اسلام آباد (محمد صالح ظافر) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واشگاف طور پر کہا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے وہ اسمبلیاں نہیں توڑیں گے، اس سلسلے میں کسی دبائو کو خاطر میں لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا ہے کہ سول، ملٹری تعلق کے ازسرنو تعین کی ضرورت ہے۔ پیرکو اپنے دفتر میں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ذرائع ابلاغ کو اسکے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں ہرممکنہ سہولت فراہم کرتی رہے۔ اے پی این ایس کے صدر سید سرمد علی کی قیادت میں وفد نے میڈیا انڈسٹری کو درپیش مختلف مسائل اجاگر کئے جس پر وزیر اعظم نے وفد کو یقین دلایا کہ میڈیا تنظیموںکی طرف سےاٹھائے گئےمسائل پر مناسب غور کیا جائیگا، وفد میں حمید ہارون، مجیب الرحمٰن شامی، ممتاز طاہر، خوشنود علی خان، ہمایوں گلزار، جاوید شمسی، ممتاز احمد، علی حسن، ہارون شاہ، منیر گیلانی اور سلیم احمد شامل تھے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کے بہترین مفاد میں حکومت چلتے رہنا چاہئے بطور وزیراعظم انہیں کسی اندرونی یا بیرونی دبائو کی پرواہ نہیں اور وہ کسی قیمت پر اسمبلی تحلیل نہیں کرینگے۔ ملک میں کہیں سیاسی عدم استحکام دکھائی نہیں دیتا، اگر کسی کو میں پسند نہیں ہوں تو بے شک عدم اعتماد کی تحریک لے آئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات اچھی ڈگر پر چل رہے ہیں اور ہربڑے مسئلے پر سول ملٹری قیادت سرجوڑ کر بیٹھتی ہے اور فیصلے کرتی ہے انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ کا نظام درست طور پرچل رہا ہے خزانے کی چابیاں میرے پاس ہیں اور معاملات ٹھیک ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب کا قانون برا قانون ہے اس قانون کو ایک آمر نے جماعتوں کو توڑنے کے لئے وضع کیاتھا انہوں نے کہا کہ قوم نے نواز شریف کو ووٹ دیا جنہوں نے ملک کو صحیح سمت پر ڈالا اب ان کی حکومت عوام سے کئے گئے وعدے پورے کررہی ہے۔ وزیراعظم عباسی نے کہا کہ جس ریفرنس کا وجود ہی نہیں اس پر ہفتے میں دو دو پیشیاں ہوتی ہیں ایسا تو اس وقت بھی نہیں ہوا تھا جب نواز شریف کے خلاف طیارہ اغوا کرنے کانام نہاد مقدمہ بنا تب بھی ہفتے میں ایک سے زیادہ پیشی نہیں ہوتی تھی دوسری جانب حالت یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف چار سو پچاس ارب روپے کی کرپشن کے مقدمہ میں فرد جرم عائد نہیں ہوسکی انہوں نے واشگاف طور پر کہا کہ کسی کو حکو مت میں مداخلت کا حق نہیں سیاسی جماعتیں اور لیڈر ایک دن میں نہیں بنتے اس کے لئے طویل عرصہ صرف ہوتاہے ملک کوایک سال سے غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں عوام یہ خود فیصلہ کریں کہ 28 جولائی کے فیصلے سے ملک کو فائدہ ہوا یا نقصان۔ عدالتوں کو بھی اپنے فیصلوں کے اثرات کو پیش نظر رکھنا چاہئے وہ فیصلہ کرتے ہوئے اس کے معاشی اثرات کو پیش نظر نہیں رکھتیں انہیں ایسے فیصلے نہیں کرنا چاہئیں جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہو۔ وزیراعظم شاہد عباسی نے واضح کیا کہ ملکوں کے لئے سب سے اہم چیز معیشت ہوتی ہے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک کی معیشت کے مفاد میں پالیسیز بنانا چاہئے انہوں نے کہا کہ وہ روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے قابو میں نہیں رکھنا چاہتے ان کے ذاتی خیال میں ڈالر کی قدر ایک سو دس روپے کے لگ بھگ رہنی چاہئے امید ہے کہ روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں ہوگی اور مہنگائی قابو میں رہےگی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز کافیصلہ حکومت کودو سو ارب روپے میں پڑا جبکہ کار کے فیصلے کی وجہ سے حکومت کو 765 ملین ڈالر عالمی عدالت کے حکم پر ادا کرنا پڑے۔ وزیراعظم عباسی نے کہا کہ سیاست کے فیصلے ڈرائنگ روم کی بجائے پولنگ اسٹیشنز پر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی خسارے کے حوالے سے قیامت کا منظر پیش کرنے والے معاشی حقائق سے واقف نہیں ہیں گزشتہ سال یہ خسارہ مشینری اور انڈسٹری کی بھاری تعداد میں درآمد کی وجہ سے بڑھا تھا ہم نے معیشت کی ترقی کی شرح میں اضافہ کیا ہے اسی طرح ٹیکس محصولات بھی بڑھائے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں کہ موجودہ حکومت کے چار سال میں جتنے ترقیاتی منصوبے بنے پاکستان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔آج بجلی کے بحران کا خاتمہ ہوگیا ہے تاہم آج بھی بجلی کی فروخت اور لاگت پر ایک سو تیس ارب روپے کا خسارہ ہے اس کی ایک وجہ بجلی کے بلوں کی وصولی ہے ہمیں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اسی حوالے سے صوبوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں احسن طور پرا دا کرنا چاہئے بجلی کے بلوں کی وصولی میں وفاقی حکومت سے تعاون کرنا چاہئے۔ آج بجلی کے بل میں تین روپے ہائیڈرو پروجیکٹس کی مد میں وصول کئے جارہے ہیں سیاسی اور قومی امور کے دیگر پہلوئوں پر اظہارخیال کرتے ہوئے وزیراعظم عباسی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پیدا شدہ مشکلات اب سامنے آرہی ہیں سوچے سمجھے بغیر کئے گئے اقدامات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز ایک جماعت کے طور پر پختہ کار ہوچکی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ نواز شریف نے بطور وزیراعظم سبکدوش ہوتے ہی تین دن میں نیا وزیراعظم منتخب کرلیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت وہ اور ان کی کابینہ چلارہی ہے تمام فیصلے مشاورت سے کئے جاتے ہیں نواز شریف نے آج تک ان کے کام میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی کسی معاملے میں ہدایات دی ہیں، وزیراعظم عباسی نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے لئے آئینی ترمیم کی سینیٹ سے منظوری کے لئے تمام پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں سے ملاقات کی ہے اورا ن کے خدشات دور کردیئے ہیں جس کے بعد اس ترمیم کی منظوری میں رکاوٹ کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی نگران حکومت نے پنتالیس ہزار اسلحہ لائسنس بیچے اس سے بڑی کرپشن کیا ہوسکتی ہے اب ہم اس حوالے سے مربوط پالیسی سامنے لارہے ہیں۔ وزیراعظم نے سیاسی جماعتوں اور قیادت کے بارے میں رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان سے اب تک ستر سال میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد چار قومی رہنما سامنے آئے جن میں زیڈ اے بھٹو، بے نظیر، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں آپ پانچویں رہنما کا نام بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اپنی میعادپوری کرے گی تو کون سے قیامت آجائے گی۔ سیاست کے فیصلے عدالتوں اور بند کمروں میں نہیں ہوتے اس بارے میں فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے اگر وہ غلط فیصلہ کرینگے تو بھگتیں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صوبے آئین کی اٹھارویں ترمیم سے دستیاب فوائد اٹھانے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ اگر اس آئینی ترمیم کو منظورکرنے سے پہلے اچھی طرح پڑھ لیا جاتا تو اس سے قوم کا بہت بھلا ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے قابل تقسیم پول میں ایک کھرب روپے صوبوں میں تقسیم کئے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ سیاسی عدم استحکام کا منفی اثر معیشت سمیت تمام امور پر مرتب ہوتاہے جن کے ساتھ اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے لیکن اب حکومت نے اسے سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا قانون اس قدر برا ہے کہ جس پر الزام عائد کیا جائے اسے ثابت کرناپڑتا ہے کہ یہ الزام بے بنیاد ہے جبکہ قدرتی انصاف کی رو سے الزام لگانے و الا ثبوت پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ عوام نے نواز شریف کو ووٹ دیئے ہیں مجھے نہیں۔ فاٹا کو صوبہ کے پی میں ضم کرنے کے فیصلے پر لازماً عملدرآمد ہوگا۔ سی پی این ای کے وفد نے بھی وزیراعظم عباسی سے الگ ملاقات کی جس میں ضیا شاہد، شاہین قریشی، امتیاز عالم، اکرام سہگل، اعجاز الحق، جمیل اطہر، عارف نظامی، ڈاکٹر جبار، وامق زبیری، کاظم خان، انور ساجدی، طاہر فاروق، رحمت رازی، ایازخان اور غلام نبی چانڈیو شامل تھے۔ وزیراعظم عباسی نے یقین دلایا کہ ذرائع ابلاغ کے رہنمائوں نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان کے بارے میں مثبت طور پر غور کیا جائے گا۔ ملاقات میں اطلاعات و نشریات کی وزیر مملکت مریم اورنگزیب، سیکریٹری اطلاعات نواز سکھیرا، پی آئی او محمد سلیم بیگ اور وزارت کے سینئر حکام بھی موجود تھے۔