آسمان گرا، نہ زمین پھٹی، پہاڑ ٹوٹا نہ کہیں زلزلہ آیا، سنیٹر جان کیری آئے اور دن بھر پاکستانی رہنماؤں سے میل ملاقات، تبادلہ خیال، ان کی سننے اور اپنی سنانے کے بعد چلے گئے۔ ریمنڈ ڈیوس اب بھی جیل میں ہے۔ البتہ ان خوش فہموں اور عجلت پسندوں کو پریشانی ہوئی جو آس لگائے بیٹھے تھے کہ جان کیری ریمنڈ ڈیوس کو لینے آئے ہیں اور خصوصی طیارے میں ساتھ بٹھا کر ہی جائیں گے۔ کسی کی کیا مجال کہ جان کیری کو خالی ہاتھ لوٹا سکے۔
امریکی مغرور ضرور ہیں ایک سپر پاور کے شہریوں کو مغرور ہونا ہی چاہئے۔ طاقت کے نشے سے سرشار اور خبط عظمت میں مبتلا لیکن رہتے وہ بھی اسی دنیا میں اور گوشت پوست کے انسان ہیں۔ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کا محاورہ بھارتی بنیا کے بارے میں مشہور ہے لیکن امریکی بھی پرلے درجے کے بنیئے ہیں وہ بے مقصد اور بے فائدہ کسی کو چائے کی ایک پیالی نہیں پلاتے اور جس سے مفاد وابستہ ہو اس سے کسی قیمت پر بگاڑ پیدا نہیں کرتے۔ جنوبی ایشیا میں امریکہ کے مفادات کا بہترین محافظ پاکستان ہے۔ پاکستان کے عوام نہیں مملکت خداداد کی اشرافیہ حکمران، سیاستدان، بیورو کریٹس اور فوجی جرنیل۔ افغانستان سے باعزت اور محفوظ انخلا پاکستان کے بغیر ممکن نہیں تو ایک قاتل اور پرائیویٹ کمپنی کے ملازم کے لئے امریکہ اپنے مستقل مفادات کو داؤ پر کیوں لگائے اگرچہ یہ خوف بھی دامن گیر کہ اگر آج امریکی حکومت نے کرائے کے قاتل کے لئے کچھ نہ کیا تو کل کون اس پر تیار ہو گا؟
جان کیری خالی ہاتھ لوٹے ہیں مگر مایوس نہیں، اخباری اطلاعات کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کے لئے جنرل ضیاء الحق کے دور میں نافذ ہونے والے اسلامی قانون قصاص اور دیت کو بروئے کار لایا جائے گا، امریکہ اور پاکستان میں اس کے وظیفہ خواروں نے تحفظ ناموس رسالت اور قصاص و دیت کے اسلامی قوانین کے خلاف کیا اول فول نہیں بکا، مغرب کے فنڈ حاصل کرنے والی این جی اوز اور امریکہ کے مادر پدر آزاد عریاں اور گستاخ کلچر کے فروغ کیلئے کوشاں حلقوں نے ”کالے قانون“ کی بے ہودہ اصطلاح گڑی مگر آج امریکیوں اور پاکستان میں ان کے خود کاشتہ پودوں کو قصاص و دیت قانون کی افادیت نظر آ رہی ہے اگر چار پاکستانی شہریوں نے جان کی قربانی دے کر امریکہ جیسی فرعونی طاقت کو قرآنی احکامات کی افادیت تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے تو یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی لیکن عامتہ المسلمین اسے بھی حکومت کی کمزوری اور خون فروشی سے تعبیر کریں گے اس لئے مشتری ہوشیار باش۔
جان کیری کی آمد پر ہانتی کانتی اشرافیہ اور سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور حکومت کو قومی حمیت اور عوامی جذبات کے منافی فیصلہ کرنے سے گریز کی راہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی اور حضرت شاہ رکن عالم ملتانی کے مرنجان مرنج مگر غیرت مند سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے دکھائی جان کیری سے ملاقات کے بعد ان کی پریس کانفرنس میں مدلل و مربوط اور پُر عزم گفتگو نے کسی کو اس قابل ہی نہ چھوڑا کہ وہ آئین، قانون اور عوامی جذبات سے ہٹ کر کوئی عاقبت نااندیشانہ فیصلہ کر سکے بلاشبہ میاں شہباز شریف کا کردار جاندار اور میاں نواز شریف کا طرز عمل قابل تحسین رہا قومی امنگوں کے عین مطابق مگر وفاقی حکومت اور حکمران جماعت کو امریکہ نوازی سے شاہ محمود قریشی نے باز رکھا عزت کے ساتھ جینے اور وقار کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم حکومت کے راستے کی رکاوٹ بن گیا اور غیرت لابی کی یہ بات بھی درست ثابت ہوئی کہ اگر ہم امریکہ کے ساتھ معقولیت سے بات کریں، دلیل کے جواب میں دلیل مانگیں اور اصولی موقف پر ڈٹ جائیں تو اوبامہ ہو یا ہلیری کلنٹن باولے نہیں کہ خواہ مخواہ کاٹنے کو دوڑیں اور اپنے سٹرٹیجک مفادات کو قربان کرنے کی راہ پر چل پڑیں۔ وہ اپنے نفع و نقصان کو دیکھتے اور جانتے ہیں کہ ساری دنیا نہ تو امریکہ سے پوچھ کر سانس لیتی ہے اور نہ اس کے حکم پر چاند طلوع اور سورج غروب ہوتا ہے۔
اس خطے میں امریکی مفادات کے لئے پاکستان اہم ہے ماضی میں پابندیاں لگا کر امریکہ نے ہمیشہ کھویا ہے کچھ پایا نہیں۔ امریکہ کے اعلیٰ دماغ سیاسی و دفاعی ماہرین، سفارت کار اور دانشور یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ پابندیوں سے امریکہ کو نقصان اور پاکستان کو فائدہ پہنچا، امریکہ ہمارے ملازمت پیشہ سفارت کاروں، وظیفہ خوار دانشوروں اور مغلوب و مرعوب سیاستدانوں کی طرح احمق نہیں کہ نفع نقصان کی پروا کئے بغیر پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سو جان کیری خالی ہاتھ لوٹ گئے ہیں اور ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثناء پر اصرار کرنے والی فوزیہ وہاب سے پارٹی کا عہدہ واپس لے لیا گیا ہے امریکہ کی خوشنودی سے ترقی درجات کی خواہش نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ کا سبب بن گئی۔
معاملہ اتنا سہل اور سادہ نہ تھا جتنا رحمان ملک اور فوزیہ وہاب نے جانا ایسا ہوتا تو صدر اوبامہ کو پریس کانفرنس، ہلیری کلنٹن کو دباؤ ڈالنے اور جان کیری کو لاہور آنے کی ضرورت نہ تھی۔ شاہ محمود قریشی کو وزارت خارجہ واپس دلانے کی پیشکش نہ ہوتی امریکی سفارت خانہ ریکارڈ سامنے لاتا، دفتر خارجہ دو سطری سرٹیفکیٹ جاری کرتا اور معاملہ طے ہو جاتا، ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری، تفتیش اور ریمانڈ کی نوبت ہی نہ آتی۔ چونکہ ایسا کچھ نہ تھا اس لئے جان کیری سن سنا کر واپس چلے گئے اور ریمنڈ ڈیوس جیل میں پاکستانی میزبانی کے مزے لوٹ رہا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے چار پاکستانی شہریوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ کوٹ لکھپت جیل میں جو حسن سلوک ہو رہا ہے امریکی جیل میں اقدام قتل کی ملزمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اس کے عشر عشیر کا مستحق سمجھا گیا؟ پاکستانی جیلوں میں سابق وزراء اعظم ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو کبھی اس طرح کا پروٹوکول ملا؟ کبھی ہمارے سول اور فوجی حکمران اور سرکاری اہلکار اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا کریں گے؟ سارے اخلاقی ضابطے، مروت و احترام کے تقاضے، نرمی، تحمل اور روا داری گوری چمڑی والوں کے لئے مخصوص کیوں؟ خواہ کوئی قتل عمد کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو کیا عزت سے جینے اور دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے یہ رنگ ڈھنگ ہیں۔