اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)پرویز مشرف کے معاملے میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی مصلحت سے کام لیتی رہی ہے۔نوازحکومت میں ہی سابق ڈکٹیٹر بغیر روک ٹوک کے پاکستان سے باہر چلے گئے اور انہیں ای سی ایل میں نام ڈال کر نہیں روکا گیا۔مشرف کے خلاف آئین کی پامالی پر سنگین غداری کا مقدمہ بھی سابق چیف جسٹس کی جانب سے خصوصی عدالت بنانے پر قائم کیا گیا، بصورت دیگر انہیں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑتا۔بلاول بھٹو سابق فوجی حکمران کو اپنی والدہ کا قاتل کہتے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا تھا۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے آپسی اختلافات اپنی جگہ تاہم دونوں جماعتیں سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف سے نالاں ہیں ، گو کہ دونوں جماعتوں نے حکومت میں رہتے ہوئے مصلحت سے کام لیا ہے تاکہ طاقتور حلقوں کے ساتھ تنائو پیدا نہ ہو۔پرویز مشرف سے نفرت کی ان کی اپنی وجوہات ہیں ، تاہم ان دونوں جماعتوں کا ان کے خلاف باہمی اشتراک اچھا شگون ہے ، جو جمہوریت کے لیے بہتر ہے جب کہ غیر آئینی مداخلت کے خلاف ہے۔وہ اس بارے میں احتیاط سے اور قانون کے مطابق اس لیے کام لے رہے ہیں کیوں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے پر عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے معزول وزیر اعظم نواز شریف اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کوئی ایسی عدالت بھی ہے جو مشرف کا احتساب کرےاور پھر وہ خود اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ ایسی کوئی عدالت نہیں ہے۔تاہم یہ ان کی ہی حکومت تھی کہ جس کے ہوتے ہوئے سابق جنرل بغیر کسی روک ٹوک کے پاکستان سے باہر چلے گئے ، حالاں کہ حکومت ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر انہیں باہر جانے سے روک سکتی تھی۔اس وقت عدالت عظمیٰ سمیت کسی بھی عدالت نے مشرف پر غداری کے سنگین الزامات پر مقدمہ نہیں چلایا بلکہ یہ وفاقی حکومت پر چھوڑدیا کہ وہ میڈیکل کی بنیاد پر انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دے یا نہ دے۔تاہم نواز شریف کی حکومت نے مشرف کے خلاف آئین کی پامالی پر سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا اور ایسا بھی اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جانب سے تین رکنی خصوصی عدالت بنائے جانے کے بعد کیا گیا تھا بصورت دیگر انہیں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑتا۔نوا ز شریف نے اب واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ انہیں نااہل قرار دیئے جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کی حکومت نے مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا۔تاہم یہ سب جانتے ہیں کہ انہیں ایسا کرنے پر اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان نے مجبور کیا تھا۔شاید وہ غلط بھی نہ ہوں تاہم انہوںنے اس بارے میں پہلے کچھ نہیں کہا۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی مشرف کو اپنی ماں بے نظیر بھٹو کا قاتل ٹھہرایا ہے، لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے والد کی حکومت نے ڈکٹیٹر کو گارڈ آف آنر دیا تھا۔ان میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ ان کے خلاف مقدمہ کرتے بلکہ ان کی پوری حکومتی مدت کے دوران مقدمہ انتہائی سست روی کا شکار رہا۔زرداری کے 5برس کے دور حکومت میں مشرف کو کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔انسداد دہشت گردی عدالت(اے ٹی سی) میں جب اس مقدمے کی سماعت ہوئی تو پیپلز پارٹی بہت حد تک اس سے لاتعلق رہی۔تاہم اب وہ عدالت عالیہ میں درخواست دائر کررہی ہے، جو ظاہر ہے بدلتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔اے ٹی سی ، سے مسلسل غیر حاضری کے سبب مقدمے کی سماعت زیر التواء ہے اور ان کی حاضری پر دوبارہ شروع ہوجائے گی۔ابتدا میں ق لیگ کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی کو بھی بے نظیر قتل کیس میں چار دیگر افراد کے ہمراہ شامل کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں پیپلز پارٹی نے ان پر لگائے گئے الزامات واپس لے لیے اور انہیں نائب وزیر اعظم بنادیا۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مشرف کے خلاف لیے گئے موقف میں ان کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔وہ خود اس قتل کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں اور اپنا موقف تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ایک موقع پر انہوں نے قتل کا ذمہ دار زرداری کو ٹھہرایا تھا ۔اب ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کرپٹ عناصر اس قتل کے پیچھے ہوسکتے ہیں۔جب کہ پہلے وہ تحریک طالبان پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے تھے۔البتہ ان کا واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔انہوں نے اس بات کا بھی اقرار کیا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف نے پاکستان سے باہر جانے میں ان کی معاونت کی تھی اور وہ اس بات پر خوش بھی تھے۔مشرف ملک سے باہر خوش ہیں ۔وہ جیسے ہی واپس آئیں گے ، انہیں مشکلات کا سامنا ہوگا۔وہ سیاست میں متحرک کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ، ان کا ماننا ہے کہ انہیں سیاست میں اہم کردار ادا کرنا ہے، جب کہ عام رائے یہ ہے کہ سیاسی میدان میں ان کا کوئی خاص ووٹ بینک نہیں ہے۔انہوں نے جو سیاسی جماعت بنائی ہے ، وہ بھی سیاسی میدان میں کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔