لاہور (نمائندہ جنگ) پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے اکتوبر میں سول حکومت اورفوج کی اہم سرگرمیوں کا تجزیہ کیاہے۔ سول ملٹری تعلقات میں حالیہ دنوں میں قوم کے سامنے سب سے زیادہ کشمکش اس وقت دیکھنے میں آئی جب وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کوسابق وزیراعظم نوازشریف کے مقدمہ کی سماعت کے دوران رینجرز نے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں داخلے سے روک دیا تھا۔ جب وزیر داخلہ نے جوڈیشل کمپلیکس کے گیٹ پر موجود رینجرز کے ایک سپاہی سے کہا کہ وہ اندر موجود کمانڈر سے میری بات کرائے جبکہ کمانڈر نے خود کو ظاہر نہیں کیاتھا۔ احسن اقبال نے واضح اور درست طور پر دعویٰ کیا تھاکہ قانونی طور پر وزارت داخلہ رینجرز کی انتظامی وزارت ہے۔ سول انتظامیہ کے تحت داخلی انکوائری کی تکمیل کے بعد احسن اقبال نے 3اکتوبر کو بیان جاری کیا کہ سول انتظامیہ کسی رابطے کے حوالے سے ذمہ دار نہیں ہے جس کے نتیجے میں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔ 4اکتوبر کے ایک تحریری حکم کے ذریعے پارلیمنٹ سے رینجرز کی ڈیوٹی ختم کردی گئی تھی۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ڈی جی رینجرز پنجاب نے وزارت داخلہ کو کیا وضاحت پیش کی تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنر ل آصف غفور نے 5اکتوبر کو ایک تفصیلی پریس کانفرنس کی جس میں ایونٹس کے حوالے سے تفصیل بیان کی گئی تھی۔ سیکورٹی پر ایک سیمینار میں آرمی چیف نے معیشت پراپنے کمنٹس دیئے تھے۔ بعد ازاں ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا بھی یہ کہنا تھا کہ اگر معاشی صورت حال بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے۔ اس پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے فوری ہی ایک پریس ریلیز جاری کی کہ آئی ایس پی آر معیشت پر تبصرہ نہ کرے۔ اس وقت وزیر داخلہ امریکہ میں تھے اور عالمی بینک کے ساتھ اجلاس منعقد کررہے تھے۔ آرمی چیف کے کمنٹس پر ان کا کہنا تھا یہ ریاست کے کسی بھی ادارے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی دوسرے ریاستی ادارے کی پالیسی کے کسی پہلو پر کھلے عام تبصرہ کرے۔ اس حوالے سے مناسب چینلز اور فورمز موجود ہیں جن پر ادارے متعلقہ حلقوں کو اپنے خیالات پہنچا سکتے ہیں اور ایسے چینلز اور فورمز استعمال کئے جانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ رابطے کے لئے ایسے چینلز کو کھلا رکھے اور تبادلہ خیالات کے لئے ایسے فورمز موجود ہیں۔ ایگزیکٹو اتھارٹی کی سکیم جیسا کہ تصور کیا گیا اور آئین پاکستان نے اس کو جگہ دی کہ وفاقی حکومت فورسز پر کمانڈ اور کنٹرول کی انچارج ہے،وفاقی حکومت فورسز پر اپنے کمانڈ اور کنٹرول کو وزارت دفاع جسکا سربراہ وزیر دفاع ہوتا ہے ،کے ذریعے چلاتی ہے،تاہم بظاہر وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر کے کیس میں جو آئی ایس پی آر نے گفتگو رپورٹ کی اسکے مطابق انہوں نے 10اکتوبر کو جی ایچ کیو میں آرمی چیف سے ملاقات کی جبکہ اسے اسکے الٹ ہونا چاہئے تھا،اسکے مطابق خرم دستگیر نے نیول ہیڈکوارٹر میں نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی سے بھی ملاقات کی۔