سربیا کے ایک معروف نیچرل ریزرو میں عیش کی زندگی گزارنے والے گدھوں بلکہ گدھیوں کے دودھ سے دنیا کا مہنگا ترین پنیر تیار کیا جاتا ہے۔ ایک کلو کی قیمت1200ڈالر یعنی کم و بیش سوا لاکھ روپیہ بنتی ہے اور ایسا بھی نہیں کہ آپ آئوٹ لیٹ پر تشریف لے جائیں اور قیمت ادا کر کے پیکٹ اٹھا لائیں۔ اس کے لئے کم از کم تین ماہ کی ایڈوانس بکنگ کرانا پڑتی ہے۔وہیں سے اسی مخلوق کا بوتل بند دودھ بھی ملتا ہے جو حسن نکھارنے کی شہرت رکھتا ہے۔ لوگ پیتے بھی ہیں اور جو ایفورڈ کر سکتے ہیںوہ اس سے نہاتے بھی ہیں، لیٹر کی بوتل 50ڈالر میں ملتی ہے اور نہانے والے دودھ کا گیلن200ڈالر میں دستیاب ہے۔ پروموشنل اشتہار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مصر کی ملکہ قلوپطرہ کے ملکوتی حسن کا راز گدھی کے دودھ میں پنہاں تھا۔ جو بلا ناغہ اس سے غسل فرمایا کرتی تھیں۔
ہربل میں چین کا بڑا نام ہے۔ جہاں صدیوں سے بیماریوں کا علاج مقامی طور طریقوں اور جڑی بوٹیوں سے کیاجاتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایلو پیتھی کو چین میں قدم جمانے میں خاصی دشواری پیش آئی، بلکہ ہنوز پیش آرہی ہے۔ زیادہ تر چینی اب بھی جدید میڈیسن کی بجائے روایتی علاج معالجے کو تر جیح دیتے ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ چینیوں نے ہمیں بھی جڑی بوٹیوں پر لگا دیا ہے۔ جوں جوں چینیوں کا عمل دخل پاکستان میں بڑھ رہا ہے۔ ہربل کے نام پر بھانت بھانت کے قہوے اور سبز پتیاں ہماری زندگیوں میں بھی داخل ہو رہی ہیں۔ زمانہ قدیم سے چین میں ’’ای جیائو ‘‘ نامی دوائی کا شہرہ رہا ہے۔ جو مہنگی ہونے کی وجہ سے محض حکمرانوں کے استعمال میں آتی تھی۔ سیاہ رنگ کے پلے پلائے گدھوں کی تازہ کھال سے یہ دوا کچھ اس طور تیار کی جاتی کہ پروڈکٹ گاڑھی جیلی سے مشابےہوتی تھی۔ اس عمل کے لئے سردیوں کے مہینے آئیڈیل سمجھے جاتے تھے۔تیاری کیلئے استعمال ہونے والا پانی بھی مخصوص کنوئوں سے آتا تھا۔ جنہیں عام طور پر بند رکھا جاتا اور مطلوبہ مقدار میں پانی نکالنے کے بعد دوبارہ سیل کر دیا جاتا تھا۔،اس دوا کی اثر انگیزی کے بارے میں ہوشربا قصے کہانیاں مشہورہیں۔
جسے نزلے ،زکام، کھانسی سے لے کر لیو کیمیا اور کینسر تک کیلئے اکسیر سمجھا جاتا تھا۔ اور پھر اس کے ساتھ ہمیشہ کی جوانی اور توانائی کو جوڑ دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خلق خدا اسکے پیچھے دیوانی ہو گئی اور ڈیمانڈ اس قدر بڑھ گئی کہ پورا کرنا ممکن نہ رہا۔ تو پھر جیسا کہ ایسے کیسز میں ہوتا ہے دو نمبری شروع ہو گئی۔ پلا پلایا سیاہ گدھا تو رہا ایک طرف ،اس سے ملتے جلتے دیگر جانوروں پر ہاتھ صاف کیا جانے لگا۔ خچروں، گھوڑوں حتیٰ ٰ کہ اونٹوں کی بھی شامت آگئی۔
چین کے مال مویشی کا حساب کتاب رکھنے والے محکمے کے مطابق گدھوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ تھی، جو اب کم ہو کر ڈھائی کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
جبکہ ’ای جیائو ‘ کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے سالانہ 50لاکھ گدھوں کی ضرورت ہے۔ جس کیلئے دنیا بھر سے ڈنکی امپورٹ کی مہم چلائی گئی۔ افریقی ممالک کا رسپانس حوصلہ افزا تھا۔ مصر، تنزانیہ ،سینیگال ، کینیا، ایتھو پیا، نائیجیریا، اور جنوبی افریقہ کے علاوہ منگو لیا ،برازیل ، افغانستان حتی کہ پاکستان سے بھی مال برآمد ہونے لگا۔ جس سے یکایک جانوروں کی قیمت بڑھ گئی۔ جس گدھے کو ہزار میں کوئی نہیں پوچھتا تھا، 25ہزار تک مول پانے لگا۔ چوری کی وارداتیں بڑھ گئیں اور چور بھینس پر گدھے کو ترجیح دینے لگے۔ عوام الناس میں طرح طرح کے قصے کہانیوں نے شہرت پائی۔ جس پر پاکستان سمیت متعدد ممالک نے گدھوں اور انکی کی کھالوں کی برآمد پر پابندی عائد کر دی۔ مبادا مفلس طبقے کی روٹی روزی اور رسل و رسائل کا ذریعہ ناپید ہو جائے۔
ہاں، اگر اس سلسلے کو چلانا ہے تو اسے کسی قاعدے، ضابطے اور پلاننگ کے تحت لانا ہو گا، شاید اسی سے متاثر ہو کر خیبر پختونخوا حکومت نے "KPK-China sustainable donkey development programe" ڈول ڈالا ہے۔ چینی سرمائے سے صوبے بھر میں گدھوں کی افزائش نسل کیلئے جدید بنیادوں پر فارمنگ ہو گی جس سے صوبے کے غریب کسانوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ مذکورہ منصوبے کو بھیCPECکاحصہ بتایا جا رہا ہے۔