اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)سینئر سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی کی معزول وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد اب ان کی ن لیگ میں شمولیت کی صرف رسمی کارروائی باقی ہے۔جس طرح جاوید ہاشمی نے گزشتہ تین برسوں میں اپنے آپ کو جمہوریت کا محافظ بنا کرپیش کیا ہے، جو ہر غیر آئینی اقدام کی مخالفت کرتا ہے، اس کے سبب ان کا سیاسی کیریئر ایک بے خوف ڈیموکریٹ کے طور پر ابھرا ہے۔پی ٹی آئی دھرنے کے عروج پر انہوں نے اس جماعت کو خیر باد کہہ کر 2014سے اس پر مسلسل تنقید کی ہے، جس کے سبب وہ مسلم لیگ ن کے بہت قریب آگئے ہیں۔یہاں تک کے دسمبر،2011میں جب انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور ن لیگ کو چھوڑا تھا ، تب بھی انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ان کا دل اس وقت بھی ن لیگ کے ساتھ ہےاور وہ نواز شریف کو اپنا قائد مانتے ہیں۔اس باغی کی ن لیگ میں واپسی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی بدولت ہوئی ہے، جو مسلسل ان سے رابطے میں رہے اور انہیں ن لیگ میں شامل کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔تاہم، 2011میں ان کے ن لیگ کو چھوڑنے سے کچھ گھنٹے قبل بھی سعد رفیق اور ان کے گھروالوں نے جاوید ہاشمی کا ذہن تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی ، تاہم وہ کامیاب نہیں ہوئے تھے۔اس وقت بیگم کلثوم نواز سیاست میں زیادہ متحرک نہیں تھیں، اس کے باوجود وہ لاہور میں انہیں منانے ان کے گھر گئی تھیں لیکن ان کی کوششیں بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی تھیں۔جاوید ہاشمی تین برس تک ہی پی ٹی آئی میں رہے۔دھرنے کی اصل وجوہات جب ان پر آشکار ہوئیں تو انہوں نے خود کو عمران خان سے الگ کرلیا۔یہاں تک کے احتجاج کے دوران بھی انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں کھلونا نہ بنیں لیکن عمران خان نے ان کی بات نہیں مانی۔