• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اتوار 3دسمبر کی صبح کراچی کے ساحلی علاقے سی ویو روڈ پر ایک اٹھارہ سالہ نوجوان بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ قتل دولت کے نشے سے چور اور غصے سے مغلوب ایک نوجوان کے ہاتھوں ہوا۔ یہ بہیمانہ واردات نہ صرف مقتول کے والدین اور دیگر متعلقین کے لئے شدید صدمے کا سبب بنی بلکہ اس نے کراچی اور ملک بھر میں بسنے والے بچوں اور نوجوانوں کے والدین میں اضطراب اور تشویش کو مزید بڑھا دیا۔ سڑک پر موٹر سائیکل یا کار چلانے والا ہر شخص بہت محتاط ہوجائے۔ اس کی غلطی ہو یا نہ ہو اگر اس کی موٹر سائیکل یا کار کی ٹکر کسی بگڑے ہوئے امیر زادے، کسی رعونت زدہ بڑے افسر یا کسی متکبر سیاست دان کی سواری سے ہوگئی تو اس عام آدمی کی جان کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ایسے میں دولت کا گھمنڈ، اختیارات کا نشہ اور طاقت کا غرور کسی قانون کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ معلوم نہیں کہ انصاف کے حصول کے لئے عام پاکستانیوں کو اپنے آئینی اور قانونی حقوق کے مطابق تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے مزید کتنا انتظار کرنا ہوگا۔
زمانہ طالب علمی اور عملی زندگی کے ابتدائی دور میں یعنی 70اور 80 کی دہائی میں ہم نے دیکھا کہ عدلیہ، انتظامیہ ، پولیس جیسے اداروں کی موجودگی میں بھی کئی معاملات میں پنچایت میں آئین سے متصادم فیصلے ہورہے ہیں۔ قانون کی صریحاً خلاف ورزی کئی جگہ انفرادی سطح پر بھی ہورہی ہے۔ عورت کے ساتھ تحقیر آمیز روئیے جاری ہیں۔ ہاری، مزدور ، غریب آدمی کے معاشی اور سماجی حالات خراب ہیں۔ رشوت اور بدعنوانی عام ہے۔ سڑک پر ٹریفک کی حالت غیر منظم اور پریشان کن ہے۔ اب سے تیس چالیس سال پہلے یہ سب دیکھتے ہوئے ہم یہ گمان کرتے تھے کہ ان خرابیوں پر چند برسوں میں قابو پالیا جائے گا اور ہماری آئندہ نسل ایک بہت اچھے دور میںآنکھ کھولے گی۔ درحقیقت ہر نسل یہی چاہتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ایک بہتر دنیا ، ایک بہتر ماحول دے کر جائے۔ قیام پاکستان کے بعد اب چوتھی نسل ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیار ہے لیکن افسوس کہ نہ تو ملک میں قانون کے نفاذ کی خواہش پوری ہوسکی نہ ہی معاشرے میں اعلیٰ اخلاقیات غالب آسکیں ۔ بلکہ اب تو لاقانونیت میں اضافے اور بچی کچھی اخلاقی اقدار میں بھی مسلسل انحطاط کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
گزشتہ اتوار سی ویو پر ہونے والا قتل پاکستان میں کوئی منفرد واقعہ تو نہیں ہے۔ تقریباً ڈھائی سال پہلے لاہور میں کیولری روڈ پر زین نامی ایک غریب نوجوان ہمارے خواص کے تکبر اور فکری افلاس کا نشانہ بن چکا ہے۔ اکثر قارئین کو یاد ہوگا کہ اپریل 2015ء میں لاہور میں ایک غریب نوجوان زین بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ قتل کا یہ مقدمہ عدالت میں پہنچا۔ مقدمہ پر دولت مند اور بارسوخ ملزمان کے اثرات جلد ظاہر ہونے لگے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے مقتول زین کی ماں پیش ہوئی اور جج صاحبان کو بتایا کہ وہ دو بیٹیوں کی ماں ہے اور ان حالات میں وہ بااثر ملزمان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اپنے بیٹے کے قتل کو اس نے اللہ کی مرضی سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک غریب خاندان کے مقتول کی ماں کا یہ بیان پاکستان کے ہر عام آدمی کی کم زوری، بے بسی اور لاچارگی کا ترجمان تھا۔ اس واقعہ سے تقریباً تین سال پہلے دسمبر 2012ء میں کراچی کا ایک نوجوان شاہ زیب دولت مند اور بارسوخ نوجوانوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکا تھا۔ مقتول کے والد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوتے ہوئے بھی اپنے نوجوان بیٹے کے قتل کے بعد خو کو بے بس اور لاچار محسوس کررہے تھے۔ خبروں کے مطابق اس قتل کو دیت کے تحت ورثا کی طرف سے معاف کیا گیا۔ مقدمہ تاحال عدالتی مراحل میں ہے۔
ناحق اور غیر قانونی طریقے سے کسی انسان کی زندگی چھین لینا سنگین ترین جرم ہے۔ دکھ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ کسی عام آدمی کا قتل ہمارے معاشرے میں وسیع پیمانے پر بے چینی، اور اضطراب کا سبب نہیں بنتا۔ یہ بے حسی ، لاتعلقی یا بے بسی مزید انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بنتی رہتی ہے۔ مقتول زین کی بے بس ماں، یا مقتول شاہ زیب کے پولیس افسر بے بس والد کی طرح زیادہ تر مقتولین کے ورثاء اپنے اوپر بیتی ہوئی قیامت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر رو دھو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں دیگر کئی خرابیوں کے ساتھ گھناؤنے اور سنگین جرائم کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس خرابی کی ایک بڑی وجہ نظامِ انصاف کا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونا ہے۔ طاقت ور شخص اپنی دولت کے بل بوتے پر یا اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے جرم کی سزا سے نہ صرف صاف بچ جاتا ہے بلکہ لوگوں کے سامنے اپنے کارنامے اس طرح بیان بھی کرتا ہے جیسے اس نے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ جس معاشرے کے طاقت ور اور بارسوخ افراد قانون توڑکے بھی خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں اس معاشرے کی بنیادیں ہلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ امیر المومنین حضرت علیؓ کا یہ قول ہر دور کے معاشروں کے لئے واضح تنبیہ ہے کہ ’’قومیں کفر سے نہیں بلکہ عدل اٹھ جانے سے برباد ہوتی ہیں۔‘‘
آپ آج پاکستان کے حالات پر غور کیجیے۔ امپورٹ ایکسپورٹ سے دگنی ہوگئی ہے۔ کئی صنعتوں کا حال خراب ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں امن و اماں کی حالت غیر تسلی بخش ہے۔ ہمارے ملک میں ہر ماہ ایک ہزار سے زائد افراد مختلف ہتھیاروں یا دیگر ذرائع سے تشدد کے ذریعے جان سے مار دئیے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے ذریعے جاں بحق ہونے والے ہزاروں معصوم شہری ان کے علاوہ ہیں۔پاکستان میں قتل کردئیے جانے والے افراد کی تعداد سالانہ تیرہ ہزار سے زائد ہے۔ان کے علاوہ سڑک حادثات میں ہر سال پانچ ہزار سے زیادہ جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ حکومت پاکستان کے ادارے شماریات کی جانب سے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق دس برسوں میں سڑک حادثات میں 51416افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
فیکٹریوں اور ٹرانسپورٹ سے ہونے والی فضائی آلودگی کی وجہ سے پھیلنے والی کئی جسمانی و ذہنی بیماریوں سے متاثر ہو کر انتقال کر جانے والے افراد کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے۔ اندازہ ہے کہ آلودگی سے ہونے والی بیماریاں ایک سال میں 135000اموات کا سبب بنیں۔
صرف قتل ہی نہیں بلکہ انسانوں اور اداروں کی غفلت سے ہونے والی ہر غیر طبعی موت ریاست کے لئے ایک چیلنج ہوتی ہے۔ معاشرے اور ریاست کو اسے ایک چیلنج کے طور پر ہی قبول کرنا چاہیے، جرائم، صحت سے غفلت، لا پروائی اور بدعنوانی میں کمی کرکے ہر آدمی کی جان کے تحفظ کےلئے اقدامات حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ان اقدامات کو بھرپور عوامی تائید اور کئی سماجی روایات میں اصلاح کے ذریعے تقویت دینا ہوگی۔
شوکت عزیز کے صاحبزادے کا انتقال
پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور وزیر خزانہ شوکت عزیز کے اکلوتے صاحبزادے عابد عزیز 3دسمبر 2017ء کو چالیس سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہوتی ہے۔ بڑھتی ہوئی عمر کے والدین میں یہ خواہش شدید تر ہوتی ہے کہ ان کی زندگی کے آخری ایام کے انتظامات اور آخری رسومات ان کی اولاد کے ہاتھوں ہوں۔ بوڑھے باپ کے لئے اپنی جوان اولاد کا جنازہ اٹھانا دنیا کا مشکل ترین کام اور بھاری ترین مرحلہ ہے۔ ایسے جاں گسل لمحات سے گزرنے والے سب والدین کو اللہ صبر دے۔
دعا ہے کہ جوان مرگ عابد عزیز مرحوم کی مغفرت ہو۔ مرحوم کے والدین ، اہلیہ ، سب اہلِ خانہ اور متعلقین کو صبرِ جمیل عطا ہو۔ آمین

تازہ ترین