• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ کی طرف سے والدین ایک انمول تحفہ ہیں ، یہ ایسا بے لوث رشتہ ہے جس کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں ،قرآن پاک میں والدین کی عظمت کا نہ صرف اعتراف کیا گیا بلکہ حکم خدا وندی ہے کہ انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو ، انہیں اُف تک نہ کہو، اولاد کو انکی اہمیت کا ادراک اور احساس اُسوقت شدت کیساتھ ہوتا ہے جب وہ خود والدین بنتے ہیں ۔ میں عام طور پر سنا کرتا تھا کہ یہ رشتے سانجھے ہوتے ہیں ، مجھے ان الفاظ کی صحیح سمجھ اُسوقت آئی جب 22 سال پہلے 16دسمبر 1995ء کو میری والدہ اس جہان ِ فانی سے رخصت ہوئیں اُنکی وفات کے بعد آج تک جب کبھی کسی کی ماں کی وفات کی خبر سنی تو ایسا لگا کہ جیسے میری ماں پھر فوت ہوگئی۔باپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے وہ درجہ دیا ہے جو کسی اور کو نہیں ملا، اِسکی ناراضی کو اپنی ناراضی کہا ،اسمیں کوئی شک نہیں کہ ہر باپ اولاد کیلئے عظیم ہوتا ہے ، میرے والد 14دسمبر2017ء کو عارضی زندگی سے حقیقی زندگی کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَoمیری ان سے وابستہ بہت سی یادیں ہیں جو بچپن سے لیکر بڑے ہونے تک بڑھتی گئیں۔ میں انکو تحریر میں لانا چاہتا ہوں اس لئے نہیں کہ وہ میرے باپ تھے بلکہ اس لئے کہ وہ اس معاشرے کے باپ تھے ، اس ملک کے ایک ایسا سپوت تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی دین اور خدمت خلق کیلئے وقف کر رکھی تھی ، جنکا ہر قدم خدا کی رضا کیلئے اٹھا اوررُکا ، میں اُنکی 91سالہ زندگی کا احاطہ ان چند سطور میں نہیں کر سکتا، نہ ہی میرے جذبات کا یہ قلم صحیح طرح سے ساتھ دے سکتا ہے۔ چند ایسے واقعات ضبط تحریر میں لانیکی کوشش کرونگا جو نہ صرف اولاد کی بہترین تربیت کا سبب بنے بلکہ اپنے معاشرے پر بھی بہت مثبت اور گہرے اثرات مرتب کرگئے۔ میرے والد محترم میاںمحمدیوسف تہامی 1927ء کے اوائل میں حافظ آباد میںپیدا ہوئے ۔ میرے دادا فیروز الدین تہامی ابھی نوجوان ہی تھے کہ اُنکے والد جو محکمہ انہار میں ملازم تھے، کاانتقال ہوگیا۔ میرے والد کی عمر اُسوقت دس برس تھی اور پرائمری میں پڑھ رہے تھے چونکہ وہ اپنے خاندان کے بڑے بچے تھے اور انہیں احساس ہوا کہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر والد کیساتھ مل کر محنت مزدوری شروع کر دی ۔ بارہ برس کی عمر میں وہ عطاء اللہ شاہ بخاری کی جماعت مجلس احرار میں شامل ہوگئے، وہ دن اور آج کا دن اُنکی ساری زندگی جدوجہد میں گزری ، پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے بہت متاثر تھے اور اُنکی وفات تک اُنکے بااعتماد ساتھیوں اور کارکنوں کی طرح ساتھ رہے۔
میں بچپن سے لیکر آج تک دیکھتے چلا آیا ہوں کہ انہوں نے نماز کا اہتمام ہمیشہ جماعت کیساتھ کیا خواہ وہ کسی سلسلہ میں سفر پر ہی ہوں ،وہ اپنے سارے معمولات کی ترتیب نمازوںکے اوقات کے مطابق کرتے ۔ میں بہت چھوٹا سا تھا کہ ہمارے گھر میںاُنکے کچھ دوست ان سےملنے آئے۔ ان میں سے کسی ایک نے اُن سے سوال کیا تہامی صاحب آپکو ہمیشہ کاٹن کے سفید کپڑے پہنے دیکھا ، اسکی کیا وجہ ہے ۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ کپڑے میرا اخلاقی چیک ہیں ، اُنکی بڑی خواہش تھی کہ میں قرآن پاک کا حافظ بنوں جس کیلئے مجھے مدرسہ اشرفیہ میں قاری صنعت اللہ کی شاگردی میں بٹھایا اور اللہ کے خصوصی فضل سے میں نے ساڑھے نو برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا، پھر رمضان المبارک میں قرآن سنانے کا باقاعدہ اہتمام کرتے رہے میں جب میٹرک کر کے مزید پڑھنے کیلئے حافظ آباد سے نکلاتو مجھے یہ نصیحت کی کہ ’’بیٹا پڑھنا یا نہ پڑھنا مگر اپنا کردار خراب نہ کرنا اور تمہیں پتہ ہونا چاہئے کہ سفید کپڑوںپرداغ بڑا بُرا لگتا ہے ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ میرے کانوں نے یہ الفاظ دوسری مرتبہ سنے تھے اور ان چند الفاظ نے میری پوری کیمسٹری تبدیل کر کے رکھ دی اور یہ الفاظ آج تک میری تربیت کا ساماںبنے ہوئے ہیں میںبچپن سے اپنے والد سے یہ سوال کرتارہا کہ جب خیر اور شر کا وجود ازل سے ہے تو ہم شر کیخلاف جتنی مرضی کوششیں کر لیں یہ تو ختم نہیں ہوتا۔ جس پر انہوں نے مجھے حضور ؐکی حدیث بیان کی اور ساتھ یہ بھی وضاحت کی کہ ہمیں بُرائی کیخلاف جہاد میںاپنا حصہ ضرور ڈال کر اسکے نتائج اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینے چاہئے ۔ ہم نے انہیں ساری زندگی بُرائی کیخلاف جہاد کرتے ہوئے دیکھا ۔ وہ ہمیشہ مستقل مزاجی سے دین کے غلبے اور بُرائی کے خاتمے کیلئے سینہ سپر رہے ، پہلی مرتبہ وہ 1953ء کی تحریک ختم نبوّت میں گرفتار ہوئے ، پھر آج تک جتنی بھی مذہبی ، سیاسی تحریکیں چلیں وہ اُسکے روح رواں ہوتے، انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ 1974ء کی تحریک نبوّت میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو شہر حافظ آباد میں اکٹھا کیا اور حافظ آباد کی تاریخ میں شاید ملک بھر کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ 6 مئی 1974ء کو سرکاری پڑائو میں ایک ہی جگہ جمعتہ المبارک ادا کیا گیا ، اُس روز شہر کی کسی مسجد میں جمعہ نہ ہوا ۔ گو وہ جماعت اسلامی کے امیر پھر اسکی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے لیکن بلا تخصیص تمام مسالک کے علماء، سب سیاسی جماعتیں انہیں نہ صرف عزت کی نگاہ سے دیکھتیں بلکہ ہر بننے والے اتحاد کے روح رواں ہوتے ،اور ایسی سرگرمیوں کا مرکز ہمارا گھر ہوتا ۔مجھے یاد ہے کہ 1977ء کو بننے والے پاکستان قومی اتحاد کے وہ جنرل سیکرٹری تھے اور تحریک نظامِ مصطفیٰ ؐکے دوران ایک رات 2بجے کے قریب پولیس اور ایف ایس ایف کے سینکڑوں غنڈے ہمارے گھر پر حملہ آور ہوئے، میرے والد اور بڑے بھائی خالد تہامی جنہوں نے اُس وقت قانون کی ڈگری مکمل کر کے نئی نئی پریکٹس شروع کی تھی دونوں کو گرفتار کر کے لے گئے ۔ والد محترم کوجھنگ جیل جو اُسوقت نئی بنی تھی وہاں شفٹ کیا جبکہ خالد تہامی کو گوجرانوالہ جیل ، وہاں سے انہوں نے چائے کی پتی کی ڈبی کے کاغذ پر مجھے پیغام بھیجا کہ بیٹا تحریک بند نہیں ہونی چاہئے ،اسوقت میری عمر صرف 16برس تھی۔ پھر اسکے بعد بھی جتنے بھی اتحاد بنے جن میں کشمیر کے حوالے سے ہو ، اسرائیل کیخلاف امت مسلمہ کیلئے تحریک ، ملی یکجہتی کونسل یا متحدہ مجلس عمل وہ سب میں متحرک کردار ادا کرتے رہے اور اِن کے زیرک فیصلوں کو تمام مکاتب فکر اہمیت دیتے —وہ ہر غریب کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے بغیر کسی لالچ اور منفعت حل کرانے میں نہ صرف اس کا ساتھ دیتے بلکہ اکیلے ڈٹ جاتے ۔ وہ خدمت حلق کیلئے ہمیشہ پیش پیش ہوتے ۔زندگی کے آخری ایام میں مہینہ بھر وہ علالت کیوجہ سے بستر پر تھے ۔ ورنہ ساری زندگی نوجوانوں کی طرح متحرک رہے اور ہمیشہ مضبوط ایمان کیساتھ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے، وہ کبھی نہ جھکے نہ اُنکے ایمان میں لغزش آئی ۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہمیشہ انکی پہلی ترجیح رہی وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے ’’ جس نے رزق دینا ہے اسکی تلاش جاری رکھو، وہ آپکے رزق کا اہتمام بھی کریگا‘‘ وفات سے چند روز پہلے میں نے اُنکو ویل چیئر پر بٹھا کر دھوپ میں اُنکی کٹنگ وغیرہ کروائی تو اس دوران میں نے پرانی باتوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا ۔ ماشاء اللہ اُنکی یاداشت اسی طرح قائم تھی اور وہ تاریخوں کیساتھ مختلف واقعات سناتے رہے۔ میں نے اُن سے سوال کیا کہ ابا جی آپ نے سائیکل کتنی دیر تک چلائی تو انہوں نے کہا کہ 1948ء سے لیکر 2002ء تک باقاعدہ چلاتا رہا ہوں ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہاں کی زندگی کے دُکھ اور سکھ سب عارضی ہیں ۔ ہمیں ابدی زندگی کی تیاری کرنی ہے اور ہر نفس نے اصل کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ میرے اباجی بھی آخرت کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے کہ انہوں نے ایک بامقصد زندگی گزاری ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، جنت الفردوس میں اُنکے درجات بلند کرے اور انہوں نے جو نیک کام کئےہیں، انکا جو مشن تھا اس پر چلنے کی ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں ثابت قدم رکھے اور استقامت عطا فرمائے ۔ آمین ۔ آخر میں ، میں اُن تمام احباب، دوستوں اور ہر کسی کا شکر گزار ہوں جو ہمارے غم میں شریک ہوئے ۔ خود حاضر ہوئے ، فون کئے، پیغام بھیجے ، وٹس ایپ کئے ، اور آج کے دور میں خطوط بھی لکھے اللہ تعالیٰ اُن سب کو جزا دے ۔آمین!.

تازہ ترین