• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو غلطیاں بھٹو صاحب نے کیں وہیں آج نوازشریف کررہے ہیں۔بھٹو صاحب کو بھی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109میں شامل کرنے کے بعد کئی مواقع ملے مگر وہ اڑے رہے ۔نوازشریف کو بھی نااہلی کا تحفہ ملنے کے بعد مواقع ملے مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے۔بھٹو صاحب نے بھی صورتحال کو سمجھنے میں غلطی کی اور نوازشریف بھی حد سے زیادہ پر اعتماد رہے۔بھٹو صاحب کو یقین تھا کہ ضیا الحق انہیں پھانسی نہیں دے گا ،نوازشریف کو بھی یقین تھا کہ انہیںنااہل نہیں کیا جائے گا۔مگر دونوں مواقع پر صورتحال کو صحیح طور پر پرکھا نہیں جاسکا۔جس دن بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو انہیں گرفتار کرکے پنجاب ہاؤس مری لایا گیا۔اگلے دن ضیا الحق بھٹو صاحب سے ملنے پنجاب ہاؤس گئے اور انہیں سیلوٹ کیا،بھٹو صاحب نے غصے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ Get away, Your are a usurper, I don't want to see your face.۔بھٹو صاحب کے اس رویے کے بعد ضیا الحق وہاں سے اٹھ کر چلے آئے ۔اسی طرح بھٹو صاحب کی درخواست ضمانت پر جسٹس ضمدانی نے انہیں رہا کیا تو بھٹو صاحب لاڑکانہ کے لئیے روانہ ہوگئے۔لاڑکانہ کے نزدیک موئنجودڑوائیر پورٹ پر جب طیارہ لینڈ کیا تو اسی جہا ز میں ایک حاضر سروس برگیڈئیر بھی سوار تھے۔بھٹو صاحب جہاز سے اترنے کے بعد ائیر پورٹ پر کھڑے رہے اور اس برگیڈئیر کے نیچے آنے کا انتظار کرنے لگے۔جب وہ برگیڈئیر نیچے آئے تو بھٹو صاحب اس کے قریب گئے اور کالر سے پکڑ کر کہنے لگے کہ The day is not far away when you people will be hanged.۔اس بر گیڈئیر نے آرمی چیف جنرل ضیاالحق کو خط لکھا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔یوں معاملات بگڑتے چلے گئے اور پیپلزپارٹی کا بانی تختہ دار تک پہنچ گیا۔سابق وزیراعظم نوازشریف کے کیس میں بھی قدریں مشترک ہیں۔نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد دور دور تک کوئی چیلنج نظر نہیں آرہا تھا۔اپنی مرضی کا انٹیلی جنس چیف لگانے کے بعد سویلین حکومت بہت پر سکون محسوس کررہی تھی۔مگر یہ خاکسار ان چند لوگوں میں تھا جو مسلسل خطرے کی نشاندہی کررہا تھا۔ڈان لیکس کے معاملے میں ٹوئٹس کے آنے پر اختلافات بڑھے۔مسلم لیگ ن میں موجود مفاہمت پسند گروہ کی خواہش تھی کہ ٹوئٹس معاملے کو نظر انداز کرکے آگے بڑھا جائے مگر ایک اقلیتی گروہ نے نوازشریف کو مجبور کیا کہ عسکری قیادت سے بات کرکے ٹوئٹس واپس لیا جائے۔ٹوئٹ تو واپس ہوگیا مگر دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔پورا ادارہ مسلم لیگ ن کے خلاف ہوگیا۔جان بوجھ کر پاناما کیس میں اپنا کردار بڑھایا گیا۔حالات خرابی کی طرف بڑھتے رہے۔نوازشریف صاحب کو یقین تھا کہ مجھے نااہل نہیں کیا جائے گا۔اربوں روپے لگا کر بہتر ہونے والی سویلین انٹیلی جنس کی رپورٹ بھی یہی تھی کہ نوازشریف نااہلی سے بچ جائیں گے۔بلکہ مجھے یاد ہے کہ جس شام سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے آگاہ کیا کہ پاناما کیس کا فیصلہ فلاں دن سنایا جائے گا۔اس سے چند منٹ قبل وزیراعظم کے ایک قریبی قانونی مشیر وزیراعظم ہاؤس گئے۔نوازشریف نے ان سے پوچھا کہ پاناما کا فیصلہ کب آئے گا تو انہوں نے اطمینان سے جواب دیا کہ فلاں جج ملک سے باہر جارہے ہیں اور میری اطلاعات کے مطابق اگلے 20دن فیصلہ آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ابھی موصوف گفتگو کرکے گئے ہی تھے کہ ٹی وی چینلز پر شور شرابا شروع ہوگیا کہ پاناما کا فیصلہ پانچ رکنی بنچ سنائے گا۔بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس لیول پر اس قسم کی معلومات آرہی تھیں۔بہرحال تین دو کے فیصلے میں نوازشریف فوری نااہلی سے بچ گئے۔بہترین موقع تھا کہ معاملات کو حل کرلیا جاتا۔ایک سابق عسکری انٹیلی جنس سربراہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے ادارے کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پلان اے تھا مگر پلان بی موجود نہیں تھا۔نوازشریف کی نااہلی پلان اے تھی۔مگر پلان بی کی غیر موجودگی میں نوازشریف باآسانی پلان بی کا حصہ بن سکتے تھے۔مگر ایسا نہیں کیا گیا۔جے آئی ٹی معرض وجود میں آئی تو وزیراعظم کو اطلاعات دی گئیں کہ تمام ممبران پر پوری نظر ہے۔بھلا دو مہینے میں چھ دھائیوں کا حساب کیسے ممکن ہے؟ مگر سابق سربراہ کے دور میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے بعد کرپشن کے خلاف آپریشن کا نعرہ بلند کیا گیا تو پنجاب اور وفاقی اداروں میں نوازشریف ایک رکاوٹ بن گئے۔مگر پچھلے دو سالوں میں مکمل رپورٹس اور جامع تحقیقات کی گئیں۔پنجاب اور وفاق میں جن لسٹوں اور ثبوتوں کا ذکر کیا جاتا تھا دراصل جے آئی ٹی کا والیم ایک تا دس انہی ثبوتوں کا ایک حصہ تھا۔جے آئی ٹی کو تیار شدہ والیم وہیں سے ملے اور یوں نوازشریف خود اعتمادی میں مارے گئے۔نااہلی کے بعد پھر موقع تھا کہ کسی نہ کسی بات پر مذکرات کامیاب کرلئیے جائیں۔مگر موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ اور پھر مجھے کیوں نکا لا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔رائیونڈ میں باعزت واپسی کے بعد پھر ایک گروپ نے حالات بہتری کی طرف لیجانے کی کوشش کی مگر اس مرتبہ مسلم لیگ ن کے اکابرین کی عدالت کے حوالے سے گفتگو رکاوٹ بن گئی۔نظر ثانی کی درخواست میں جو کچھ ہوا ،اس نے مستقبل کی تصویر واضح کردی ہے۔نمازیں بخشوانے گئے تھے ،روزے بھی ساتھ لے آئے ہیں۔سپریم کورٹ نے بھی جلسے جلسوں اور میڈیا ٹاکس میں اپنے حوالے سے ہونے والی تنقید کا خوب جواب دیا۔مگر اب گیم اوور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔خاندان کے چند افراد کی تلخ گفتگو کی قیمت وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو بھی ادا کرنی پڑے گی۔گزشتہ دس سالوں کے دوران کھربوں روپے کے منصوبوں میں سے تو کچھ نہیں مل سکا،البتہ پاتال میں پڑے ہوئے ایسے کیس میں روح پھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے،جس میں کروڑوں کا معاملہ شریف خاندان کے ذاتی کاروبار سے متعلق ہے۔حدیبیہ کوئی امریکا یا بھارت میں نہیںتھی بلکہ پاکستان میں لگا ہوا یک کارخانہ تھا،جو میاں شریف مرحوم نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے لگایا تھا۔ایک ایسا کارخانہ جو نہ صرف پاکستانی معیشت کو فائدہ پہنچارہا تھابلکہ ہزاروں خاندانوں کے گھر بھی چلا رہا تھا۔اس کارخانے سے ہونے والی جائز کمائی کو منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجنے کا الزام لگایا گیا۔اسحاق ڈار کے جس بیان کو جواز بنا کر کیس میں صور پھونکا جارہا ہے۔اس بیان کو لاہور ہائیکورٹ مسترد کر چکی ہے۔عدالت کیس کو ختم کرچکی ہے۔اپیل کرنے کا ایک مقررہ وقت ختم ہوچکا ہے۔مگر اس کے باوجود نئے معیار مقرر کئیے جارہے ہیں۔بہرحال قوم سب کچھ دیکھ رہی ہے۔لیکن میری اطلاعات کے مطابق شہباز شریف اپنا کیس پوری قوت اور مضبوط اعصاب کے ساتھ لڑنے کے موڈ میں ہیں مگر وہ کسی بھی قیمت پر اداروں سے لڑنا نہیں چاہتے۔ان کا واضح موقف ہے کہ جو کچھ بھی ہوجائے مگر اداروں پر تنقید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سپریم کورٹ کی بالادستی اور فوج کی مضبوطی کے خواہاں ہیں۔اپنے کیس کے سیاسی اور قانونی دونوں پہلوؤں کا مقابلہ کریں گے مگر اداروں سے کبھی نہیں ٹکرائیں گے۔ویسے جاتے جاتے نوازشریف کے لئیے چند اشعار گوش گزار کردیتا ہوں
کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں
میں کم شناس مروت میں مارا جاؤں گا
مجھے بتایا ہوا ہے میری چھٹی حس نے
میں اپنے عہد خلافت میں مارا جاؤں گا
اور
میں چپ رہاتو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
دوسری کسی بھی صورت میں مارا جاؤں گا

تازہ ترین