میرے لئے ڈیرہ غازی خان کی ایک بڑی کشش محمد رمضان عطائی کی قبر پر حاضری تھی۔ عشق کی مٹی میں گندھا کیا شخص تھا کہ عمر بھر گیلی لکڑی کی طرح سلگتا رہا۔ آج سے کوئی ایک سو پندرہ برس پہلے کسی بچے کا سرداروں کے جبر کے طمانچے کھاتی اور پسماندگی کی کڑی دھوپ میں جلتی بلتی بستی میں پیدا ہونا ایم اے تک تعلیم پانا اور سرکار کی معتبر ملازمت پر فائز ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ لیکن محمد رمضان کے مقدر کا ستارا صرف وہ رباعی بنی جو علامہ اقبال نے انہیں عطا کردی تھی… ”تو غنی ازہر دو عالم…“ میں اکثر سوچتا ہوں کہ وہ کیا نورانی لمحہ ہوگا جب محمد عربی کی بے کراں محبت و عقیدت کی جاودانی خوشبو میں بسا یہ اچھوتا خیال علامہ کے بام فکر پر اترا ہوگا… ”اے رب ذوالجلال! تیری ذات اقدس دونوں جہانوں سے غنی ہے اور میں ایک فقیر خستہ جاں ہوں۔ حشر کے دن میری گزارشات کو پذیرائی بخشتے ہوئے میری معافی قبول فرما لینا۔ اور اگر میرے نامہ اعمال کو دیکھنا لازم ہی ٹھہرے تو مجھ پہ اتنا کرم کرنا کہ محمد مصطفی کی نگاہ سے چھپائے رکھنا۔“
میں نے اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے ہی ہاشم شیر خان کو اپنی آمد کی اطلاع کردی تھی۔ عطائی کی منفرد داستان انہی کی تحقیقی کتاب ”علامہ اقبال اور ڈیرہ غازی خان“ کے ذریعے مجھ تک پہنچی تھی۔ کچہری میں انکے چیمبر جانا ہوا جہاں وکلاء کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات ہوئی۔ ڈیرہ غازی خان کے وکلاء کی طرف سے ہاشم شیر خان ایڈووکیٹ نے اجرک اور مظہر آفتاب خان ایڈووکیٹ نے سندھی ٹوپی پیش کی۔ یہ تحفے دیر تک وکلاء کی محبت اور والہانہ پن کی یاد دلاتے رہیں گے۔ ہاشم شیر خان، ماجد غفور ناز، اور سید حیدر علی بخاری ایڈووکیٹس اور محمد رمضان عطائی مرحوم کے دو پوتوں غلام مصطفی ترین اور جنید اقبال ترین کے ہمراہ ملا قائد قبرستان پہنچا تو شام ڈھل رہی تھی اور دھوپ میلی پڑ رہی تھی۔
قبرستان کے بیچوں بیچ گزرتی کچی راہگزر کے بالکل ساتھ ایک ایسی قبر ہے جس سے کترا کے گزرنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں۔ یہ ایک جلیل و جمیل شخص کی آخری آرام گاہ ہے جس کا نام ڈاکٹر نذیر احمد تھا۔ میں نے شہید کے لئے مغفرت کی دعا کی۔ سید مودودی ڈاکٹر نذیر شہید کو جماعت اسلامی کا ”فرد مطلوب“ کہا کرتے تھے۔ غریب و سادہ سا شخص جس نے فاروق لغاری کے والد، سردار محمد احمد خان لغاری کو شکست دے کر ایک عالم کو چونکا دیا۔ بھٹو کو اس نے اسمبلی کے اندر اور باہر اس طرح للکارا کہ اقتدار کے ایوان لرز اٹھے۔ مصطفی کھر تب پنجاب کے گورنر تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ میں نے لیاقت باغ میں ان کی وہ آتشیں تقریر سنی تھی جس میں انہوں نے بھٹو کو مخاطب کرکے کہا تھا۔ ”میں جانتا ہوں تم کیا منصوبے بنا رہے ہو۔ ممکن ہے یہ میری آخری تقرر ہو لیکن یاد رکھو! ڈھاکہ کا خون تمہیں معاف نہیں کرے گا۔“ اس کے کچھ ہی دن بعد وہ ڈیرہ غازی خان اپنے کلینک میں بیٹھے تھے کہ قاتلوں نے انہیں چھلنی کردیا۔ ان کے سرہانے لگے پتھر پر تاریخ پیدائش 3/فروری 1927ء اور تاریخ شہادت 8/جون 1972ء درج تھی۔ گویا ڈیرہ غازی خان کے اس غازی اور شہید کا کل اثاثہ عمر صرف پینتالیس سال تھا۔
خوش درخشید ولے شعلہ مستعجل بود
(کس عمدگی سے چمکا لیکن جلد بجھ جانے والا شعلہ تھا)
محمد رمضان عطائی کی قبر پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے میں بہت دور نکل گیا اتنی دور کہ میرا اپنا آپ بھی کہیں پیچھے رہ گیا۔ دیر بعد پلٹ کر آیا تو ان کے لوح مزار پر نگاہ پڑی۔
”الحاج محمد رمضان خان عطائی ایم اے، ایم او ایل، پی ای ایس۔ تاریخ وفات 2/اگست 1968ء جمة المبارک“ اور نیچے وہ چار مصرعے کندہ تھے جن پر نظر پڑتے ہی میری آنکھیں بھر آئیں اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذرہائے من پذیر
ورحسابم راتو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر
وکلا دوست اور عطائی صاحب کے پوتے گلاب کے پھول اور پتیاں لائے تھے۔ اللہ کرے اس مرد قلندر کی مرقد کا ہر ذرہ گلابوں کے طرح مہکتا رہے۔
علامہ اقبال سے عطائی کی محبت و عقیدت کا اندازہ ان کے تین بیٹوں کے ناموں سے ہوتا ہے۔ اقبال گدا محمد، اقبال عطا محمد اور اقبال فدا محمد۔ ان کی تین صاحب زادیاں بھی تھیں۔ ماشاء اللہ ان سب کے بچوں سے گلستان مہک رہا ہے۔ اقبال فدا محمد کے فرزند، جنید اقبال ہیں اپنے گھر لے آئے جہاں چائے کا اہتمام تھا سیڑھیاں چڑھتے ہی بالائی منزل کی دیوار پر مجھے ایک بہت بڑی بینر نما تحریر فریم میں جڑی دکھائی دی۔“ تو غنی از ہر دو عالم…“ یہاں اچھی خاصی محفل آراستہ ہوگئی۔ مجھے عطائی صاحب کی تحریر کردہ ڈائری کے اوراق اور کئی دیگر نوادرات دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ علامہ کا وہ خط بھی محفوظ ہے جو انہوں نے عطائی صاحب کی فرمائش کے جواب میں لکھا تھا…“ لاہور 19/فروری 1937ء جناب عالی! ایک مدت سے صاحب فراش ہوں۔ خط وکتاب سے معذور ہوں۔ باقی شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلا تکلف وہ رباعی، جو آپ کو پسند آگئی ہے، اپنے نام سے مشتہر کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ محمد اقبال۔ لاہور۔“ اور آج یہ رباعی علامہ کی کسی کتاب میں شامل نہیں۔
عطائی کی قبر سے ذرا فاصلے پر پیر ملا قائد کا مزار ہے۔ ملا قائد کی داستان بھی رسول مدنیﷺ اور صحابہ کرام کی لازوال محبت سے مہک رہی ہے۔ ملا قائد نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا ہی تھا کہ زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ لیکن انکے مزار پر آج بھی عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ذرا پرے ڈیرہ غازی خان کے حکمران سلسلے کا کوئی غازی خان مدفون ہے۔ اسکے عالی شان مقبرے پر ویرانیاں برس رہی ہیں اور چار سو اگی بے ہنگم گھاس سے لگتا ہے کہ ادھر سے کبھی کسی کا گزر نہیں ہوا۔
گلاب کی خوشبو پیچھے رہ گئی تھی لیکن میرا دل ایک عجب سی آسودگی سے چھلک رہا تھا اور علامہ ہی کے اشعار میرے دماغ پر موسم گل کی شبنم کی طرح مہک رہے تھے۔
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر و بر درگوشہ دامان اوست
سوز صدیق و علی از حق طلب
ذرہ عشق نبی از حق طلب
زاں کہ ملت را حیات از عشق اوست
برگ و ساز کائنات از عشق اوست
روح را جز عشق او آرام نیست
عشق او روز یست کو راشام نیست
وہ شخص کہ جس کا سرمایہ حیات عشق مصطفیﷺ ہے، سارے سمندر اور ساری خشکی، اس کے دامن کے کونے میں سمٹے ہوئے ہیں اللہ سے صدیق اکبر اور علی المرتضیٰ کے دل کا سوز مانگ، عشق نبی کے ایک گراں مایہ ذرے کی طلب کر، کیوں کہ ملت اسلامیہ کی بقا حضور کے عشق سے وابستہ ہے۔ اس کائنات کی کل پونجی آپ کی محبت ہی ہے۔ آپ کے عشق کے سوا بے چین روح کو کہیں قرار نہیں ملتا اور یہ عشق ایک ایسے مبارک دن کی مانند ہے جس پہ کبھی شام نہیں اترتی۔