گزشتہ ماہ جرمنی جانے کا اتفاق ہوا جہاں میں نے فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہوئے جو بات محسوس کی وہ دنیا بھر کی قومی و نجی ایئرلائنز کے رنگ برنگے طیارے تھے جو اپنے اپنے ممالک کی بھرپور نمائندگی کررہے تھے، فرینکفرٹ ایئرپورٹ کو دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جہاں دنیا کی پہلی باقاعدہ ایئرلائن قائم ہوئی تھی بحیثیت پاکستانی افسوس کا مقام تھا کہ وہاں وطن عزیز کی نمائندگی کرنے کیلئے قومی ایئرلائن پی آئی اے موجود نہ تھی۔ پی آئی اے ہماری قومی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے جس نے ماضی میں پاکستان کا نام روشن کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، پی آئی اے اپنے قیام سے قبل اورینٹ ایئرویز کے نام سے جانی جاتی تھی، 1955 میں ملکی ایئرلائنز کو یکجا کرکے پی آئی اے کو ایک کارپوریشن کا درجہ دے دیا گیا، پی آئی اے کو ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے جیٹ انجن والے بوئنگ 737جہاز چلائے بلکہ یہ دنیا کی پہلی ایئر لائن ہے جس نے بوئنگ 777۔200 ایل آر جہاز حاصل کئے۔ پہلی ایئرلائن بھی ہے جس نے مسافروں کی تفریح کیلئے دورانِ پرواز فلم دیکھنے کی سہولت فراہم کی، ایک زمانے میں چین کی فضاؤں میں اڑنے کی اجازت غیرملکی ایئرلائنز میں صرف پی آئی اے کو حاصل تھی، کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کے توسط سے بیجنگ کا جو خفیہ دورہ کیا تھا اس کے لئے بھی پی آئی اے کی پرواز استعمال کی گئی تھی۔ پی آئی اے کا ایک اور شاندار کارنامہ نیویارک تک رسائی حاصل کرنا تھا، اس وقت سوویت یونین جیسی سپرپاور بھی نیویارک فلائٹس کی استطاعت نہ رکھتی تھی، مڈل ایسٹ، چین، ملائشیا، انڈونیشیا، افریقہ سمیت خطے کے باشندوں کے پاس امریکہ جانے کا واحد آپشن کراچی سے نیویارک کی فلائٹ پکڑنا ہوا کرتا تھا۔ پاک بھارت جنگوں میں پی آئی اے نے پاک فضائیہ کو ٹرانسپورٹ فراہم کی، پی آئی اے نے مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی جس کی بنا پر بہترین فضائی سروس کے بے شمار عالمی ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئی، پی آئی اے نے مختلف ادوار میں اپنے جہازوں کی برانڈنگ کیلئے مختلف انداز اختیار کئے، 1960 کی دہائی میں جہاز کی دم پر اوپر نیچے ستاروں کی لائن اور درمیان میں انگریزی حروف ’’PIA‘‘اور مرکزی حصے پر ’’پاکستان انٹرنیشنل‘‘ لکھا جاتا تھا، طیاروں پر ایک سبز لائن بھی ہوتی تھی جو جہاز کی ناک سے دم تک سیدھی آتی تھی، اسی طرح باکمال لوگ- لاجواب سروس اور گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد جیسے سلوگن نے خاصی مقبولیت پائی۔ دِل تو میرا بہت چاہ رہا ہے کہ میں اپنے ملک کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی قابلِ فخر تاریخ پر روشنی ڈالتا رہوں لیکن حقیقت پسندانہ سوچ کا حامل ہونے کی وجہ سے چاہتا ہوں کہ ہماری ترجیح صرف ماضی کے سنہرے ایام کو یاد کرنا ہی نہ ہو بلکہ پھر سے اپنی قومی ایئرلائن کو اپنے قدموں میں کھڑا کرنا ہونی چاہئے۔ جس خبر نے حقیقت میں مجھے افسردہ کردیا وہ پی آئی اے کی طرف سے نیویارک کیلئے پروازوں کا سلسلہ منقطع کرنے کا اعلان ہے، وائس آف امریکہ کے بقول پی آئی اے نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان 1961 میں پروازیں شروع کرکے تاریخ رقم کی تھی، براہ راست پروازیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے شکاگو اور نیویارک جاتی تھیں، ان روٹس پر ماضی میں پی آئی اے نے کئی سو ارب روپے کمائے لیکن اب انہی روٹس پر ائیرلائن کو گھاٹے کا سامنا تھا۔ پی آئی اے کے حالیہ بحران پر بہت کچھ میڈیا کی زینت بنتا رہا ہے، آج پی آئی اے پر بلاشبہ کڑا وقت ہے لیکن ہمت، حوصلے اور صحیح حکمت عملی سے تمام بحرانوں پر قابو پایا جاسکتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم تمام حقائق کا غیرجانبداری سے جائزہ لیں۔ میری نظر میں پی آئی اے کی تباہی کا اہم فیکٹر علاقائی سیاست بھی ہے جس کو عمومی طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت جب پی آئی اے نے اپنی اعلیٰ کارکردگی سے برٹش ایئرویز اور ایئرانڈیا سمیت دنیا بھر کی ایئرلائنز کو پیچھے چھوڑ دیا تھا تو بھارتی حکومت نے ایک بھارتی مسافر طیارے کے اغوا کو جواز بنا کر پی آئی اے پر اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی لگادی، قیامِ بنگلہ دیش سے قبل پی آئی اے کے ریونیو کا ایک بڑا حصہ ملک کے دونوں حصوں کیلئے پروازیں چلانے سے آتا تھا لیکن 1971 کے بعد فضائی رابطہ تعطل کا شکار ہوگیا جس سے پی آئی اے کو خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ آج پی آئی اے کی نیویارک کیلئے فلائٹس بند کرنے کی بڑی وجہ صرف مالی خسارہ نہیں بلکہ امریکہ کی نئی سیکورٹی پالیسی بھی ہے جس کے مطابق پی آئی اے کو امریکہ کے لئے براہ راست پروازوں کی اجازت نہیں، نہ صرف پی آئی اے کو برطانیہ کے مانچسٹر ائیرپورٹ پر طیاروں کی اضافی لینڈنگ، مسافروں اور عملے کا قیام اور ٹیک آف کرنے پر مجبور کردیا گیا تھا بلکہ سیکورٹی کی وجوہات کو بنیاد بنا کر پی آئی اے کے طیاروں کی مکمل چیکنگ بھی ایک مرتبہ پھر کی جاتی تھی۔ پی آئی اے کے عملے میں موجود چند کالی بھیڑوں کے سیاہ کارنامے بھی پی آئی اے کے راستے میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں، کبھی پائلٹ نشے میں دھت پایا جاتا ہے تو کبھی ایئرہوسٹس سے ہیروئن برآمد، اسی طرح مسافروں سے ناروا سلوک اور سامان گم ہوجانے کی شکایات ایک عام بات بنتی جارہی ہیں۔ دوسری طرف غیرملکی ایئرلائنز کو بنا سوچے سمجھے ملک میں لینڈنگ رائٹس عطا کئے جانے سے پی آئی اے کے مفادات پر ضرب لگی، آج ہمارے پاس بس یہی قابلِ فخر بات رہ گئی ہے کہ موجودہ دور کی بہترین ایرلائنز ایمریٹس، اتحاد، قطر ایئرلائنز کو بنانے والے کبھی پی آئی اے کے ملازمین ہوا کرتے تھے۔ میں بالکل متفق ہوں کہ دنیا کی دیگر ایئرلائنز اپنی افرادی قوت کیلئے پی آئی اے سے کہیں زیادہ خرچ کرتی ہیں لیکن صرف اپنی ضروریات کے مطابق، ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسے غیرضروری ملازمین کی پی آئی اے میں فراوانی ہے جن کی تنخواہ بھی کام اور اہلیت کے لحاظ سے غیرمتوازن ہے، مثال کے طور پر پی آئی اے کے اڑتیس طیاروں کیلئے انجینئرز کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہے، ٹرکش ایئرلائن کے پاس ساڑھے تین سو جہاز ہیں لیکن اتنے زیادہ انجینئرو ہاں بھی بھرتی نہیں۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہر دور میں ہر جماعت نے نااہل سیاسی کارکنوں کو پی آئی اے جیسے اہم قومی ادارے میں بھرتی ضرور کرایا لیکن بہتری کا کسی نے نہ سوچا۔ آج ملازمین کی گنجائش سے زیادہ تعداد کی وجہ سے پی آئی اے کو ایسا ٹائی ٹینک قرار دیا جارہا ہے جو کسی وقت بھی ڈوب سکتا ہے۔ پی آئی اے کو نقصان پہنچانے کی بڑی ذمہ داری یونینز پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے سیاسی اشیرباد کی بنا پر نہ صرف انتظامی امور میں مداخلت کی بلکہ خلافِ قانون فضائی آپریشنز مفلوج کرنے میں بھی ملوث رہی، اسی طرح قیادت کا فقدان، خارجہ پالیسی، غیرموزوں افسران، بدانتظامی اور کرپشن جیسے عوامل بھی پی آئی اے کو عالمی فضاؤں میں رواں دواں رکھنے میں رکاوٹ ثابت ہورہے ہیں۔ آج بحرانوں میں گھری پی آئی اے کیلئے سنبھلنے کا اہم موقع ہے کہ ملک میں ایک ایسا وزیراعظم برسراقتدار ہے جو خود بھی پائلٹ ہے بلکہ ایک کامیاب ایئرلائن چلانے کا تجربہ بھی رکھتا ہے۔ میری نظر میں پی آئی اے کے موجودہ بحران کا واحد حل یہی ہے کہ پی آئی اے میں فوری طور پر رائٹ پرسن ایٹ رائٹ پلیس کا اصول لاگو کردیا جائے جس کے تحت موجودہ بورڈ تحلیل کردیا جائے اور میرٹ پر متعین نیا بورڈ اپنا مستقل سربراہ خود منتخب کرکے دیگر عالمی ایئرلائنز سے صحتمندانہ مقابلے کی فضا میں مسافروں کو بہترین سفری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے جدت پسندانہ منافع بخش پالیسیاں وضع کی جائیں۔