• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ہونے والے کئی واقعات سے یہ تاثر گہرا ہورہا ہے کہ قیام پاکستان کے ستر سال بعد بھی پاکستانی سماج اعلیٰ اقدار کے تعین اور ان کی پیروی میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کی نشاندہی اور ان سے اجتناب کے لئے اجتماعی کوشش بھی نظر نہیں آرہی۔ ہمارے ملک میں موجود کئی خرابیوں کے اسباب برصغیر میں صدیوں سے جاری جاگیردارانہ نظام میں پنہاں ہیں۔ جاگیردارانہ سوچ اپنے زیر تسلط انسانوں پر اپنی مکمل حاکمیت کی خواہش رکھتی ہے۔ وڈیرہ سوچ عام لوگوں میں تعلیم کے پھیلاؤ اور روزگار کے آزاد ذرائع مثلاً صنعتوں کی مخالف ہوتی ہے۔ چنانچہ زرعی علاقوں میں زیادہ تر دو طبقات امیر اور غریب پائے جاتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں متوسط طبقہ قائم نہیں ہوپاتا۔
وڈیرہ سوچ انسانوں کے درمیان امتیاز کی حامی ہوتی ہے۔ اس کی نظر میں غریب طبقہ احترام کا حق دار نہیں۔ جاگیردارانہ سوچ عورت کو بھی کم تر اور حقیر سمجھتی ہے۔ بڑے بڑے نواب اور جاگیردار لوگوں پر تسلط کے لئے کسی قانون کی پروا نہیں کرتے بلکہ ضرورت پڑنے پر قانون کو تبدیل بھی کروالیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عوامی نمائندوں کی اکثریت زرعی علاقوں سے منتخب ہو کر قانون سازی اور ملک و قوم پر حکومت کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں آتی ہے۔ پاکستانی معاشرے کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ترقی دینے میں، غریب اور محروم طبقات تعلیم، صحت، روزگار کی بہتر فراہمی میں، ریاست کی جانب سے معیاری تعلیم کی عام آدمی تک رسائی میں، آئین میں دئیے گئے کئی حقوق کی فراہمی میں جاگیردارانہ سوچ مزاحمت کرتی ہے۔
دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ، اقربا پروری، ناجائز اور حرام دولت اور دیگر کئی عیوب پر شرمندگی یا بیزاری کے بجائے ان کے لئے آمادگی اور تحسین کے جذبات عام ہورہے ہیں۔ دیانت داری اور سچائی کا تعلق آدمی کے اعلیٰ کردار اور ضمیر سے کم اور قانونی تشریحات سے زیادہ ہوگیا ہے۔ اگر کوئی شخص رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی یا کسی اور غیر قانونی اور غیر اخلاقی ذریعے سے حرام دولت کماتا ہے لیکن اپنے پاس موجود دولت کے لئے قانون کو جواب دینے کے لئے چند دستاویزات حاصل کرلیتا ہے تو وہ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندگی یا سرکاری عہدوں کے لئے ایک سچا اور دیانت دار شخص کہلائے گا۔ کروڑوں روپے ٹیکس چوری کرنے والا شہری ہو یا ایک بدعنوان راشی افسر ایسے لوگوں کے دفتر کے ساتھی، اہل خانہ، کئی دوست احباب بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان کے پاس ٹیکس چوری یا رشوت کا پیسہ ہے۔ لیکن نہ تو وہ ضمیر کی آواز پر کان دھریں گے اور نہ ہی معاشرے میں انہیں کسی طرف سے ناپسندیدگی کا سامنا ہوگا۔ اب تو ہمارے معاشرے میں اخلاقی انحطاط اور فکری افلاس کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ یہاں عزت اور فضیلت کا معیار اعلیٰ اوصاف اور تقویٰ کے بجائے دولت اور اثر و رسوخ کو بنا دیا گیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں کئی خرابیوں کا سبب قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلسل جاری سیاسی عدم استحکام ہے۔ بعض مبصرین 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کے خلاف اسپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز الدین خان کی درخواست کو فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر احمد خان کی جانب سے مسترد کردینے اور نظریہ ضرورت کو ترجیح دینے کو کئی خرابیوں کی بنیادی وجہ بتاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے ابتدائی عشرے کی تاریخ پڑھتے ہوئے میں اکثرسوچتا ہوں کہ سول سروس سے ترقی کرتے کرتے پاکستان کے گورنر جنرل بن جانے والے غلام محمد میں اتنی جرات کہاں سے آگئی کہ پہلے اس وقت کی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین (جن کے نام پر کراچی میں اپنے وقت کی ایک بہترین بستی ناظم آباد بھی بسائی گئی) کوبرطرف کردیں۔ بعد میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وراثت پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو ہی تحلیل کردیں۔ میری سمجھ میں تو یہ بات آئی ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد کو اپنے غیر آئنی اقدامات پر پاکستان کے عوام کی مخالفت کا کوئی اندیشہ نہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ کسی ملک کے عوام اپنے سیاسی اور حکومتی معاملات سے اس قدر لاتعلق کیوں ہوجاتے ہیں۔ دراصل جب حکمران طبقہ اپنے مفادات کو اولیت دے کر اور مختلف منفی طور طریقے اختیار کر کے ریاست اور عوام کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے تو عام آدمی حکومتی معاملات اور ایسی حکومتوں سے بیزار اور لاتعلق ہونے لگتے ہیں۔
سینئر بیوروکریٹ غلام محمد، ان کے بعد اسکندر مرزا اور 1980ء کی دہائی میں بیوروکریٹ غلام اسحٰق خان کو چیئر مین سینیٹ بنانے کے فیصلے غلط تھے۔ دنیا بھر میں سینئر بیوروکریٹ یا فوجی جنرل ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی حکومتوں کا حصہ بننے کے لئے پولیٹکل پراسس کا حصہ بنتے ہیں ۔ یہ تینوں کسی باقاعدہ سیاسی عمل کا حصہ بنے بغیر ملک کے اقتدار و اختیار کے مالک بن گئے۔ ان تقرریوں نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کا سامان کیا۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد مرکز میں واضح اکثریت کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان میں پاکستان کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کی اپنے طور پر یا اتحادیوں کے ساتھ صوبائی حکومتوں کے قیام کے بعد توقع تھی کہ اب حکومتی و سیاسی معاملات عظیم تر قومی مقاصد کے حصول اور قومی مفادات کے تابع ہو کر طے کیے جائیں گے۔ انتخابات کے کچھ ہی عرصہ بعد وفاقی دارالحکومت میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دھرنوں، سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی باہمی چپقلش، آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے سفاکانہ حملے کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان کی کئی شقوں پر عمل درآمد نہ ہونے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں FATAکے بارے میں سینیٹر سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی سفارشات پر ٹال مٹول کی روش، ملک میں بڑھتی ہوئی بد انتظامی و کرپشن اور دیگر کئی خرابیوں نے سیاسی استحکام اور اچھی طرز حکمرانی کی توقعات پر پانی پھیر دیا۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات پر دنیا کے کئی ملکوں میں شدید ردعمل ہوا لیکن پاکستانی سیاست کے لئے یہ انکشافات ایک ایسا زلزلہ بن گئے جس کے آفٹر شاکس ابتدائی زلزلے سے کم نہیں ہوتے اور ان کا تسلسل بھی قائم رہتا ہے۔ اپریل 2016ء میں پانامہ پیپرز کے انکشافات کے بعد پاکستانی سیاست اور صحافت لگتا ہے کہ پانامہ کی اسیر ہو کر رہ گئی ہے۔ ملک کے مفاد کے لئے اس اسیری سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی عدلیہ نے نظریہ ضرورت سے برأت کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ اس ماحول کو ملک میں بھلائی، استحکام ، ترقی اور سماج کی بہتری کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹ سے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا خطاب ریاستی اداروں کے درمیان باہمی تعاون اور قومی مقاصد کے حصول کے لئے مل کر کوششیں کرنے کا ایک واضح پیغام ہے۔
پاکستان کے تحفظ اور ترقی کے لئے جمہوریت ناگزیر اور مضبوط فوج لازمی ضرورت ہے۔ توقع ہے کہ اب ریاست کے سب ادارے ہم آہنگی اور باہمی اعتماد و تعاون کی اچھی مثالوں کے ذریعے ریاست پر عوام کے اعتماد میں اضافے اور فخر کا سبب بنیں گے۔
..................
سب انسانوں کو اللہ کے بندے اور رسول حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا یومِ ولادت مبارک ہو
مسیحی برادری کو بطورخاص مبارکباد ۔
گذشتہ اتوار پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ایک چرچ پر حملہ ہوا۔ اس حملے میں کئی معصوم مسیحی پاکستانی اپنی جان سے گئے ۔ کرسمس کے موقع پر اس حملے کے متاثرہ غم زدہ خاندانوں سے اظہارِ افسوس کے ساتھ یہ دعا کہ پاکستان میں امن جلد قائم ہو، ہرپاکستانی تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کرسکے ۔ آمین

تازہ ترین