صنعتی انقلاب کی طاقت کے نشے نے دنیا میں پہلی جنگ عظیم، 1914-18برپا کر دی تھی۔ یہ جنگ بنیادی طور پر یورپی طاقتوں کے مابین لڑی گئی ۔ صرف سلطنتِ عثمانیہ اور روس دو غیر مغربی طاقتیں تھی جو اس جنگ کا حصہ بنی ۔ اس جنگ کی تباہی سے ان طاقتوں نے کوئی سبق حاصل نہ کیا جس کے نتیجے میں 1939تا1945ء میں دوسرے عالمی جنگ لڑی گئی ۔ اس عالمی جنگ کا مرکز بھی بنیادی طور پر یورپ ہی تھا۔ جبکہ جاپا ن اور روس دو غیر مغربی طاقتیں تھیں جو اس جنگ کا حصہ بنی ۔ واضح رہے کہ امریکہ کو اپنی طرز حکومت اور معیشت کی وجہ سے یورپی بلاک یعنی مغربی دنیا کا حصہ مانا جاتا ہے ۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر دنیا میں صرف دو سپر پاورز روس اور امریکہ باقی رہ گئیں اور دنیا Bi-Polar بن گئی جبکہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے دنیا Multi-polar تھی۔ روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا۔ امریکہ مغربی دنیا کے رہنما کے طور پر ابھرا جبکہ روس یورپ کے صرف چھ ممالک کو اپنا ہمنوا بنا سکا ۔ اسلئے یورپ کے بعد روس نے ایشیا کا رخ کیا اور کمیونزم کومذہب کی تبلیغ کی طرز پر پھیلا نا چاہا۔ جبکہ امریکہ روس کے اس پھیلائو کو روکنا چاہتا تھا۔ ویت نام اورافغانستان کی گرم اور طویل ترین جنگیں اسی سرد جنگ کا حصہ تھیں۔ویتنام میں امریکہ کو شکست ہوئی جبکہ افغانستان میں شکست روس کا مقد ر ٹھہری، 1990ء میں روس شکست و ریخت کا شکا ر ہوااور 15ریاستوں میں تقسیم ہو گیا ۔ اس کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور Unipolarکے طور پر ابھرا اور اس نے دنیا کو نیوورلڈ آرڈر کا دھمکی بھرا عندیہ دے دیا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کے تحت سب سے بھاری نقصان مسلم دنیا کے ممالک نے اٹھایا۔ امریکہ نے Clash of Civilizationکے نظریہ کے تحت مسلم دنیا کو ایک ممکنہ حریف گردانتے ہوئے ان ممالک کی ڈکٹیٹر حکومتوں اور اندرونی خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری مسلم دنیا کو زیر عتاب کر لیا ۔ قارئین آپ تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جب سے روس ٹوٹا ہے پوری مسلم دنیا جنگی کیفیت کا شکار ہے ۔
اکیسویں صدی کے ابتداء سے امریکہ کی واحد سپر پاور کی حیثیت اس وقت کم ہونا شروع ہوئی جب چین اپنی معاشی ترقی کی بنیا دپر دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا اور اب صورتحال یہاں تک آپہنچی ہے کہ 2022ء تک چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی بن جائے گا۔ اس لئے اب بجا طور پر کہا جا رہا ہے کہ دنیا دوبارہ Unipolarسے Bipolarہوچکی ہے ۔ لہٰذا اب پوری دنیا بالخصوص مسلم ممالک کے پاس ایک آپشن چین کی شکل میں میسر آچکا ہے ۔ روس کی طرح چین بھی ناصرف ایک ایشیائی طاقت ہے بلکہ ایک کمیونسٹ ملک بھی ہے۔ لہٰذا اسے ایک نئی سرد جنگ کا نام دیا جاسکتا ہے مگر چین کی خارجہ پالیسی کئی لحاظ سے روس سے مختلف نہیں بلکہ متضاد ہے ۔ سب سے پہلی بات چین روس کے برعکس سخت گیر قسم کے کمیونزم نظام کا حامی نہیں ہے اور اپنے ملک میں بہت ساری ایسی معاشی اصلاحات متعارف کرا چکا ہے جو اوپن مارکیٹ کی طرز پر ہیں۔ اسی طرح چین روس کے برعکس اپنے معاشی نظام یعنی کمیونزم کے نظریا ت کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرف پھیلانے کا کوئی عزم یا ارادہ نہیں رکھتا ۔ واضح رہے کہ روس نے کمیونزم کو پھیلانے کیلئے دنیا کے 14ممالک پر قبضہ کر کے اپنی ریاست میں شامل کر لیا تھا۔ اسی طرح چائنہ اپنی خارجہ پالیسی میں Attack is the Best Defenceکی بجائے Defence is the Best Attack کی پالیسی پر گامزن ہیں یعنی دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود چین کسی بھی محاز پر حملہ آور ہونے میں پہل نہ کرنے کا قائل ہے ۔ روس کے برعکس چین کو ایک بڑا Advantageیہ حاصل ہے کہ روس جیسی بڑی طاقت چین کے ہمنواء کے طور پر اس کا ساتھ دے رہی ہے جبکہ کہ روس امریکہ کی سرد جنگ کے دوران چین نے روس کا ساتھ نہیں دیا تھابلکہ کسی حد تک روس مخالف پالیسی پر گامزن رہا ۔
چین بحیثیت عالمی طاقت روس کے برعکس جنگی جنون میں مبتلا ہونے کی بجائے معاشی مقابلہ کی پالیسی پر گامزن ہیں اسی لئے چین نے سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبوں کا آغاز کیا ہوا ہے اور بجا طور پر ایشیائی ممالک کی رہنمائی کرتا ہواایشیا ء کو ایک بلاک کی شکل میں مضبوط کر نا چاہ رہا ہے۔ چین کو اپنا بلاک بنانے کے لئے دیگر ممالک بالخصوص ایشیائی ممالک کی ضرورت ہے
مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان نے روس امریکہ کی سرد جنگ کے دوران مکمل طور پر امریکی بلاک کا ساتھ دیا تھااب تاریخ دوبارہ مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان کو ایک موقع میسر آیا ہے کہ وہ صرف امریکہ کے ہاتھوں جنگی طور پر استعمال ہونے کی بجائے چین جیسی عالمی طاقت جوکہ معاشی مقابلہ کی پالیسی پر گامزن ہے کی طرف جھکائو کرنا چاہیے پاکستان سمیت ان ممالک کو یاد رکھنا چاہئے کہ جنگوں اور مقابلوں میں تاریخ دوسرا موقع مشکل سے دیتی ہے اور اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کو سزا ضرور دیتی ہے۔