بیت المقدس ہیں۔ نماز کا وقت ہوا توایک میدان میں داخل ہوئے، یہ حضرت مریم علیہ السلام کے نام پر قائم گرجا کا صحن تھا۔ آپ کو تھوکنے کی حاجت ہوئی تو گرجا میں تھوکنے کی بجائے اپنے کپڑے میں تھوکا، کہا گیا یہاں تو شرک کیا جاتا ہے تھوکنے میں کیا حرج تھا، فرمایا شرک ہی نہیں یہاں اﷲ کا ذکر بھی کثرت سے ہوتا رہا ہے۔
ایک ارب سے زائد مسلمان اور پچپن سے زیادہ اسلامی ممالک، مسلم حکمرانوں میں سے کسی ایک کی مثال نہیں دی جا سکتی جس کی زندگی ریاست مدینہ کے خلیفہ کی پیروی کرتی ہو۔ مسلمان بھوکے مر رہے ہیں اور ایک اسلامی ملک کا بادشاہ ماسکو پہنچتا ہے تو جہاز کے ساتھ سونے کی بنی سیڑھی لگائی جاتی ہے۔ دو بڑے ہوٹلوں میں اس کا قافلہ رہائش اختیار کرتا ہے۔
کاش ہم اپنی نسلوں کو مغربی حکمرانوں کی بجائے اپنے قابل فخر آبائو اجداد کی مثالیں پیش کرسکتے؟
اوروں سے مانگتے پھرتے ہیں مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پر پھیلا دیئے سائے ہم نے