• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہ محمود قریشی اور جان کیری کی پریس کانفرنس!...روزن دیوار سے…عطا الحق قاسمی

اس وقت میرا ذہن شاہ محمود قریشی اور جان کیری کی حالیہ پریس کانفرنس میں ”سینڈوچ“ بنا ہوا ہے تاہم مجھے شاہ محمود قریشی صاحب کی پریس کانفرنس زیادہ دلچسپ محسوس ہوئی۔ قریشی صاحب اس پریس کانفرنس میں خودکو ذوالفقار علی بھٹو سمجھ رہے تھے جنہوں نے معاہدہ تاشقند کے بعد قوم سے اسی انداز میں خطاب کیا تھا اور اس کے نتیجے میں قوم نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا، مگر ذوالفقار علی بھٹو کی ”وردی“ قریشی صاحب کے جسم کے ماپ کے مطابق نہیں لگ رہی تھی چنانچہ اس ڈھیلی ڈھالی ”وردی“میں وہ الٹا Clown دکھائی دے رہے تھے۔ شاہ محمود قریشی کی سیاست ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھ کر متعین ہوتی رہی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے پیدا کردہ حالیہ ”بحران“ سے پہلے کی ان کی سیاسی زندگی کم و بیش اسی نہج پر گزری ہے جس نہج کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے اپنے ”اسٹینڈ“ کا ذکر کیا اور وزارت ِ خارجہ سے دستبرداری پر قوم سے داد چاہی مگر میرے ایسے ”شکّی“ القلب لوگ ان کے اس اقدام کو بھی بوجوہ شک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ قریشی صاحب نے اس پریس کانفرنس میں کچھ ایسے بین الاقوامی واقعات کاذکر کیا جس میں انہوں نے پاکستان کے مفادکو ہر چیز پر فوقیت دی۔ میں حیرت سے ان کی باتیں سنتا رہا کیونکہ یہ سب کچھ انہوں نے اپنی ذاتی پالیسی کے تحت نہیں کیا، مگر وہ یہ سب کچھ بھی اپنے کھاتے میں ڈالتے رہے۔کچھ عرصے سے قریشی صاحب کی امیج بلڈنگ ایک مربوط طریقے سے کی جارہی ہیں اور انہیں ایک عظیم مدبر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جبکہ واقف ِ حال لوگوں کا قیاس ہے کہ موجودہ حکومت اکتوبر تک فارغ ہو رہی ہے اور مرغ بادِ نما سیاست دان بھی وقوع پذیرہونے والی اس تبدیلی سے واقف ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ ایک عرصے سے اس کوشش میں مشغول ہے کہ ملک کا وزیراعظم ایسا ہو جس کی ڈوری اس کے ہاتھ میں ہو اور وہ اس کے اشارے پر کٹھ پتلیوں کی طرح ناچے۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ آنے والے د ن نواز شریف کے ہیں جن کا راستہ روکنا ضروری ہے کہ یہ شخص بیک وقت امریکی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ”سوٹ“ نہیں کرتا چنانچہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے لے کر شاہ محمود قریشی کی امیج بلڈنگ تک کے تمام اقدامات اسی مقصد کیلئے ہیں۔ میں جناب شاہ محمود قریشی صاحب سے معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لفظوں کو چبا چبا کر بولنے کے باوجود وہ کبھی عوام کو متاثر نہیں کرسکے۔ وہ جب ”شعلہ بیانی“ بھی کرتے ہیں تو ان کی تقریر کاانداز اور اس کے Content کامعیار انٹر کالجیٹ ڈیبیٹ میں کی جانے والی تقریروں سے زیادہ بلند نہیں ہوتا۔ شخصی لحاظ سے بھی وہ ان خوبیوں سے محروم ہیں جو ان کے والد محترم سجاد حسین قریشی کے جاگیردارانہ اور متولیانہ پس منظر کے باوجود ان میں موجود تھیں۔ وہ نہایت وضعدار اور منکسر المزاج انسان تھے۔ اس کے علاوہ علم و ادب کے دلدادہ تھے جبکہ ان خوبیوں سے ”مبر ّا“ ہونے کے ساتھ ساتھ جناب شاہ محمود قریشی نے اپنی پریس کانفرنس میں جو دو اشعار پڑھے وہ دونوں بے وزن پڑھے۔ میرے نزدیک وہ خود بے وزن ہیں لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کو ان کی ”قیمت“ ان کے ”وزن“ کے مطابق لگانا چاہئے!
اور جہاں تک امریکی سنیٹر جان کیری کی پریس کانفرنس کا تعلق ہے ، اسے بہت محدود کردیا گیا تھا۔ مجھے اس میں حامدمیر، کامران خان، طلعت حسین، نصرت جاوید، عرفان صدیقی، مجیب الرحمن شامی، انصاری عباسی، ہارون رشید، جاوید چودھری، محمدمالک، کاشف عباسی، سلیم صافی اور بعض دوسرے نمایاں اہمیت کے حامل میڈیا پرسن نظر نہیں آئے۔ اگر کوئی نظر آیا تو میرا ایک اینکر دوست تھا جو پاکستانی سیاستدانوں سے اپنے ٹاک شو میں ان پر اچھل اچھل کر الزامات کے وار کرتا ہے مگر یہاں اس کی آواز حلق میں پھنس گئی تھی اور اپنے ایک مودبانہ سوال سے پہلے اسے ”تشبیب“ کے اس مرحلے سے گزرنا پڑا تھا جس مرحلے سے ماضی کے شعراء کو بادشاہوں سے کچھ طلب کرنے سے پہلے گزرنا پڑتا تھا۔ بہرحال جان کیری کی پاکستان خصوصی آمد اور عمائدین سلطنت، نیز سیاست دانوں سے ملاقاتوں کے علاوہ پریس سے خطاب، میرے نزدیک ایک غیرمعمولی واقعہ ہے کیونکہ یہ سب کچھ ایک قاتل کو بچانے کے لئے کیا گیا اور اس قاتل کی واحد کوالی فکیشن یہ ہے کہ وہ امریکی شہری ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ تاثر قائم ہے کہ پاکستان امریکہ کی ایک نو آبادی ہے جہاں اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ حالانکہ ہم لوگ متعدد مواقع پر امریکی ڈکٹیشن کو خاطر میں نہیں لائے۔ ایٹم بم کی تیاری کے مراحل سے لے کر ایٹمی دھماکے تک ہم نے وہی کیا جو ہمارے مفاد میں تھا، ہماری ذلت کا سیاہ دور دراصل نائن الیون کے بعد پرویز مشرف کی بے قیمتی سے شروع ہوتاہے اور اس کے بعد ہماری وفاقی حکومت نے بھی امریکی اطاعت کی بھرپور کوشش کی، فوزیہ وہاب او رحمن ملک نے اس حوالے سے کھلم کھلا بیانات بھی دیئے چنانچہ جان کیری ان تمام امور اور قوم کے اجتماعی ردعمل سے بھی باخبر تھے سو پریس کانفرنس میں ان کا انداز ِ گفتگو بہت عاجزانہ نوعیت کا رہا۔ امریکہ کا رویہ بالکل پھنے خاں ایسا ہوتا ہے۔ وہ مخاطب کو ”یرکانے“ کی کوشش کرتاہے۔ اگر وہ نہ ”یرکے“ تو خود ”یرک“ جاتا ہے چنانچہ جان کیری کے تمام انداز اسی نوعیت کے تھے۔ مجھے لگتا ہے جان کیری پاکستان سے بہت مایوس واپس امریکہ لوٹے ہیں کیونکہ پاکستانی قوم کے کسی بھی طبقے سے انہیں اپنے موقف کے ضمن میں حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔ حتیٰ کہ وفاقی حکومت بھی اب اس ”اجماع امت“ کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ جان کیری اور امریکی حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ اپنی چھوٹی موٹی کمزوریوں کے باوجود ہم سب اول و آخر پاکستانی ہیں سوائے ان معدودے چند لوگوں کے جو ”اول اول “تو پاکستانی ہوتے ہیں مگر آخر میں امریکی ہو جاتے ہیں…!
اور اب آخری بات… مسلم لیگ(ن) اور ان کی پنجاب حکومت کا بے لچک رویہ، عوامی غیظ و غضب، میڈیا کا پریشر، سب اپنی جگہ لیکن ریمنڈ ڈیوس ان سب عوامل کے باوجودجلد یا بدیر پنجرے سے ”پھر“ کرکے اڑ جائے گا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں جتنی مزاحمت پاکستانی قوم نے کی ہے اور دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کو جس طرح اپنی خودمختاری کا جزوی احساس دلایا ہے موجودہ صورتحال میں وہ بھی قابل ستائش ہی نہیں حیران کن بھی ہے۔ خدا کرے ہم امریکہ کی محتاجی سے نکل جائیں تاکہ ہمیشہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں!
تازہ ترین