میرے ایک محترم دوست فاروق رائو ہیں، وہ بہت زیادہ دانشور تو نہیں مگر وہ اکثر مجھ سے ایسا برتائو اور باتیں کرتے رہتے ہیں جیسے اہلیان دانشور انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ خود وہ بھی بسا اوقات ملکی سیاسست اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات پر اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے مجھے فون کر کے بلایا میں اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ان کے پاس پہنچ گیا وہ میرے منتظر تھے جیسے ہی مجھ پر نظر پڑی انہوں نے تمام تکلفات اور آداب میزبانی بالائے طاق رکھتے ہوئے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور ایک فلم پلے کردی۔ تقسیم ہند پر بننے والی اس فلم کا نامــ’independence‘ تھا جسے عالمی شہرت کے حامل فلم ساز ادارے ریلائنس نے بنایا تھا۔ ریلائنس وہ فلم ساز ادارہ ہے جسے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ فنڈنگ کرتی ہے۔جس میں دکھایا گیا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن کو تقسیم ہند کا علم بالکل نہیں تھا اور تقیسم ہند کا فارمولا چرچل نے تیار کیا تھا اور نقشوں کی تیاری میں بھی چرچل ہی کا ہاتھ کارفرما تھا۔ اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ کے دل ہندوستانیوں کے لئے دھڑکتے تھے اسی لئے وہ ہندوستان کے بٹوارے کے حق میں نہیں تھا۔ درحقیقت لارڈ مائونٹ بیٹن کی خواہش تھی کہ محمد علی جناح کو آزاد ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بنادیا جائے لیکن پنڈت جواہر لعل نہرواس بات کی سختی سے مخالفت کررہے تھے کہ جناح کو وزیراعظم بنایا جائے، جواہر لعل نہرو کا صرف ایک ہی موقف تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر جناح کو وزیراعظم نہیں بننے دیں گے خواہ اس کا نتیجہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلے۔ یوں پنڈت جواہر لعل نہرو کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا نظریہ سامنے آگیا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک الگ ریاست وجود میں آئی۔ گوکہ فلم میں حقائق کو سیاق وسباق کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا تھا لیکن کم وبیش معاملات ویسے ہی تھے جس اندازمیں فلمایا اور دکھایا گیا اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا کہ ابتدا میں محمد علی جناح بھی تقسیم ہند کے حق میں نہیں تھے لیکن فلم میں جناح کا کردار یہ تاثر ضرور دے رہا تھا کہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ چرچل تقسیم ہند کا فارمولا پہلے ہی سے طے کر چکے ہیں اور ہندوستان کی تقسیم کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے وہ نقشے بھی تیار کرواچکے ہیں۔ جناح اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ ہندوستان کو دولخت کرنے کا فیصلہ 1945ء میں ہی کرلیا گیا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن یہ فیصلہ ہونے کے کچھ عرصے بعد جب برطانیہ سے ہندوستان واپس آئے تواس نے مسلمانوں اور ہندوئوں میں شدید کشیدگی دیکھی جو اسے سے پہلے ان کے درمیان کبھی نہ تھی بلکہ مکمل ہم آہنگی اور بھائی چارے کا ماحول تھا یہی نہیں بلکہ مسلمان اور ہندوئوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے۔ کشیدگی دیکھ کر مائونٹ بیٹن کو فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے ایک برطانوی قانون دان کو بلوالیا۔ برطانیہ سے آنے والا یہ قانون دان ہندوستان کے حالات سے واقف نہیں تھا اور نہ ہی اسے یہاں کی تہذیب وثقافت سے آگاہی حاصل تھی وہ ایک نہ تجربہ کار قانون دان تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس قانون دان کو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ختم کرنے کے لئے کوئی تدبیر نکالنے کی ذمہ داری سونپی مگر کچھ ہی دنوں کے بعد اس قانون دان نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے قریبی ساتھ کو بتایا کہ یہ مسئلہ حل کرنا آسان نہیں وہ یہ ذمہ داری انجام دینے سے قاصر ہے کیونکہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ قانون دان کا جواب سن کراس کے ہاتھ میں ایک نقشہ تھما دیا گیا جو ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان سے متعلق تھا۔ فلم کے ایک سین میں یہ بھی دکھایا گیا کہ14 اگست کو کراچی میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے محمد علی جناح سے دریافت کیا کہ آپ تقسیم ہند کے بارے میں پہلے ہی سے آگاہ تھے جس پر جناح مسکرا دیئے تھے۔ میں فلم دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہا تھا کہ تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ برطانیہ اور امریکہ ہندوستان کی ایسی تقسیم چاہتے تھے کہ جس کے نتیجے میں ایک ایسی’’بفر اسٹیٹ‘‘ وجود میں آئے جو بھارت اور روس جیسی بڑی طاقتوں کے درمیان حائل رہے ساتھ ہی ساتھ ان کے مفادات کا خیال بھی رکھے۔ تیل کے ذخائر، معدنی وسائل سمیت دیگر امور سے متعلق معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بھی بنی رہے۔ مذکورہ فلم کے ذریعے تاریخ کو کس قدر درست انداز اور حقائق کے عین مطابق دکھایا گیا اس پر میں فی الوقت اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں مگر ’’بفر اسٹیٹ‘‘ بنائے جانے کے حوالہ سے یہ نظریہ درست ثابت دکھائی دیتا ہے۔ آئیڈیالوجی سے متعلق میرے کچھ تحفظات تھے لیکن ان کی تصدیق اس فلم کے ذریعے سے ہوگئی۔ میرے خیال میں ایسی ہی کوششیں آج تک ہورہی ہیں۔ کبھی مملکت خداداد پاکستان کو تقسیم کرنے کی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور اس ملک کو کمزور کردینے کی باتیں کی جاتی ہیں، کبھی وکی لیکس اور کبھی پاناما پیپرزکی شکل میں مستحکم پاکستانی حکومتوں کا تختہ الٹا جاتا ہے اور کبھی سیاست دانوں کی ساکھ خراب کرنے کے لئے سازش کی جاتی ہے۔ صحافی ہونے کے ناطے سے میں اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں کہ پاکستان کے بارے میں مخالفانہ مہم جوئی کے پس پردہ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارہ کام کرتا ہے کٹھ پتلیوں کا کھیل کھیلنے والے اور اس کھیل کا حصہ بننے والے ہمارے کچھ ’’نابالغ سیاستدان‘‘ عالمی طاقتوں اور ایسے میڈیا گروپس کی ان سازشوں کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں وہ دھرنوں جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں سے معاشی طور پر مضبوط ہوتے پاکستان کو پھر سے مفلوک الحالی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ہمارے تمام سیاستدانوں کو سمجھنا چاہئے کہ سی پیک ایک ایسا عظیم منصوبہ ہے جو پاکستان کو معاشی اعتبار سے بلندیوں پر لے جائے گا جبکہ عالمی طاقتیں اس منصوبے کے آغاز ہی سے مختلف زاویوں اور حربوں سے ہمیں نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں کیونکہ ناپاک عزائم رکھنے والی یہ عالمی قوتیں نہیں چاہتیں کہ ایٹمی پاکستان معاشی دھماکہ بھی کرئے۔ اگر ایٹمی پاکستان معاشی دھماکہ بھی کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کو کشکول پکڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوجائے گا اس بات کو ہمارے سیاسیدانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام ریاستی اداروں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔