کراچی (طاہر عزیز، اسٹاف رپورٹر) لاڑکانہ، میرپورخاص، جیکب آباد، شکارپور سمیت سندھ کے بیشتر شہروں میں آج تک باقاعدہ کوئی واٹر سپلائی اسکیم نہیں ہے، سکھر میں بھی جزوی ہے، شہری بورنگ کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کی زیرصدارت پیر کو وزیراعلیٰ ہائوس میں صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جب کمشنر لاڑکانہ ڈویژن نے شرکاء کو بتایا کہ لاڑکانہ میں آج تک واٹر سپلائی کی کوئی باقاعدہ اسکیم نہیں ہے جس پر وزیراعلیٰ سمیت بعض دیگر شرکاء حیران رہ گئے۔ واضح رہے کہ رائس کینال شہر کے اندر سے گزرتی ہےجب کہ دریائے سندھ صرف ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن اس کے باوجود آج تک کوئی واٹر سپلائی اسکیم نہ بن سکی اسی طرح یہ صورتحال بھی سامنے آئی کہ صوبے کے دیگر بڑے شہروں میرپورخاص، جیکب آباد، شکارپور سمیت دیگر ضلعی ہیڈکوارٹرز میں بھی لوگ زیرزمین پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ سکھر جو ایک بڑا شہر ہے، یہاں پر بھی جزوی واٹر سپلائی اسکیم ہے، دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس شہر کا سیوریج اپ اسٹریم سے جاتا ہے اور شہر کو پانی ڈائون اسٹریم سے سپلائی کیا جاتا ہے جس سے پینے کے پانی کا معیار حفظان صحت کے مطابق نہیں رہتا۔ سندھ کے بیشتر شہروں میں شہری پانی بغیر ٹریٹمنٹ اور کلورینیشن پینے پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے سیکرٹری پبلک ہیلتھ سے کہاکہ کیا آپ اسکیمیں وزیراعلیٰ اور وزیر کو دیکھ کر بناتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے، ضرورت کے مطابق ہر شہر میں وقت پر اسکیمیں تیار کی جائیں۔ وزیراعلیٰ نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے جاری منصوبوں کو مکمل کرنے کی حتمی تاریخیں بھی طلب کر لی ہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کے فور منصوبہ جسے جون2018ء میں مکمل کیا جانا ہے اس میں تاخیر کے ساتھ لاگت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے25ارب روپے کے اس منصوبے میں پچاس فیصد رقم دینے کا وعدہ کیا ہے تاہم اب یہ دیکھنا ہو گا کہ بڑھنے والی لاگت کو حکومت سندھ خود برداشت کرتی ہے یا وہ وفاقی حکومت سے درخواست کرے گی۔ وزیراعلیٰ نےچند روز قبل یہ کہا کہ وفاقی حکومت نے منصوبے کے بقیہ ساڑھے نو ارب روپے جاری نہیں کئے جب کہ ماضی میں وزیراعلیٰ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ کے فورکیلئے اگر اگر وفاقی حکومت فنڈز فراہم نہیں بھی کرتی تو حکومت سندھ اسے اپنے خرچے پر مکمل کرے گی۔