• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی معیشت کی اصلاح خیراتی کاموں سے نہیں ہوگی

سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک کے بانی سمیت 17امریکی ارب پتی شہریوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ خیراتی اداروں کو عطیہ کرنے کا اعلان کردیا ہے، دو امیر ترین امریکی شہریوں سمیت 57امیر ترین امریکی شہری اور خاندان اس مہم کے تحت اپنی دولت کا بڑا حصہ عطیہ کرنے کا پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں، علاوہ ازیں امریکی چینل سی این این کے بانی، نیو یارک کے مائیکل بلوم برگ، اوریکل کی بانی میری ایکسن اور ہالی ووڈ کے فلم ڈائریکٹر جارج لوکاس خاص طورسے قابل ذکر ہیں۔ اس وقت ارب پتی امریکی شہریوں کی تعداد 400سے زائد ہے جن کے مالیاتی اثاثوں کا اندازہ لگ بھگ 13کھرب ڈالر ہے۔
گزشتہ دنوں دنیا کی دو امیر ترین شخصیات بل گیٹس اور ویرن بوفے یا (وارن بوفیٹ جو بھی آپ کہہ لیں) بھارتی ارب پتی تاجروں کو اپنی آمدنی فلاحی کاموں اور خیراتی اداروں پر خرچ کرنے کی ترغیب دینے کے مشن پر بھارت پہنچے تھے، امریکہ اور چین کے بعد دنیا کے امیر ترین افراد کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں ہے تاہم بھارت کے ارب پتیوں میں اپنی ذاتی دولت فلاحی مقاصد کے لئے خرچ کرنے کا رجحان بہت کم ہے (امریکیوں کے مقابلے میں) سافٹ ویئر ٹائی کون بل گیٹس نے اپنے دورے کے دوران بھارتی ارب پتی افراد کو اپنی نئی ’’گیونگ پلیج‘‘ نامی مہم سے متعارف کرایا جس کے مقاصد معاشرے کے امیر ترین افراد کو اپنی دولت کا نصف حصہ خیراتی ادروں، فلاحی کاموں اور چیرٹی پروگراموں کے لئے وقف کرنے پر آمادہ کرتا تھا۔ ادھر برطانیہ میں چیرٹی کے لئے عطیات میں اضافہ ہوا ہے تاہم اقتصادی سست روی سے پہلے کی سطح گزشتہ سال کی نسبت بہت کم ہے اگرچہ ایسے افراد کی تعداد میں 2فیصد سے 56فیصد تک اضافہ خوش کن امر ہے۔ برطانیہ میں نیک مقاصد کے لئے گزشتہ سال 13.5فیصد پونڈ دیئے گئے جو کہ سابقہ سال سے زیادہ ہیں۔
میرے حساب سے دنیا کے مسائل خیراتی چیرٹی کاموں سے نہیں حل ہونے والے۔ سرمایہ دارانہ نظام، معاشی ناہمواری، غریبی اور بےروزگاری کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے یہی وجہ ہے کہ جو مظاہرے امریکہ سے شروع ہوئے تھے ان کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا جارہا ہے۔ نیویارک سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ امریکہ کے 70شہروں تک جاپہنچا اور پھر دنیا کے لگ بھگ ہزار شہروں تک پھیل گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک چلانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ان 99فیصد عوام کی نمائندگی کررہے ہیں جو ایک فیصد مراعات یافتہ طبقے کے استحصال کا شکار ہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم غریبی اور بیروزگاری کے خلاف عملی اقدامات کرنے چاہئیں اور یہ کہ ان امیروں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہئے۔ اس وقت ساری دنیا عالمی اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس بحران کا آغاز بل گیٹس کے امریکہ سے ہی ہوا تھا چنانچہ اس کے لئے اگر امریکہ کو کلی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے تو غلط نہ ہوگا، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ کی معیشت کے نشیب و فراز کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی لڑکھڑاتی معیشت نے دنیا کی معیشت کو متزلزل کردیا ہے اور سچی بات تو یہی ہے کہ جب اس بحران کی ابتدا امریکہ نے کی ہے تو اس کا حل بھی اسے ہی نکالنا ہوگا۔
اس وقت امیر ممالک میں دنیا کی کل 20فیصد آبادی بستی ہے لیکن یہ لوگ دنیا کے 80فیصد سے زیادہ وسائل استعمال کررہے ہیں، 20اور 80کے تناسب میں بڑا تضاد ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے غریب رہنے کا یہ ایک بڑا اور خاص سبب ہے کسی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے اس مسئلہ کے پیدا ہونے کے اسباب کو سمجھ لینا چاہئے جیسے ڈاکٹر دوا دینے سے پہلے مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔ آزاد منڈی میں سرمایہ کار کی سب سے بڑی فتح دولت کو پیدا کرنا ہے لیکن اس کامیابی کے بعد دوسرا سب سے بڑا وقوعہ جو عالمی طور پر پیش آیا وہ کاج میں نابرابری و ناہمواری اور عدم مساوات تھا۔ تجارت و صنعت میں حکومت کی عدم مداخلت کا اصول دراصل تجارتی نقطہ نظر سے کوئی تجارت نہیں ہے اس کے منفی اور مثبت اثرات واضح اور صاف نظر آتے ہیں۔ صنعتی انقلاب نے مغربی ممالک میں دولت کا ڈھیر لگا دیا اسے ترقی کا تاریخی کارنامہ بھی کہا جاسکتا ہے اور یہی اس کا ظاہر ہے لیکن اس تاریخی صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ حقوق کی لڑائی، ہڑتال، اوقات کار و مزدوری کا معاملہ اور دولت کمانے کے نئے ہنر نے لوگوں کو تباہ و برباد بھی کردیا حالانکہ تاجر طبقہ اسے مزدوروں کی اہلیت اور کارکردگی کی صلاحیت کہتا ہے لیکن ان تمام حالات نے نابرابری اور عدم مساوات کی خلیج کو کافی گہرا کردیا ہے۔
دنیا بھر کے 27ممالک کے لگ بھگ ایک چوتھائی افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فری مارکیٹ سرمایہ دارانہ نظام نقائص سے پُر ہے، 23فیصد کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بری طرح ناکام ہوچکا ہے اب واپس سوشلسٹ نظام کی طرف جانا ہوگا، 50فیصد کا کہنا ہے کہ ضابطے اور اصلاحات کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود مسائل کو دور کیا جاسکتا ہے۔
امریکہ میں قرضے کے بحران پر ابھی تک قابو نہیں پایا جاسکا، سرمایہ داروں میں غیریقینی کی فضا پائی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی بازار حصص میں دو فیصد کی کمی دیکھی گئی جس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں میں معاشی مستقبل کے حوالے سے پائی جانے والی بے چینی اور غیریقینی صورتحال کو قرار دیا جارہا ہے اس کے ساتھ یورپی مارکیٹوں میں اس سے بھی کہیں زیادہ مندی ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ ایشیائی مارکیٹوں میں بھی مندی کا رجحان رہا تاہم ایک اچھی خبر یہ ہے کہ آج امریکہ کی سست شرح نمو میں کچھ تیزی کا امکان پیدا ہوا ہے۔ امریکہ کی نیشنل ایسوسی ایشن آف ریٹیلرز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں رہائشی عمارتوں اور مکانوں کی فروخت میں 41فیصد اضافہ ہوا ہے، ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق اگر گھروں کی فروخت کی شرح آئندہ پورے ایک برس تک برقرار رہی تو اس کے نتیجے میں امریکہ میں ایک سال کے دوران 50لاکھ گھروں کی خرید و فروخت ہوجائے گی جو کہ شرح نمو کے لئے ایک اچھی مثال ہوگی کہ امریکہ میں ’’ہائوسنگ‘‘ شعبے کو درپیش مشکلات نے ہی حالیہ معاشی بحران کو شدید بنانے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
آج ضرورت امریکہ اور مغربی ممالک کے اخراجات کو کم کرنے کی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے (جس میں یہ ناچیز شامل نہیں ہے) 20فیصد افراد اس وقت 80فیصد وسائل کی کھپت کررہے ہیں اس عدم مساوات کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی کھپت میں کمی ہو ان کے اخراجات میں کمی آئے، امریکی اور مغربی سرمایہ داروں و ارب پتیوں کو سمجھنا چاہئے کہ دنیا کی معیشت کی اصلاح اپنی دولت کا بڑا حصہ یا آدھا حصہ خیراتی اداروں، فلاحی کاموں اور چیرٹی پروگراموں پر خرچ کرنےسے نہیں ہوگی۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ غریبوں کی حالت بدلنے کا دعویٰ کرنیوالےخود غریبی کے ذائقے سے ناآشنا ہوتے ہیں۔

تازہ ترین