• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ ماڈل ٹائون رپورٹ،شہباز شریف اور میں بے قصور ہوں،رانا ثناء

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام میں ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگوکرتے ہوئے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ کیا میں نے کہا تھا ماڈل ٹائون میں تجاوزات ہٹانے کے دوران وہاں بندے مارنے ہیں، شہبازشریف صاحب بھی بچیں گے اور میں بھی کیونکہ ہم بے گناہ اوربےقصورہیں، جو پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے وہ موجود ہیں، وہ کون تھا جس نے لوگوں کو پولیس پر حملے کیلئےاکسایا، تحفظات یہی تھے کہ تماشا فوراً بند کیا جائے، وزیراعلیٰ شہبازشریف کو بیان حلفی کے بعد بلایا ہی نہیں گیا، سانحہ ماڈل ٹائون تو 16جون کا ہے،طاہر القادری نے تو بعد میں آنا تھا، ایجنسیز کی رپورٹ کا جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں ذکر ہے، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بدقسمت واقعہ حالات و واقعات کے سبب رونما ہوا۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ سانحہ ماڈل ٹائون رپورٹ میں بہت سے اہم حقائق سامنے لائے گئے ہیں ،ذمہ دار کون ہے اورقصور وار کون ہے کیا اس کا بھی پتہ چلے گا۔شاہزیب خانزادہ کے سوال کہ رانا صاحب اس کی ساری ذمہ داری تو آپ کے اوپر آگئی ہے؟ رانا ثناء اللہ نے جواب دیا کہ بالکل ایسے نہیں ہے، آپ اس رپورٹ کو اگر پڑھیں تو جو انہوں نے کہا ہے کہ میری چیئر میں میٹنگ ہوئی اس میٹنگ میں میرے علاوہ اٹھارہ لوگ اور تھے، اس میٹنگ میں فیصلہ یہ ہوا تھا کہ بیریئرز ہٹادیئے جائیں، یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ وہاں جاکر کسی پر چڑھ دوڑا جائے یا کسی کو مارا جائے، اب بیریئرز ہٹانے کا فیصلہ جو ہے اگر بیریئرز غیرقانونی تھے تو یہ تو کوئی غلط فیصلہ نہیں تھا، انکروچمنٹ تھی، انکروچمنٹ کو ہٹانا ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کا کام ہے۔ شاہزیب خانزادہ: اسپیشل برانچ کی رپورٹ بھی اس میں شامل کی گئی ہے، ظاہر ہے اسپیشل برانچ کی رپورٹ آپ کے مخالف تو نہیں ہوگی جس میں یہ کہا ہوا ہے کہ طاہر القادری نے اپنا پورا پلان اناؤنس کیا ہوا تھا، انہیں ملک میں واپس آنا تھا، عمران خان صاحب کے ساتھ دھرنا، یہ سارے کے سارے معاملات، چوہدری شجاعت حسین، پرویز الٰہی سے ان کی ملاقات، تو یہ تجاوزات کا مسئلہ تو بعد کا ہے، آپ کا سیاسی مسئلہ تھا جس کے لئے آپ انتظامیہ کو استعمال کرنا چاہتے تھے کیونکہ طاہر القادری صاحب آکر آپ کی حکومت کے خلاف نکلناچاہتے تھے، اسپیشل برانچ کی رپورٹ بھی اس میں شامل کی گئی ہے؟ رانا ثناء اللہ: یہی بات تو بالکل ، اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ رپورٹ جو ہے یہ defective ہے، inconclusive ہے اور incomplete ہے، یہ پیج نمبر 48 سے 52 تک جو ہے وہ تمام ایجنسیز کی رپورٹس لگی ہوئی ہیں، اگر آپ ان کوپڑھیں تو پتا چلے گا کہ اس دن کا جو حادثہ ہے بدقسمت حادثہ وہ موقع پر پیش آنے والے حالات کی وجہ سے ہوا، اس کی کوئی پہلے سے پلاننگ یا کسی کا آرڈر نہیں تھا، بدقسمتی یہ ہے کہ جن رپورٹس کا ذکر کیا ہے اس رپورٹ کے پیج 48سے 52 تک ان ایجنسیز کی رپورٹس کو anexure نہیں کیا گیا ، یہ اس وقت سب سے بڑا incompletion ہے۔ شاہزیب خانزادہ کے سوال کہ اس سے پہلے تو آپ کو تجاوزات کا خیال نہیں آیا اور لاہور میں دوسری تجاوزات کا خیال نہیں آیا صرف یہیں کا آیا؟ رانا ثناء اللہ: بات یہ ہے کہ جب کمشنر نے رپورٹ پیش کی کہ وہاں پر تجاوزات غیرقانونی ہیں تو اس کا خیال آنا کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ وہ out of context تھی لیکن بات یہ ہے کہ وہاں پر کیا طاہر القادری موجود تھے، وہاں کیا کوئی تیاری ہورہی تھی، یہ تو 16تاریخ کی بات ہے انہوں نے تو 23 تاریخ کوا ٓنا تھا۔ شاہزیب خانزادہ: آپ نے messaging کرنی تھی نا۔political objective تھا، messaging کرنی تھی نا آپ نے۔ رانا ثناء اللہ: نہیں، بات یہ ہے کہ political objective تو تب ہوتا کہ اگر وہاں وہ کوئی ریلی نکال رہے ہوتے، وہاں سے وہ کوئی لانگ مارچ شروع کررہے ہوتے، یہ تو بعد کی بات ہے، 23کو وہ آتے،25کو اناؤنس کرتے، بلکہ وہ اناؤنس کیا ہوا تھا انہوں نے چودہ اگست کو۔ یہ تو بات ہے سولہ جون کی۔ شاہزیب خانزادہ: کمشنر نے تجاوزات کی رپورٹ پیش کی اور کمشنرا س آپریشن کے خلاف تھا پھر بھی آپ نے آپریشن کیا؟ رانا ثناء اللہ: نہیں، بالکل ایسی بات نہیں ہے، اس میٹنگ میں انہوں نے یہ بات کی کہ وہاں پر ناجائز تجاوزات ہیں، اس ایریا میں اس سے پہلے بھی یہ آپ اگر ڈپٹی کمشنر کا بیان نوٹ کریں تو اس میں پچھلے کوئی تین ماہ میں کوئی ایک سو سے زیادہ انکروچمنٹ آپریشنز ہوئے تھے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ انکروچمنٹ ہٹانے کی بات ہوئی نا، کسی کو مارنے یا کسی کو نقصان پہنچانے کی بات تو نہیں ہوئی۔ شاہزیب خانزادہ: کمشنر لاہور نے کہا تھا یہ آپریشن درست ہے؟ رانا ثناء اللہ: جی نہیں، کوئی ایسی بات نہیں ہے، یہ کوئی آپریشن کی بات تو تھی نہیں انکروچمنٹ ہٹانے کی بات تھی۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب صرف انکروچمنٹ نہیں تھی، آپ نے پولیس کو ، انکروچمنٹ نہیں تھی، آپ نے اس سے ایک دن پہلے کیا بیان دیا تھا۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب بیریئرز تو باہر سے ہٹتے ہیں، مسلح افراد،anti state activity اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ آپ اسی دن یہ بات کررہے تھے اور پولیس کو بھیج رہے تھے؟ رانا ثناء اللہ: بات یہ ہے کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے یہ میرا بیان جو سنایا آپ اس میں کوئی ایک لفظ بتائیں کہ that is illegal اور کیا ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب سو فیصد legal ریاست کا پورا حق ہے مگر میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ صرف بیریئرز کی بات کررہے تھے آپ کس مائنڈ سیٹ کے ساتھ پولیس کو بھیج رہے تھے، مسلح افراد، anti state activity ۔ رانا ثناء اللہ: بات یہ ہے کہ ان بیریئرز کو آپ اپنے گھر کے چاروں اطراف ایک ایک کلومیٹر کے اوپر بیریئرز لگا کر اور وہاں پر لوگوں کا داخلہ بند کردیں کیا یہ legal act ہے، کیا اس legal act کوا نتظامیہ کو چیک نہیں کرنا چاہئے۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب اس کے اگلے دن میں لاہور گیا اور وہاں جانے کے بعد ماڈل ٹاؤن میں جو حمزہ شہباز شریف، شہباز شریف صاحب کی اردگرد کے علاقے ہیں اس میں دور دور تک بیریئرز لگے ہوئے تھے، سڑکوں کی سڑکیں بند تھیں، جب اتنا ہی عوام کا خیال آرہا تھا تو حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے بیرئرز لگا لگا کر سڑکیں بند کی ہوئی تھیں اور عوام کو تکلیف دی ہوئی تھی، میں نے عوام سے وہاں بات بھی کی، وہ بھی ہٹادیتے اگر صرف بیریئرز ہی مسئلہ تھا اور عوام کی مشکلات مسئلہ تھا؟ رانا ثناء اللہ: نہیں شاہزیب پھر بات یہ ہے کہ اب آپ اِدھر سے اُدھر چلے جاتے ہیں، معاملہ یہ ہے کہ شہباز شریف جو ہیں وہ چیف منسٹر پنجاب ہیں اور the law of land جو ہے وہ جو Chief Executive of Province آپ کا پرائم منسٹر جو ہے ان کے لئے قانون میں ان کی پروٹیکشن کے لئے جو گنجائش دیتا ہے یا جو رولز کہتے ہیں اس کے مطابق پروٹیکشن کی جاتی ہے، اب یہ تو نہیں ہے کہ ہر آدمی کہے کہ جو سیکیورٹی chief executive of the province کو دی گئی ہے وہ ہر دوسرے آدمی کو دی جائے، اس طرح تو پھر وار لارڈ کلچر بن جائے گا۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب حمزہ شہباز کی بھی ساتھ دیکھ لیجئے گا، میں ساتھ میں ایک اور سوال کردیتا ہوں، سب سے اہم بات ہے disengagement کا، شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ جب میرے علم میں آیا،میں نے ٹیلی ویژن میں دیکھا تو میں نے فوراً کہا کہ ڈس انگیج کرے پولیس، آپ کا جو بیان ہے اس میں کمیشن کہتا ہے کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ ڈس انگیجمنٹ کی بات کی، ڈی سی اونے بھی نہیں کہا کہ ڈس انگیجمنٹ کی بات ہوئی، شہباز شریف نے جو اگلے دن پریس کانفرنس کی اس میں بھی نہیں کہا ڈس انگیج کا۔ آپ کو کہا گیا تھا شہباز شریف کی طرف سے کہ فوری طور پر پولیس کو ڈس انگیج کیا جائے؟ رانا ثناء اللہ: میں عرض کرتا ہوں کہ شہباز شریف صاحب کو کہا گیا کہ آپ اس معاملہ میں اپنا بیان حلفی داخل کریں، میاں شہباز شریف نے اپنا بیان حلفی داخل کیا، اس میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے سیکرٹری ڈاکٹر توقیر کو یہ کہا تھا کہ جب میں نے ساڑھے نو بجے ٹی وی پر یہ دیکھا تو میں نے ان کو کہا کہ پولیس کو ڈ س انگیج کیا جائے، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ setteled law of land ہے اورا س کے اوپر ایک نہیں بیسیوں اتھارٹیز ہیں ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کی کہ اگرا ٓپ کسی واقعہ کے اوپر اپنا بیان حلفی دیں تو آپ کا بیان حلفی یا من و عن تسلیم کیا جائے گا یا پھر آپ کو سمن کر کے confront کیا جائے گا اورا س کے بعد رائے قائم کی جائے گی، یہ setteld بات ہے کہ میاں شہباز شریف کو اس انکوائری ٹریبونل نے بیان حلفی کے بعد سمن ہی نہیں کیا، اس لئے ان کی اس بات کو ، ایک تو یہ ہے کہ disbelived نہیں کیا جاسکتا legally ، یہی ہم کہتے ہیں کہ یہ رپورٹ جو ہے defective in the eye of law ہے، دوسری بات جب انہوں نے کہہ دیا ڈس انگیجمنٹ کا اپنے سیکرٹری کو ، اس سیکرٹری کی بات ہوئی میرے ساتھ، سیکرٹری کی بات ہوئی ہوم سیکرٹری کے ساتھ، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہمیں یہ کہا کہ چیف منسٹر کا یہ میسیج ہے، میں نے اپنے بیان حلفی میں یہ کہا کہ انہوں نے یہ میسیج مجھے دیا، اس کے بعد جو وہاں پر پولیس آفیسرز تھے موقع کے اوپر ان کے ساتھ میری خود بات ہوئی سی سی پی او لاہور سے،چوہدری شفیق سی سی پی او لاہور تھے اس وقت اور میں نے ان کو کہا کہ چیف منسٹر صاحب کا میسیج ملا ہے وہ بڑے ناراض ہیں اس بات کے اوپر، وہ کہتے ہیں کہ اس معاملہ کو ختم کیاجائے، ڈس انگیج کیا جائے تو انہوں نے کہا کہ ہم تو already اس سارے معاملہ کو close کررہے ہیں، یہاں پر کوئی ایسی uncontrol صورتحال نہیں ہے، یہ بات جو ہے سی سی پی او لاہور کے بیان میں بھی ہے۔ رانا ثناء اللہ: آخری بات سن لیں، آخری بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں شاید یہ نہیں ہے، میں آپ کی اور اپنی بھی مشکل آسان کردوں کہ طاہر القادری صاحب جو ہیں وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک نجی چینل پر آئے تھے انہوں نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے اور انہوں نے پولیس کو بے گناہ قرار دیدیا ہے، انہوں نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن میں جو ہوا وہ پولیس نے نہیں کیا، پولیس یہ نہیں کرسکتی یہ کوئی دہشتگرد تنظیم کے لوگ تھے جو پولیس کی وردی میں وہاں پر آئے ہوئے تھے، یہ بات تو بڑی دیر سے ہورہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب نہ assume کیا کریں کہ میں نے نہیں دیکھا ہوگا، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کاشف عباسی صاحب کا پروگرام تھا، طاہر القادری صاحب نے یہ بات کس context میں کی ہے میں آپ کویہ بھی بتادیتا ہوں، ایک پیرا ہے پیج 53 پر، اس کے حوالے سے علی زیدی صاحب نے ایک ریفرنس دیا جس ریفرنس کے جواب میں طاہرا لقادری صاحب نے کہا کہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ یہ پولیس کے لوگ نہیں تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم اصلی کاپی ابھی جاکر verify کریں گے کہ جوبھی کاپی ہے اس حوالے سے۔Now رانا صاحب آپ کاجو بیان ہے ایک توا س میں آپ نے نہیں کہا کہ آپ کو disengagement کا کہا گیا تھا چیف منسٹر کی طرف سے۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نو بجے جو concerns تھے وہ توقیر شاہ نے ہمیں بتائے جو کہ چیف منسٹرصاحب کے حوالے سے جو concerns آپ کو بتائے گئے تھے، disengage کا نہیں concerns بتائے گئے تھے آپ کو؟ رانا ثناء اللہ: نہیں تو concern کا کیا معنی ہے۔ شاہزیب خانزادہ: اگر concern کا معنی disengage ہے تو نو بجے بتائے تو سوا ایک بجے کیوں disengagement ہوئی؟ رانا ثناء اللہ: بات یہ ہے کہ اگر میں نے یہ کہا کہ ڈاکٹر توقیر نے مجھے چیف منسٹر کے concerns بتائے تھے تو یہ concern کو explain میں نے کرنا ہے، concern یہی تھے کہ اس تماشے کو فوری طور پر بند کریں، تماشے کو بند کرنے سے کیا مراد ہے؟ disengagement ہے یا اور کیا ہے؟ اور اس کو ختم کروائیں۔ شاہزیب خانزادہ: disengagement ہے تو پھر نو بجے کہا اور سوا ایک بجے تک آپریشن چلتا رہا، آپ کی کیا کوئی کمیونیکیشن نہیں تھی سوا چار گھنٹے ایسے ہی چلتا رہا؟ رانا ثناء اللہ: اس بات کا جواب جو ہے جو آفیسرز آن فیلڈ تھے ڈی آئی جی آپریشن یا سی سی پی او لاہور، یہ وہ دے سکتے ہیں، ہم نے کسی کو یہ نہیں کہا وہاں پر جاکر… شاہزیب خانزادہ: آپ نے کس کو کہا فوراً؟ نو بجے آپ کو چیف منسٹر کی طرف سے پیغام آیا، آپ نے فوراً کس کو کہاکہ disengage کریں، کس کو کہا؟ رانا ثناء اللہ: یہ نو بجے کی بات نہیں ہے، یہ ساڑھے نو بجے تو چیف منسٹر صاحب نے نوٹس لیا، اس کے بعد پھر ڈاکٹر توقیر نے میرے سے بات کی، اے سی ایس ہوم سے بات کی، ان کی کسی اور سے بھی بات کی ہوگی، یہ کوئی round about جو ہے دس گیارہ بجے کے درمیان کی بات ہوگی، بات یہ ہے کہ وہاں پر جو بھی میسیج گیا آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا چیف منسٹر جو ہے جو اینٹی انکروچمنٹ ڈرائیوہوتی ہیں صوبے میں، میرا خیال ہے اس وقت بھی ہورہی ہوں گی، آج بھی میرا خیال ہے دس بیس جگہ پر ہوئی ہوگی، کیا یہ چیف منسٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو سپروائز کرے گا۔ شاہزیب خانزادہ: چیف منسٹر کی ذمہ داری نہیں ہے مگر اس وقت چیف منسٹر کے سیکرٹری اس میٹنگ میں موجود تھے نا جس میں آپ نے یہ فیصلہ کیا تھا یا وہ نہیں تھے؟ رانا ثناء اللہ: نہیں تو بات یہ ہے کہ اس میں کیا فیصلہ ہوا؟ شاہزیب خانزادہ: اس میں انکروچمنٹ کو ہٹانے کا فیصلہ ہوا، اور انکروچمنٹ ایسی جگہ سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا جب سیاسی معاملہ گرم ہوا ہوا تھا طاہر القادری صاحب کا، اور آپ کہہ رہے ہیں شہباز شریف صاحب کو انہوں نے بتایا ہی نہیں ہوگا، انہیں پتا ہی نہیں ہوگا یہ معاملہ ہونے والا ہے۔ رانا ثناء اللہ: بات یہ ہے کہ مجھے آپ یہ بتائیں کہ وہاں پر انکروچمنٹ اگر تھی تو وہاں پر ساری رات اور صبح وہ کون تھا جو ٹی وی پر لوگوں کو ابھارتا رہا، اپنے ورکرز کو بلاتا رہا، جس نے پورے ریجن سے، پورے ڈویژن سے بلکہ پنجاب سے لوگوں کو وہاں پرا کٹھا کیا، جس نے لوگوں کوا ٓمادہ کیا کہ وہ پولیس کے اوپر حملہ آور ہوں، جس نے پولیس کوا آمادہ کیا کہ پولیس کے اوپر فائرنگ کریں، وہ جو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ ہے پیج 48 سے 52 اس کو ذرا پڑھیں آپ کو پتا چلے، ایک رپورٹ میں ہے کہ وہاں سے گارڈ جو تھے انہوں نے فائرنگ کی اس سے دو پولیس والے زخمی ہوگئے اور وہاں پر یہ افواہ اڑگئی کہ پولیس کے لوگ شہید ہوگئے ہیں، اور panic پھیلا اس کے بعد یہ واقعات ہوئے۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب اس انٹیلی جنس رپورٹ کے علاوہ بھی ایک انٹیلی جنس رپورٹ ہے جو یہ کہتی ہے کہ اس بات کا evidence نہیں ہے اور ساتھ میں اس رپورٹ کا اپنا conclusion ہے، تیسری بات یہ ہے کہ وہ دو پولیس والے کہاں ہیں جن کو گولی لگی تھی، کہاں لگی تھی، وہ دو پولیس والے کہاں ہیں؟ رانا ثناء اللہ: جی وہ پولیس والے جو ہیں، پولیس کے 29 لوگ زخمی ہوئے تھےfire armed انجری سے، ان کے رزلٹس موجود ہیں وہ پولیس کے لوگ بھی موجود ہیں، کیس کیونکہ اب اینٹی ٹیررسٹ کورٹ میں چل رہا ہے اور وہاں پر ان کی evidence بھی ہورہی ہے، یہ دراصل پراپیگنڈہ یکطرفہ طور پر ایسا کیا گیا کہ یعنی کوئی صحیح بات، آپ دیکھیں نا وہاں پر میں توایک آدمی کے نقصان کو بھی بڑا نقصان سمجھتا ہوں وہ چودہ لوگ، چار لوگوں کا ہمیں آج تک نہیں پتا لگا کہ وہ چار کون لوگ ہیں جن کو انہوں نے شامل کیا ہوا ہے۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب یہ بھی نہیں پتا چلا کہ وہ دو پولیس والے کہاں ہیں، اگر پراپیگنڈہ یکطرفہ چل رہا ہے تو لے آئیں ان دو پولیس والوں کو عوام کے سامنے کہ دیکھیں ان کو یہ والی گولی لگی تھی، یہ اس کے فرانسک اینالیسز ہیں، یہ اس کے خول ہیں، یہ وہ بندوق ہے کیونکہ آپ لوگ تو بعد میں چلے گئے تھے، یہ وہ والی گن ہے اور یہ منہاج القرآن سے ملی ہے؟ رانا ثناء اللہ: سن لیں، سن لیں خانزادہ، پولیس کے 29لوگ جن کو fire armed انجری ہے وہ موجود ہیں، وہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب اب آپ 29کہہ رہے ہیں، جو رپورٹ ہے باقاعدہ طور پر ایجنسی کی وہ دو کہتی ہے اب آپ 29کہہ رہے ہیں کہ 29لوگوں کو fire armed injuries ہوئی ہیں، باقیوں کو تو پتھر لگے ہیں دوسرے معاملات ہوئے ہیں؟ رانا ثناء اللہ: سن لیں، سن لیں، آپ پیج 48نکالیں،اس میں آپ آجائیں پیج 51 پر۔ شاہزیب خانزادہ: دیکھیں پیج 48 پر report of ISI جس کا میں ذکر کررہا تھا آپ نے وہ ignore کردی، آپ آئی بی کی بات کررہے ہیں یاد رکھئے گا، آپ نے پیج نمبر کہا تھا اس لئے بتارہا ہوں، اب آپ آئی بی کی رپورٹ پر آگئے۔ رانا ثناء اللہ: in total 10 PAT workers were killed whereas 96 were wounded including 29 police officials ۔ شاہزیب خانزادہ: کہاں لکھا ہوا ہے، جملہ پورا پڑھیں کیا لکھا ہوا ہے۔ رانا ثناء اللہ: the police arrested many PAT worekrs including men and women present there in total 10 PAT workers were killed whereas 96 were wounded including 29 police officials شاہزیب خانزادہ: آگے کیا ہے؟آگے ایک جملہ ہے، پڑھیں پورا۔ رانا ثناء اللہ: and 45 PAT workers recieve fire armed injuries۔ شاہزیب خانزادہ: پولیس آفیشلز کیلئے نہیں لکھا ہوا ہے کہ armed injureis ان کی ہوئی تھی، PAT ورکرز کا لکھا ہوا ہے کہ ان کو armed injuries ہوئی تھیں، کہاں لکھا ہوا ہے اس جملہ میں کہ پولیس آفیشلز کی armed injuries ہوئیں۔ رانا ثناء اللہ: نہیں شاہزیب آپ کا کیا خیال ہے کہ جو بھی فیصلے ہوتے ہیں اب مثال کے طورپر پولیس کوا ٓرڈر دیتے ہیں کہ آپ اپنے اپنے ریجن میں اشتہاری ملزمان ان کے خلاف آپریشن شروع کریں اور ان کو گرفتار کریں تو پھر کیا میں ہر تھانیدار کے پیچھے پیچھے لگا ہوتا ہوں کہ اب کہاں جارہا ہے اور کہاں جاکر چھاپہ مار رہا ہے، میرا اس بات سے کیا تعلق ہے۔ شاہزیب خانزادہ: بالکل نہیں لگے ہوتے مگر صوبے میں اس وقت تو اور زیادہ سچویشن الگ تھی، یا تو چیف منسٹر شہباز شریف کا نام آتا تھا یا آپ کا نام آتا تھا، شہباز شریف کے بارے میں کہ ان کی ایک ایک چیز پر نظر ہوتی ہے ورنہ آپ کی ہوتی ہے، یہ کوئی معاملہ نہیں تھا انکاؤنٹر کا یہ پولیس کے نارمل اس کا، یہ ایک آپریشن تھا جو پونے چھ گھنٹے چلتا رہا، شہباز شریف کہہ رہے ہیں صبح نو بجے میں نے ٹی وی دیکھا تو مجھے پتا چلا، آپ کہہ رہے ہیں کہ صبح نو بجے آپ کو پتا چلا، پونے چھ گھنٹے کسی نے آپ لوگوں کونہیں بتایا، کسی نے آپ لوگوں کو سوتے سے نہیں اٹھایا کہ یہ کیا ہورہا ہے صوبے میں جب لوگ مارے جارہے تھے اور پولیس بھگت رہی تھی؟ رانا ثناء اللہ: بات یہ ہے کہ ، پہلی بات تو یہ ہے کہ جو fatal incident ہے جس میں لوگ زخمی ہوئے اور بعد میں لوگ ہلاک ہوئے، یہ جو ہے یہ بات کوئی دس بجے اور گیارہ بجے کے لگ بھگ کی ہے، معاملہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کا جو معاملہ ہے وہ کوئی as such نہیں تھا کہ وہاں پر کوئی مارا ماری ہورہی تھی، یہ ساری تقاریر کی بات ہے، یہ سارا پراپیگنڈہ ہے۔ شاہزیب خانزادہ: پراپیگنڈہ نہیں ہے رانا صاحب، شہباز شریف کا بیان حلفی ہے کہ میں نے صبح نو بجے ٹی وی دیکھا تو میں نے کہا یہ کیا ہورہا ہے، میں نے فوری فون کیا اور پھر آپ کوا ن کے سیکرٹری کا فون آیا، پراپیگنڈہ نہیں ہے، شہباز شریف کا بیان حلفی ہے اورا ٓپ کہہ رہے ہیں دس اور گیارہ کے درمیان ہوا، ینی آپ نے ڈس انگیج کا حکم آگے نہیں بڑھایا تھا اس کے بعد یہ سارا ہوا؟ رانا ثناء اللہ: سن لیں، سن لیں، آپ دونوں باتوں کو گڈمڈ کررہے ہیں،آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اتنا جو ہے اپنا جو ہے incident بڑا سیریس ہورہا تھا یا کوئی آپریشن سیریس ہورہا تھا رات کا اورا ٓپ کو پتا نہیں چلا، معاملہ یہ ہے کہ جب صبح ٹی وی پر یہ بات آن ایئر ہوئی اس سے ہی لوگوں کو علم ہوا کہ وہاں پر کوئی انکروچمنٹ کا ڈرائیو ہے اور وہاں پر آپس میں پولیس کا اور لوگوں کا stand off ہے، باقی معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی فیصلہ ہوتا ہے کہ یہ کام کرنا ہے یا یہ کام کرنا ہے توا س کے بعد جو آن گراؤنڈ details ہیں وہ ہمارے لیول پر طے نہیں ہوتیں، وہ تو جوا ٓدمی آن فیلڈ ہے وہ اس کا کام ہے۔ شاہزیب خانزادہ: آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف نے آپ کو کہا صبح نو بجے، ان کے سیکرٹری کی کال آئی، آپ نے آگے بھی کہہ دیا ڈس انگیج کردیں مگر انہوں نے … رانا ثناء اللہ: نو بجے سے تھوڑا آگے آجائیں آپ۔ شاہزیب خانزادہ: چلیں ساڑھے نو بجے کرلیں، مگر آگے وہی modalities طے ہوئیں پھر بھی دس گیارہ بجے blood shed ہوگیا، آپ نے ڈس انگیج کہہ دیا تھا پھر بھی ساڑھے دس بجے blood shed ہوگیا، آپ نے آگے آرڈر پاس آن کردیا تھا؟ رانا ثناء اللہ: دیکھیں میری بات سنیں، بات یہ ہے کہ اس میں بالکل ہم on oath بھی ہیں، یہ رپورٹ جو ہے اس میں تو خیر conclude کیا ہی کچھ نہیں ، جو جے آئی ٹی بنی تھی، جس جے آئی ٹی نے اس پورے حادثہ کی انکوائری کی ہے وہاں پر اس جے آئی ٹی کے سامنے میں بھی پیش ہوا ہوں، وہاں پر شہباز شریف بھی پیش ہوئے ہیں، ہم نے وہاں پر اپنا بیان بھی دیا ہے ان کا پورا کراس بھی ہم نے face کیا ہے، ہم نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہاں پر جو معاملات ہوئے that was the matter of جو وہاں پر فیلڈ پر جو لوگ تھے جو وہاں پر موجود تھے ہمیں جب یہ معلوم ہوا تو ہم نے یہ بالکل convey کیا کہ آپ اس معاملہ کو ڈس انگیج کریں اور پرامن طور پر حل کریں اور اس معاملہ میں وہاں پر کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے، ہماری طرف سے کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں ہوا، کبھی بھی کسی کو یہ آرڈر نہیں دیاگیا، یہ کہا جارہا تھا کہ اس رپورٹ میں ایک وائرلیس جو ہے اس وائرلیس کے ذریعہ رانا ثناء اللہ نے حکم دیا ہے کہ فائرنگ کردو، کدھر ہے وہ وائرلیس، وہ وائرلیس اس رپورٹ میں آئی کیوں نہیں سامنے۔ پھر کہا گیا کہ میاں شہباز شریف نے حکم دیا براہ راست کہ لوگوں کو مار دو، کہاں ہے وہ حکم، اس رپورٹ میں کیوں نہیں ذکر اس کا۔ شاہزیب خانزادہ: رانا صاحب ایک سوال ہے، دیکھیں شہباز شریف تو ہوگئے اس معاملہ میں بری الذمہ۔ اگر تحقیقات یہاں سے شروع ہوکہ یہ آپریشن تجاوزات کے خاتمے کا ، کس نے اس میٹنگ کو ہیڈ کیاتو آپ۔ اگر بات یہاں سے شروع ہو کہ شہباز شریف کو پتا چلا تو انہوں نے ڈس انگیج کرنے کا کس کو حکم دیا تو وہ آپ۔ اگر بات یہاں سے شروع ہو کہ ہیڈ آپ کررہے تھے سوا تین بجے آپریشن شروع ہوا، پونے چھ گھنٹے آپ سوتے رہے تو وہ آپ۔ اگر بات یہاں سے شروع ہو کہ disengage کا حکم ملنے کے باوجود disengage نہیں ہوا اورا ٓپ کہہ رہے ہیں دس بجے کے بعد یہ سارا ہوا جبکہ چیف منسٹر disengage کرنے کا کہہ چکے تھے تب بھی آپ۔ تو رانا صاحب یہ تو سب کچھ آپ کے اوپرا ٓگیا ہے اب۔ شہباز شریف صاحب بچ بھی جائیں تو یہ سب آپ کے اوپر؟ رانا ثناء اللہ: یہ غلط ہے، بات یہ ہے کہ شہباز شریف بھی بچیں گے کیونکہ وہ اس میں بے گناہ ہیں بے قصور ہیں اور اللہ کے فضل سے میں بھی اس میں بے گناہ اور بے قصور ہوں، نہ وہ وائرلیس ہے نہ وہ فائرنگ کا حکم ہے، نہ وہ حملے کا حکم ہے، بات یہ ہے کہ کمشنر صاحب کو یا ڈسٹرکٹ انتظامیہ کو انکروچمنٹ ہٹانے کا حکم دیا گیا، انکروچمنٹ ہٹانا کس طرح سے ہے، مثال کے طور پرا گر یہ کہا جائے کہ فلاں ملزم کو گرفتار کرو اس کا حکم ڈی آئی جی دے، ایس ایس پی دے، آئی جی دے اور وہاں جب آدمی کوئی ریڈ کرے جاکر اور وہاں پر کوئی نقصان ہوجائے تو it means وہ responsible ہے جس نے حکم دیا ہے، میں نے انکروچمنٹ ہٹانے کے ساتھ یہ کہا تھا کہ وہاں پر بندے مارنے ہیں؟ یا وہاں پر لوگوں کے اوپر چڑھ دوڑنا ہے؟ شاہزیب خانزادہ: یہ بات آپ بار بار کہہ رہے ہیں اس لئے ایک بات مجھے کلیئر کرنے دیں کیونکہ impression یہ جارہا ہے کہ ہم نے یہ بات establish کی ہو یا سوال کیا ہو کہ ہم قطعی طور پر یہ نہیں سمجھتے کہ شہباز شریف صاحب نے یا آپ نے جان بوجھ کر حکم دیا تھا کہ وہاں پر blood shed ہو، قطعی طور پر ہم یہ نہیں سمجھتے، سوال ہورہا ہے آپ کی مس مینجمنٹ کا اور ایک جو تجاوزات کی آڑ میں جو سیاسی مسئلہ تھا اس کو نمٹانے کا اور تیسرا کہ جب معاملہ اتنا بگڑ رہا تھا توا ٓپ نے اس کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا کیونکہ اس میں politics involve تھی، پولیس آگے تھی اور آپ نے نہیں کیا، پولیس کو اپنے تئیں چھوڑ دیا۔

تازہ ترین