قومی اسمبلی کے حلقہ ’’این اے ۔ 4پشاور‘‘ میں ہونے والے ضمنی انتخابات نے ملک گیر توجہ حاصل کرلی کیونکہ انہیں 2018میں ہونے والے عام انتخابات سے نو ماہ پہلے سیاسی جماعتوں کوحاصل عوامی حمایت جانچنے کے پیمانے کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ اپنے اپنے امیدواروں کی حمایت ابھارنے کیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سوا دیگر تمام اہم سیاسی جماعتوںکے مرکزی قائدین نے حلقے میں عوامی جلسوںسے خطاب کیا ۔ تحریک ِا نصاف کے چیئرمین، عمران خان،عوامی نیشنل پارٹی کے صدر، اسفند یار ولی خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ، بلاول بھٹو زداری اور جماعت ِاسلامی کے امیر، سراج الحق نے اپنی اپنی جماعتوں کے ووٹ بڑھانے کی کوشش کی ۔ تمام تر خدشات کے باوجودیہ ضمنی انتخابات مکمل طور پر پرامن رہے ۔ ان میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 33.67 فیصد رہا، جسے معقول قرار دیا جاسکتا ہے ، جبکہ خواتین کی شرکت بھی توقعات سے بڑھ کرتھی ۔ پشاور کے دیہی علاقے میں واقع اس حلقے کو حالیہ برسوںکے دوران انتہا پسندوں کے ہاتھوں تشدد برداشت کرنا پڑا۔ حکومت کی حمایت کے ساتھ مسلح شہریوں نے انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے اور اپنے دیہات کا دفاع کرنے کیلئے لشکر بھی بنائے تھے ۔
تحریک ِ لبیک پاکستان اورملی مسلم لیگ کی انتخابی عمل میں شرکت دائیں بازو کی جماعتوں کیلئے ایک کٹھن چیلنج ثابت ہوئی اور انھوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جماعت ِاسلامی کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچایا۔ موخر الذکر(جماعت اسلامی) کو اس حد تک نقصان پہنچا کہ اسے صرف 7,668 ووٹ ملے ، جبکہ 2013 ء کے عام انتخابات میں اسے 16,493 ووٹ ملے تھے ۔ تحریک ِ لبیک پاکستان نے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ممتاز قادری، جسے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے جرم میں عدالت نے پھانسی کی سزاسنائی تھی، کے نام پر جذباتی تحریک چلائی اور 9,935ووٹ حاصل کرتے ہوئے انتخابی مسابقت میں پانچویں نمبر پر رہی ۔ حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ اس ضمنی الیکشن میں پورا زور لگانے کے باوجود قابل ِ ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ۔ ستمبر میںلاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے ، این اے 120میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی طرح این اے 4 کو بھی پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک ِ انصاف کے درمیان مقابلہ قرار دیا گیا تھا ۔ ایک حوالے سے یہ انتخابی معرکہ وفاقی حکومت ، جس کی قیادت پاکستان مسلم لیگ نواز کے پاس ہے، اور خیبرپختونخوا حکومت، جس کی قیادت تحریک ِ انصاف کے پاس ہے ، کے درمیان تھا ۔ ان دونوں جماعتوں نے ووٹروںکی حمایت حاصل کرنے کیلئے حلقے میں ترقیاتی کاموں کیلئے سرکاری وسائل کا بھر پور استعمال کیا ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کیلئے قومی اسمبلی کے حلقے 120 میںجیت ضروری تھی، کیونکہ وہ ضمنی الیکشن وزیر ِاعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سےنااہل قرار دئیے جانے کے بعد ہورہا تھا ۔ پارٹی کی قیادت چاہتی تھی کہ وہ یہ نشست جیت کر ثابت کرے کہ عدالت کے فیصلے کے باوجود وہ عوامی حمایت رکھتے ہیں۔ چونکہ وہ نواز شریف کا روایتی حلقہ تھا اور وہاں سے وہ کبھی نہیں ہارے تھے ، اس لئے اُن کی زوجہ کلثوم نواز، جو علیل تھیں ، کو انتخابی معرکے میں اتارا گیا ۔ اگر وہ شکست کھاجاتیں تو اس کا مطلب ہوتا کہ اب ووٹروں نے نواز شریف فیملی پر اعتماد نہ کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے کی حمایت کی ہے کہ چونکہ نواز شریف نے اپنی دولت سمندر پار چھپائی ہوئی ہے ، اس لئے وہ ملک پر حکومت کرنے کیلئے صادق اور امین نہیں رہے ۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقے، این اے 4 میں تحریک ِ انصاف کی شکست سے یہ پیغام جاتاکہ اس پر رائے دہندگان کے عدم اعتماد کی وجہ اس کی صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی ہے، چنانچہ 2013ء کے عام انتخابات میں شاندار فتح حاصل کرکے بعد اب اس کے ووٹ بنک میں کمی کا رجحان نمایاں ہے ۔ تحریک ِ انصاف، جس نے 2013ء کے عام انتخابات میں پشاور شہر اور ضلع میں بھرپور کامیابی حاصل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی چاروں اور صوبائی اسمبلی کی گیارہ میں دس نشستیں جیت لی تھیں، کیلئے اس ضمنی الیکشن میں ناکامی ایک بہت بڑا دھچکا ہوتی ۔ مزید براں، تحریک ِ انصاف نے 2013 ء میں این اے 4 سے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس کے امیدوار ، ریٹائرڈ سینئر سرکاری افسر، گلزار خان نے 55,134ووٹ حاصل کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کے ناصر موسیٰ زئی کو 35,000 ووٹوں سے شکست دی تھی ۔ پاکستان تحریک ِ انصاف گلزار خان کے انتقال سے خالی ہونے والی اس نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں شکست کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی ، خاص طور پر اگر یہ 2018 کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں بھی کامیابی حاصل کرنے کے دیگر سیاسی جماعتوں ، خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نواز، جو ابھی تک ایک طاقتور سیاسی جماعت ہے ، کو شکست دینے کی امید رکھتی ہے ۔ تاہم عوامی نیشنل پارٹی کے دوبارہ ابھر کر سامنے آنے کی وجہ سے این اے۔ 4 میںتحریک ِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان ہونے والی دوبدو مبارزت سہ فریقی مقابلے میں بدل گئی ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار خوشدل خان پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار ناصر خان موسیٰ زئی سے چوراسی ووٹوں کی سبقت لیتے ہوئے دوسرے نمبر پر رہے ۔ کامیاب امیدوار تحریک ِ انصاف کے ارباب عامر ایوب تھے ۔ درحقیقت این اے 4 ، جو بڑی حد تک دیہی علاقے پر مشتمل ہے ، کئی سالوں تک عوامی نیشنل پارٹی کا روایتی گڑھ رہا ہے ۔ ارباب محمد ظاہر مرحوم نے اس حلقے کی نئی حد بندی ہونے سے پہلے اور بعد میں اے این پی کے ٹکٹ پر چار مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی ۔اس خاندان کی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رہی ہے ۔ ارباب ظاہر کے والد، ارباب نورمحمد خان ایک پکے مسلم لیگی تھے ، جبکہ اُن کے چھوٹے بھائی ، ارباب عامر ایوب ، جنہوں نے حال ہی میں پاکستان تحریک ِ انصاف میں شمولیت اختیار کی ، ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے قومی اسمبلی میںرکن منتخب ہوگئے ہیں۔
حالیہ برسوں میںایسے دومواقع تھے جب این اے ۔ 4 سے عوامی نیشنل پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2002 ء میں چھ مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ، ’’متحدہ مجلس ِعمل‘‘(ایم ایم اے)یہ نشست جیتنے میں کامیاب رہا جب جماعت ِاسلامی کے صابر حسین اعوان یہاں سے رکن ِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ اُس وقت متحدہ مجلس ِعمل نے افغانستان پر امریکی حملے کی وجہ سے اس روایت پسند صوبے میں ابھرنے والے امریکہ مخالف جذبات کافائدہ اٹھایا ۔ اس کی انتخابی مہم پر امریکہ مخالف اور افغان طالبان کی حمایت کی چھاپ دکھائی دی۔ 2013 ء میں عوامی نیشنل پارٹی کو دوسری مرتبہ شکست سے دوچار ہونا پڑا جب عمران خان کی مقبولیت نے تحریک ِ انصاف کو خیبر پختونخوا میں زبردست انتخابی کامیابی دلادی ۔ اب عوامی نیشنل پارٹی خود سے دور ہوجانیوالے کارکنوں اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی بتدریج کوشش کررہی ہے ، لیکن اس کی بحالی اتنی جاندار نہیں جو پاکستان تحریک ِ انصاف کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دے ۔ بہرحال 2018ء کے عام انتخابات میں دونوں جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے ، خاص طور پر وادیٔ پشاور میں جہاں عوامی نیشنل پارٹی ایک جاندار سیاسی قوت رہی ہے ۔
این اے ۔ 4کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک ِ انصاف نے اُن علاقوں تک بھی اپنی جڑیں پھیلا لی ہیں جہاں 2013 ء کے عام انتخابات کے وقت اس کا تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں تھا ۔ اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں کامیابی تحریک ِ انصاف کی اتفاقی فتح نہیں تھی ۔ اس کے امیدوار ، ارباب عامر ایوب نے ضمنی الیکشن میں 45,734 ووٹ حاصل کرتے ہوئے شاندارکامیابی حاصل کی ۔ اُنھوں نے دوسرے نمبر پر آنیوالے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار، خوشدل خان کو 20,859ووٹوں سے ہرایا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو صوبے میں حکومت ہونے کا کوئی نقصان نہ ہوا، بلکہ اس پارٹی کو فائدہ ہی ہوا کیونکہ اس کے صوبائی اسمبلی کے ارکان کو حاصل ترقیاتی فنڈز اور سیاسی اثر ورسوخ نے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد دی ۔
تاہم اگر 2013ء کے انتخابی نتائج کو دیکھیں تو تحریک ِانصاف کو ملنے والے ووٹوں میں 9,400 کی کمی دیکھنے میں آئی ۔ دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدواروں نے اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جتنے 2013 ء کے الیکشن میں حاصل کیے تھے ۔ تحریک ِ انصاف کو ملنے والے ووٹوں میں کمی کی وجہ رکن اسمبلی گلزار خان مرحوم کے بیٹے اسد گلزار کی ضمنی الیکشن سے ٹھیک پہلے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت تھی ۔ اسد گلزار کو احساس ہوگیا تھا کہ تحریک انصاف اُنہیں اس حلقے سے ٹکٹ نہیں دے گی کیونکہ اُن کے والد مرحوم کے پارٹی قیادت کے ساتھ اختلافات سامنے آچکے تھے ۔ گلزار خان اُس وقت پارٹی میں غیر فعال ہوگئے جب اُنھوں نے عمران خان کی ہدایت پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے سے انکارکردیا۔ گلزار خان کا موقف تھا کہ اگر استعفوں کے ذریعے اُس وقت کے وزیر ِاعظم نواز شریف پر اقتدار چھوڑنے اور تازہ انتخابات کا اعلان کرنے کیلئے دبائو بڑھانا مقصود ہے تو تحریک انصاف کے ارکان ِ صوبائی اسمبلی بھی استعفے دیں اور صوبائی حکومت سے نکل جائیں۔ چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی این اے ۔4 سے کوئی مضبوط امیدوار نہیں رکھتی تھی، اس لئے اس کے رہنما، آصف علی زرداری نے فوراً ہی اسد گلزار کو ٹکٹ دے دیا ۔ اُنہیں امید تھی کہ وہ ان کے سابق امیدوار ، مصباح الدین سے بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کریں گے جو 2013 ء کے عام انتخابات میں صرف 12,031 ووٹ لے سکے تھے ۔ ضمنی الیکشن میں اسد گلزار مصباح الدین سے قدرے بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے 13,200 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ اس کی وجہ اُن کے والد مرحوم کی علاقے کے لوگوں کی خدمات تھیں ۔ اُنھوں نے سول سروس کے اعلیٰ عہدے رکھتے ہوئے علاقے کے لوگوں کی خدمت کی تھی ۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی ’’قابل ِ انتخاب‘‘ ، اربا ب عامر ایوب پر تکیہ کیا حالانکہ وہ پارٹی میں نووارد تھے اور اُنہیں ٹکٹ دینے کی وجہ سے پارٹی کے پرانے کارکن ناراض بھی تھے ۔ اُن میں سے کچھ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن پھر اُنہیں قائل کرنے کی بھرپور کوششیں دیکھنے میں آئیں اور اُنہیں منا لیا گیا۔ اس وقت جبکہ جولائی 2018 ء میں ہونے والی عام انتخابات قریب آتے جارہے ہیں، بہت سے ممکنہ ’’قابل ِ انتخاب‘‘تحریک ِ انصاف کی صفوں میں شمولیت اختیار کرتے دکھائی دے سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت کے باقی عرصے کے دوران اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ اس صوبے کے عوام اپنے حکمرانوں کا سیاسی احتساب کرنے کی شہرت رکھتے ہیں اگر وہ اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوجائیں۔