سکھر (بیورو رپورٹ) ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی سکھر میونسپل کارپوریشن انتظامیہ بوسیدہ اور قدیمی نظام کے ذریعے بوریوں میں پھٹکری بھرکر پینے کا پانی صاف کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ انگریز دور حکومت میں قائم ہونیوالے واٹر ورکس کی قدیمی لائنیں گل سڑ کر بوسیدہ ہوچکی ہیں، حیرت انگیز طور پر پانی صاف کرنے کیلئے خطیر رقم سے جدید طرز کا شعبہ تو قائم کیا گیا ہے ، جہاں مشینری موجود ہے مگر ٹیکنیکل اسٹاف نہ ہونے کے باعث وہ غیر فعال ہے اور خطیر رقم سے خریدی جانیوالی مشینری خراب ہورہی ہے، پینے کا جو پانی شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے وہ آلودہ، مضر صحت اور بدبودار ہے، جس کے استعمال سے شہری پیٹ سمیت دیگر مختلف امراض میں مبتلا ہورہے ہیں اور لاکھوں کی آبادی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد سکھر کے شہریوں کو میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی جانب سے دریا سے پانی لیکر واٹر ورکس کے تالابوں میں جمع کرنے کے بعد گنجان آبادی والے علاقوں کو فراہم کیا جاتا ہے اور یہ کام انگریز دور حکومت میں قائم ہونیوالے واٹر ورکس کے ذریعے کیا جاتا ہے جوکہ انتہائی قدیمی اور پرانا ہے، جس کی لائنیں بھی گل سڑ چکی ہیں، دریائے سندھ سے اٹھائے جانیوالے پانی کو واٹر ورکس کے تالابوں میں جمع کرنے کے بعد پرانے طریقے کار کے تحت بوریوں میں پھٹکری ڈال کر اسے صاف کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں پانی میں مٹی کی مقدار تو کسی حد تک کم ہوجاتی ہے لیکن پانی سے بدبو ختم نہیں ہوتی اور یہ پانی شہر کے گنجان آبادی والے علاقوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ شہریوں کو فراہم کئے جانیوالا پانی اس قدر مضر صحت اور بدبو دار ہے کہ استعمال کے قابل نہیں مگر غریب و پسماندہ علاقوں کے لوگ یہ مضر صحت اور بدبو دار پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں، اور اس کے استعمال سے شہری پیٹ سمیت دیگر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ 2سال قبل گردوں کے علاج کے سب سے بڑے ادارے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولاجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے ماہرین کی جانب سے سکھر کو بچوں کے گردے میں پتھری کے حوالے سے ریڈ زون قرار دیا تھا جس کی وجہ عوام کو پینے کا آلودہ، بدبو دار اور مضر صحت پانی فراہم کرنا تھا تاہم اس انکشاف کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ واٹر ورکس کے انچارج نے بتایا کہ پانی کو جدید طریقے سے صاف کرنے کے لئے کلورینیشن پلانٹ لگادیا گیا ہے اور پانی صاف کرنے والے ٹیکنیکل عملے کیلئے تحریری طور پر بالا افسران کو لکھا ہے اور جلد عملہ تعینات ہوجائیگا، فی الحال ہم پھٹکری کے ذریعے پانی کو صاف کرکے شہریوں کو فراہم کررہے ہیں۔ میئر سکھر ارسلان اسلام شیخ نے جب اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تو اس وقت انہوں نے سکھر شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے واضح طور پر اعلانات کئے تھے اور میونسپل کارپوریشن کے اجلاس میں ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے دعوے بھی کئے تھے لیکن طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود میئر سکھر اور ان کی ٹیم تاحال عوام کے مسائل حل کرنے بالخصوص شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ سکھر کی مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی و تجارتی تنظیموں جمعیت علمائے پاکستان کے صوبائی صدر مفتی محمد ابراہیم قادری، مشرف محمود قادری، سکھر اسمال ٹریڈرز کے صدر حاجی ہارون میمن، سنی تحریک کے مرکزی رہنما حافظ محبوب سہتو، سکھر ڈویلپمنٹ الائنس کے چیئرمین حاجی جاوید میمن، غلام مصطفی پھلپوٹو، سنی تحریک کے رضوان قادری، ملک فلاحی جماعت کے ملک جاوید،نے شہریوں کو آلودہ اور بدبو دار پانی فراہم کئے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ منتخب نمائندے اور انتظامی افسران کو عوام کے مسائل کا بالکل بھی احساس نہیں، یہ لوگ خود تو صاف و ستھرا پانی استعمال کرتے ہیں اور عوام کو آلودہ، بدبودار اور مضر صحت پانی فراہم کیا جارہا ہے۔شہریوں نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ و دیگر بالا حکام سے اپیل کی کہ شہریوں کو مضر صحت و بدبودار پانی کی فراہمی کا نوٹس لیکر شہر کے مختلف علاقوں میں پینے کے صاف پانی کے فلٹر پلانٹس لگائے جائیں یا پھر سابق ضلع ناظم اور موجودہ وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ کے ضلعی نظامت کے دور میں یونین کونسل کی سطح پر قائم کیے جانیوالے فلٹر پلانٹس کو فعال کیا جائے تاکہ شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔